حالات ہم سے کچھ مطالبہ کرتے ہیں

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
عیدالاضحی کا عظیم تہواررخصت ہوگیاہے،دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق جانوروں کو ذبح کرکے بارگاہ خداوندی میں قربانی پیش کردی ہے ،جدامجدحضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر مسلمانوں نے شوق وجذبہ سے لبریز ہوکر عمل کیا ہے،جن مسلمانوں کے پاس قربانی کی حیثیت نہیں تھی انہیں بھی گوشت میں یادرکھا گیا ہے لیکن کیامسلمانوں نے اس موقع پر اپنی اناکو بھی ذبح کردیاہے ،ایک دوسرے کے خلاف دلوں میں جو نفاق چھپا ہواہے اس پر بھی انہوں نے چھڑی چلادی ہے ،پڑوسیوں اور ہم پیشہ لوگوں کے تئیں جو نفرت دلوں میں بسی ہے اس سے انہوں نے توبہ کرلیاہے،ہردم دشمنوں سے انتقام کی آگ جو دہکتی رہتی ہے اسے انہوں نے بجھادیاہے۔قربانی صرف جانوروں کو ذبح کرنے کا نام نہیں ہے ،راہ خدامیں مہنگے ترین جانوروں کی قربانی پیش کرنا مقصودنہیں ہے بلکہ اصل مقصد اللہ تبارک وتعالی کی رضاوخوشنودی کا حصول اور ان کی اطاعت کی خاطر اپنی عزیز ترین شی کو بارگاہ خدامیں قربان کردینے کے جذبہ سے سرشار ہوناہے،یہ قربانی جدامجدحضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ،ان سے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا مطالبہ کیا گیا تھا اور انہوں نے بغیر چوں چراکہ اسے بارگاہ خداوندی میں پیش کیا ،ان کی یہ ادااللہ رب العزت کو بیحدپسند آئی ،ان کی جگہ جنت کا ایک دنبہ ذبح کیا گیا اور یہ عمل امت محمدیہ میں واجب قراردیاگیا۔
آج مسلم معاشرہ قربانی کے حقیقی جذبہ سے عاری ہے ،دلوں میں نفرت ،عداوت ،حسد ،بغض ،کینہ ،نفاق اور انتقام کا بسیراہے ،زمانہ جاہلیت کی طرح وہ آج بھی خاندانی لڑائی کا شکار ہے ،ایک بالشت زمین کی خاطر خون خرابہ کرنے پر آمادہ ہوجاتاہے ،ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے ،ایک بھائی دوسرے بھائی کی مقبولیت کو برداشت نہیں کرپاتاہے ،باپ کی وراثت سے ملنے والی جائدادمیں ذراسی کمی بیشی سے قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوجاتاہے۔ایسے متعدد واقعات کا آپ نے مشاہد ہ کیا ہوگا ،سناہوگا،دیکھاہوگا اور ممکن ہے خود بھی آپ ایسے حالات سے گزررہے ہوں گے ذیل میں چند ایسے ہی واقعات میں سپر د قرطاس کررہاہوں۔
گذشتہ دنوں ایک رشتے دار کے بارے میں مجھے معلوم ہواکہ انہوں نے شاندار گھر بنایاہے ،ملاقات کیلئے ان کے گھر پر گیا تو دیکھاکہ کام ابھی جاری ہے اور وہاں کچھ پرانی کھڑکیاں رکھی ہوئی ہیں ،میں نے گفتگو کے دوران پوچھ دیایہ پرانی کھڑکیاں کہاں سے حاصل کی آپ نے ،نیا لگاتے تو بہتر تھا ،کہنے لگے پرانے گھر سے نکال کرلے آیاہوں ،بھائیوں نے میرا جینا دوبھر کردیاتھا اس لئے علاحدہ گھر بناناپڑا،ان کے کرتوتوں کو دیکھ کر میرے دل نے گوارہ نہیں کیاکہ باپ سے حصے میں مجھے جو روم ملاتھااسے صحیح سالم چھوڑدوں اس لئے میں نے کھڑکی اور دروازہ سب نکال لیاہے ،دل تو چاہتاہے کہ درمیان سے اپنے روم کو منہدم بھی کردوں لیکن اخلاقی غیرت اجازت نہیں دیتی ہے کیوں کہ اس سے پورا مکان متاثرہوجائے گا۔کل کی بات ہے محلے کی مسجد سے مغرب کی نماز پڑھ کر باہر نکل رہاتھا ایک قریبی جاننے والے مسجد کے دروازے پر بائک سے آکر رکے اور نمازیوں سے کہنے لگے میرے باپ اور بھائی نے ظلم کی انتہاء کردی ،پوچھاگیا کیا ہوابولے ہم چار بھائی ہیں،میرے والد نے تین بھائیوں کو ہی پوری زمین رجسٹری کردی ہے اور میرے بارے میں کہاکہ وہ مرچکاہے ،میں نے ان کی تسلی کیلئے کہاکہ زندگی میں مردہ قراردیکر حق چھین لینے کا کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے جو آپ کے ساتھ پیش آیاہے ،دہلی میں ایک شاعر ہیں ’’اسرار جامعی‘‘ انہیں بھی مردہ قراردیگر پنش سے محروم کردیاگیا ہے ،وہ زندہ ہوکر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہیں،’’پنش لینے جاتے ہیں تو کہاجاتاہے کہ آپ مرچکے ہیں‘‘۔آگے وہ صاحب کہنے لگے یہ سب میرے بڑے بھائی کی شرارت ہے ،لیکن اب میں بھی نہیں چھوڑوں گا ،پرانا گھرمیرا بنایا ہواہے اس میں سے جو میرا روم ہے اسے میں اپنے ہاتھ سے توڑوں گا اس کے بدلے دس لاکھ روپے بھی دیئے جائیں گے تو وہ میں نہیں لوں گا ۔گاؤں کے ایک صاحب نے بتایاکہ میرے گھر سے کھیت ہوکر مسجدکو جانے والایہ راستہ کافی قریب تھا میں اسی سے نماز پڑھنے جاتاتھا ،ایک ہفتہ بعد درمیان میں جس کا گھر واقع ہے انہوں نے راستہ بند کردیا ۔یہاں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا ایک مدرسہ ہے ،اس میں مولوی کی ایک جگہ خالی ہوئی ،اس پر گاؤں کے ایک صاحب نے(جو صرف بورڈ کی نظر میں امتحان دیکر مولوی ہے ،حقیقت میں مولویت کی میم سے بھی انہیں واقفیت نہیں ہے) کسی کو اطلاع دیئے بغیر بحالی کرالی ،ہیڈمدرس کو جب دو ماہ بعد معلوم ہواتے انہوں نے جوائن کرنے سے انکار کردیا ،یہ تنازع ابھی جاری ہے لیکن اب تک یہ معمہ حل نہیں ہوسکاہے کہ اسے مدرسہ کا لیٹر ہیڈ،مہر کہاں سے دستیاب ہوگیا ،اس دوران غیر قانونی طور پر بحال ہونے والے شخص نے ہیڈ مدرس کے فرضی دستخط سے سابقہ کمیٹی کو تحلیل کرکے ایک نئی کمیٹی کی تشکیل کروادی اور بھائی کو سکریٹری بنوادیا،نئی کمیٹی نے بورڈ میں شکایت کرکے تمام اساتذہ کی تنخواہ روکوا رکھی ہے ،ادھر گاؤں کے لوگوں کونوتشکیل شدہ کمیٹی کے بارے میں کچھ خبر نہیں ہے اور نہ ہی سابقہ کمیٹی کے ممبران کو اطلاع ہے کہ ان کی کمیٹی کالعدم قراردے دی گئی ہے ۔
اس طرح کے واقعات کی طویل فہرست ہے جو مسلم سماج میں بالکل ہی عام ہیں ،عدالتوں میں ایسے مقدمات کی بھرمارہے ،عیدالاضحی کے موقع پر جب میں نے بہار میں واقع اپنے گاؤں ’’رائپور‘‘ میں قدم رکھا تو نوجوان دوستوں نے مجھ سے عیدگاہ میں تقریر کرنے کا مطالبہ کیا ،اس کے بعد انہوں نے مختلف مسائل شمار کرائے اور اصرارکیاکہ اس جمعہ میں بھی تفصیل سے بیان کریں ممکن ہے آپ کے ذریعہ گاؤں کی کچھ اصلاح ہوسکے ،کیوں کہ یہ گاؤں تباہی کے دہانے پر ہے ،یہاں رہنا مشکل ہوچکاہے ،شدیداختلاف ہے ،اتحادواتفاق کا نام ونشان نہیں ہے ،ہمارے انتشار کا نتیجہ ہے کہ حالیہ پنچایت الیکشن میں کسی معمولی عہدہ پر بھی مسلمانوں کی جیت نہیں ہوسکی ہے ،بوڑھے سے لیکر جوان تک بے راہ روی کے شکار ہیں،مسجد اور قبرستان کے پیسوں کا غلط استعمال کیا جاتاہے ،امام اور موذن کو مناسب تنخواہ نہیں دی جاتی ہے ،علماء کی عزت نہیں کی جاتی ہے ،غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں کا اختلاط بہت زیادہ ہوگیاہے،بے پردگی عام ہوگئی ہے،آپس میں دومسلمان کو لڑانا اور اس کو روزی روٹی کا ذریعہ بنانا کچھ لوگوں نے اپنا پیشہ بنارکھاہے، اس طر ح کے ان گنت مسائل انہوں نے شمار کرائے جس کا مسلم سماج او رمعاشرہ میں تصور نہیں کیاجاسکتاہے اور نہ ہی یہ کسی ایک گاؤں اور صوبہ کے ساتھ خاص ہے بلکہ مجموعی طور پر پورے ہندوستان کے مسلم سماج کی یہی صورت حال ہے جس سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے ،سماج او ر معاشرہ کو ان برائیوں سے پاک بناناوقت کا تقاضاہے ،حال ہی میں رخصت ہونے والا عیدالاضحی کا تہوار ہم سے جانوروں کی قربانی کے ساتھ ان چیزوں کی قربانی کابھی اشد مطالبہ کرتاہے ،مثالی معاشرہ اور برائیوں سے پاک سماج کی تشکیل کیلئے انا،نفس،نفاق ،انتقام ،بغض ،حسد اور کینہ کی قربانی سب سے اہم ہے ،اس کے بغیر ہماری ترقی نہیں ہوسکتی ہے ،مسلم سماج میں بیداری نہیں آسکتی ہے ،کامیابی کے امکانات روشن نہیں ہوسکتے ہیں۔
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
stqasmi@gmail.com