حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اُسوہ

شمع فروازاں:مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
اسلام کے اصل معنی افگندگی اور تسلیم و رضا کے ہیں ، انسان اپنے آپ کو خالق کے حکم کے سامنے بچھادے ، اپنی خواہشات کو خدا کی رضا جوئی کی چوکھٹ پر قربان کردے اور یہ عقیدہ و ایمان سے لے کر جان و مال اور اس سے بڑھ کر اولاد و عیال تک ہو جائے تو یہ بندگی کا کمال اور عبدیت کی معراج ہے ، عبدیت و بندگی کا یہ درجہ و مقام انسان کے جس گروہ کو سب سے بڑھ کر حاصل ہے ، وہ حضراتِ انبیاء کرام ہیں جو اللہ کے سب سے محبوب بندے اور انسان کے لئے اسوۂ کامل ہیں ، ان کا ایک ایک عمل زمین پر اللہ کی مرضیات کی زندہ شہادت ہے ، یہ انبیاء زمین پر ہدایت کی روشنی اور مشعل راہ کا درجہ رکھتے ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابنیاء کرام علیہم السلام میں بھی کسی قدر مرتبہ و مقام کا فرق رکھا ہے ، نبوت کے سلسلۃ الذہب میں ایک نہایت عظیم اور برگزیدہ شخصیت ابو الانبیاء حضرت ابراہیم ں کی ہے ، اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے قربانی کی کوئی قسم نہیں جو ان سے چھوٹی ہو اور امتحان وآزمائش کی کوئی بھٹی نہیں جس میں ان کو تپایا نہ گیا ہو ، انھوں نے اپنے خالق کے ساتھ وفا شعاری ، عبدیت و بندگی ، خدا کی محبت میں خلائقِ دنیا سے بے نیازی ، خود سپردگی ، شرک سے نفرت ، دعوتِ حق اور بیت الٰہی کی تعمیر و تجدید کے ایسے زندہ و تابندہ نقوش خدا کی زمین پر چھوڑے کہ خود خدا کو بھی اپنے اس وفا شعار بندے کی ادائیں محبوب و مرغوب ہو گئیں اور اُمتِ محمدیہ کے لئے سنن ابراہیمی کو تازہ رکھنے کا سامان کیا گیا ، حج در اصل اللہ کے اسی نیک بندے کی یادگار اور خدا کے سامنے تسلیم ورضا کا شعار ہے ، کعبہ جس کی نبیادیں تک مٹ چکی تھیں ، حضرت ابراہیم ں نے اس کی تجدید فرمائی ، آج بھی مقام ابراہیم کعبہ کے سامنے موجود ہے ، زم زم کا چشمۂ حیوان حضرت اسماعیل ں کے لئے نصرتِ الٰہی کی یاد دلاتا ہے ، صفا اور مروہ کی سعی سے ایک بندئ صالحہ حضرت ہاجرہؓ کی بے چینی اور بے تابی کی یاد تازہ ہوتی ہے ، پھر منیٰ کی قربانی اس ذبحِ عظیم کی یادگار ہے ، جس میں ایک پیغمبر نے اپنے لختِ دل کو اپنے تئیں خدا کی خوشنودی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھایا تھا ، جمرات کی کنکریاں عزمِ ابراہیمی اور وسوسۂ شیطانی سے پنجہ آزمائی کا اظہار ہے ۔
یہی اسوۂ ابراہیمی ہے ، کہ سب کچھ خدا کی خوشنودی کی چوکھٹ پر قربان ہو جائے ، اپنی اور اپنوں کی خواہش ، دوستوں اور قرابت داروں کی خوشی ، انسانی زندگی میں قدم قدم پر ایسے مواقع آتے ہیں ، کہ اللہ کا حکم اور ہوتا ہے ، انسان کی خواہش کچھ اور ، نفس چاہتا ہے کہ یہ حلال ہو مگر شریعت اسے حرام قرار دیتی ہے ، یہی وقت ہے انسان حضرت ابراہیمں کے کردار کو یاد
کرے ، شادی بیاہ کا موقع دیکھئے ، نوشہ کی طرف سے خطیر رقم کا مطالبہ ہے ، نوشہ کے والد کی خواہش ہے کہ کھانا کا خوب سے خوب تر اور اچھا سے اچھا انتظام رہے ، نوشہ کی والدہ کی طرف سے زیورات کی طلب ہے ، بھائی بہنوں کا شوق ہے ، کہ اچھی قسم کی گاڑی ضرور ملے ، دوست احباب کہتے ہیں ، کہ اگر اس موقع سے بھی رقص و سرور نہ ہو تو تقریب میں کیا لطف آئے گا ؟ اللہ اور اس کے رسول اکی مرضی ان سب کے خلاف ہے ، شریعت اس لین دین کو رشوت قرار دیتی ہے ، گانے بجانے کو منع کر تی ہے اور کہتی ہے کہ یہ موقع خدا کا شکر بجالانے کا ہے ، اس کے سامنے سر جھکانے کا ہے ، خدا کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور مانگنے کا ہے ، یہی وقت ہے کہ انسان حضرت ابراہیم ں کے کردار کو یاد کرے کہ کیا وہ اپنے جذبات کو خدا کی مرضی پر قربان کرنے اور اپنے متعلقین کی خواہش کو خدا کے رسول کی خواہش کے سامنے بھینٹ چڑھانے تیار ہے ؟
انسان کے لئے بڑے امتحان کا موقع کسبِ معاش کے ذرائع ہیں ، ان میں حلال وحرام کا امتیاز ، حرص و ہوس کے اس دور میں تقویٰ کی اصل کسوٹی ہے ، امام محمد ؒ سے کسی نے عرض کیا کہ آپ نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں ، زہد و تقویٰ کے موضوع پر آپ نے قلم نہیں اُٹھایا ؟ امام محمد ؒ نے اپنی اس کتاب کا حوالہ دیا جس میں معاملات اور کسبِ معاش کے احکام ہیں اور فرمایا کہ وہی زہد و تقویٰ کی کتاب ہے ، یعنی معاش کے معاملہ میں اپنے آپ کو حلال کی حدود میں قائم رکھنا اور حرام سے بچائے رکھنا ہی انسان کی دکھتی رگ ہے اور اس میں اپنے آپ کو حکم شریعت کا پابند بنا لینا اصل تقویٰ ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اکثر اوقات انسان کے لئے نماز روزہ کا اہتمام آسان ہوتا ہے ، آدمی حسبِ توفیق کچھ ذکر و تسبیح بھی کر لیتا ہے ؛ لیکن اپنے آپ کو اس نفع سے دست کش رکھنا دشوار ہوتا ہے جس کو شریعت جائز نہ رکھتی ہو اور جس کو آج کا سودی نظام حلال کئے ہوئے ہے ، یہ مواقع ہیں کہ جہاں اسوۂ ابراہیمی ایک صاحبِ ایمان کے سامنے آئینہ بن کر آجاتا ہے ، وہ اس میں اپنے ایمان ، حکم خداوندی کے سامنے تسلیم و رضا اور شریعتِ الٰہی کے سامنے سر افگندگی کی تصویر دیکھے اور خود اپنے آپ کو تولے کہ اس نے جانور کی قربانی کر کے علامتی طور پر خدا سے خود سپردگی کا جو وعدہ کیا تھا ، کیا وہ زندگی کے ہر موڑ پر اس وعدہ کو وفا کررہا ہے ؟؟ ۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار معروف عالم دین اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری ہیں)