پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
عید الاضحی کی آمد سے قبل گؤرکشکوں کی غنڈہ گردی کی خبر مسلسل سرخیوں میں تھی ،ہرروز اخبارات کے صفحات پر یہ خبر چھپ رہی تھی کہ آج فلاں صوبہ میں گائے لے جانے کے الزام میں مسلمانوں کو مارا گیا ،انہیں قتل کیا گیا ،پولس نے جیل کی سلاخوں میں بند کردیا ،کسی جگہ بیف کا گوشت کھانے اور لے جانے کا الزام عائد کرکے گؤرکشکوں نے غنڈہ گردی مچائی ،یہ خبربھی آئی کہ گؤ تکسری کے الزام میں بی جے پی کے دورکن بھی مسلمان سمجھ کر ماردئے گئے، مسلمانوں کے ساتھ دلتوں پر ظلم ڈھایاگیا ، گجرات میں گؤکشی کا الزام عائد کرکے دلتوں کو قتل کردیا گیا ،ملک کے حالات اس قدر سنگین ہوگئے تھے کہ وزیر اعظم کو بھی زبان کھولنی پڑی ،یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے گؤتحفظ کے نام پر صرف دلتوں کے قتل کی مذمت کی ،مسلمانوں کے ساتھ کئے جارہے ظلم وستم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا،اخلاق مرحوم کے اہل خانہ پر بیف رکھنے کے الزام میں ایف آئی بھی انہیں دنوں درج کی گئی ،ڈراور خوف کے نتیجے میں دادری کے مسلمانوں نے سال رواں قربانی بھی نہیں کی جہاں سال گذشتہ پچاس سالہ محمد اخلاق کو ایک بھیڑ نے تڑپاتڑپا کر محض اس الزام میں ماردیاتھاکہ ان کے فریج میں گائے کا گوشت رکھاہواہے،تجزیہ نگاریہ کہ رہے تھے کہ ملک کی سیاست کااصل محور اب بیف بن گیا ہے ،ایک ہم عصر صحافی کی زبان میں’’ مسلمان گائے کی تلاش میں تھے اور گؤرکشک مسلمانوں کی تلاش میں‘‘۔ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں میرا خیال تھاکہ بہار میں بھی سال رواں پہلے کی طرح آزادی نہیں ہوگی ،وہاں بھی عیدالاضحی کے موقع پر مشکل حالات کا سامنا کرناپڑسکتاہے،عیدالاضحی کے موقع پر دہلی ،ممبئی سمیت مختلف شہروں سے بہار آنے والوں کا بھی کچھ یہی خیال تھا ،ایک خوف اور ڈر ان کے دلوں میں سمایا ہواتھا لیکن یہاں آنے کے بعد معلوم ہواہے کہ بہار مکمل طور پر پرامن ہے ،امن وشانتی کا ماحول ہے ،لوگ پہلے کی طرح آزادی کے ساتھ گائے کی قربانی کررہے ہیں،برادراوطن کی جانب سے کسی طرح کا کوئی تشدد نہیں ہے ،پوری ریاست میں ہم آہنگی کی فضا ہے ،دراصل بہار میں گائے کی قربانی کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے ،یہاں گائے کے بجائے بیل یا بھینس کی قربانی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ،خاص طور پر بھینس کی قربانی لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں،عام دنوں میں بھی یہاں بھینس کا گوشت پسند نہیں کیا جاتاہے ۔گذشتہ ریاستی الیکشن میں بی جے پی کے انتخابی ایجنڈا میں گؤتحفظ کا مسئلہ سرفہرست تھا ،اخبارات میں گؤ تحفظ کا اشتہار شائع کراکر ہندوووٹ لینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن بی جے پی کی یہ تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئی اور عظیم اتحاد نے تاریخ ساز جیت حاصل کرکے بہار میں گائے کے نام پر فسادبرپاکرنے والوں کے منصوبہ کو خاک میں ملادیا، عظیم اتحادکی جیت اور نتیش کمار کے وزیر اعلی بننے کے بعدکسی خوف اور ڈر کے بغیر ماضی کی طرح گائے کی قربانی کا سلسلہ جاری رہا۔
بہار میں ایک اور مہم صفائی ستھرائی کی چل رہی ہے ،بہار اپنی بہت سی خصوصیات کی وجہ سے جہاں دنیا بھر میں مشہور ہے تو وہیں کچھ وجوہات کی بناپر بدنام بھی ہے ،بدنامی کی ایک وجہ گندگی اور قضائے حاجت کیلئے سڑکوں کا استعمال ہے ،یہاں کے اکثر گاؤں کی سڑکیں گزرنے کے قابل نہیں ہوتی ہے، لیکن اب معاملہ ایسا نہیں ہے ،تمام سڑکیں صاف ہوچکی ہیں،نتیش کمار اس کیلئے خصوصی مہم چلارہے ہیں،ہر ضلع کے ڈی ایم کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ،وارڈ ممبراور دیگر لوگوں کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا ہے جن کی ذمہ داری شام سے لیکر رات کے دس بجے تک اور صبح تین بجے سے سات بجے صبح تک سڑکوں پر پہرہ داری کرنے کی ہے ،اس دوران ہر گھر میں بیت الخلاء کی تعمیری مہم جاری ہے ،جن کے پاس صلاحیت نہیں ہے انہیں12 ہزار روپے دئے جارہے ہیں،کچھ دنوں بعد سڑکوں پر قضائے حاجت کرنے والوں پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا ،صفائی ستھرائی کی یہ مہم ایک بہتر پیش رفت ہے اور لوگ اب عافیت محسوس کررہے ہیں۔
بہار کی عوام حکمراں جماعت سے خوش ہے ،نتیش کمارکو وہ ایک بہتروزیر اعلی مان رہے ہیں،ان کے اقدامات کا ہرجگہ خیر مقدم کیا جارہاہے ،لوگوں کا کہنا ہے کہ نتیش کمار جیسے شخص کو ہی ملک کا وزیر اعظم بننا چاہئے ،ان کی وجہ سے بہا رمیں ترقی ہوئی ہے ،گذشتہ گیارہ سالوں میں بہار بہت بدل گیا ہے ،نتیش کے پی ایم بننے کے بعد ہندوستان کی تصویر بھی بدل سکتی ہے ، شراب بندی قانون سے تقریبا سبھی خوش ہیں ،سماج او ر معاشرہ میں ایک مثبت بیداری آرہی ہے ،منشیات کا استعمال کم ہورہاہے۔
بہت کچھ بدلنے کے باوجود بہار میں بہت کچھ بدلنا ابھی باقی ہے ،یہ ریاست اب بھی بہت پسماندہ ہے ،روزگار کے مواقع کا فقدان ہے، گاؤں اور دیہاتوں کی سڑکیں بہتر نہیں ہوسکی ہیں ،کرپشن اور رشوت عام ہے ،تعلیمی معیار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آسکی ہے ،بہت سے گاؤں میں اب تک بجلی کی سہولت نہیں ہے ،سیتامڑھی ضلع میں واقع میرا گاؤں رائپور بھی اسی تاریک بہار کا حصہ ہے ،میرے گاؤں کے نصف حصہ میں کافی دنوں سے بجلی ہے اور نصف حصہ میں اندھیر چھایاہواہے ،بجلی نہ ہونے کی وجہ سے آج کا یہ کالم لکھنا بھی میں نے ملتوی کردیاتھا لیکن گاؤں کے ایک دوست جناب مظفر عالم کو میرا یہ شیڈول یادتھا اس لئے انہوں نے فون کرکے کہاکہ کل جمعرات ہے آپ اپنا کالم کیسے لکھیں گے ؟پھر وہ گھر پر آگئے اور لیپ ٹاپ کے ساتھ مجھے اپنے گھر پر لے گئے ،ان کا مکان گاؤں کے بجلی والے حصہ میں واقع ہے،ان کے گھر پر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت بھی دستیاب ہے ،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی اہلیہ محترمہ نزہت جہاں صاحبہ خود جرنلسٹ ہیں اور مسلسل لکھتی رہتی ہیں،انقلاب میں ان کا کالم شائع ہوتاہے ،ملت ٹائمز میں فیچر رائٹر کی حیثیت سے وہ منسلک ہیں،ان ہی کے گھر میں بیٹھ کر میں یہ تحریر سپر د قرطاس کررہاہوں۔
آپ تمام قارئین کو عیدالاضحی کی خوشیاں بے پناہ مبارک ہو!
stqasmi@gmail.com
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)