نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندوستان کی سب سے نمایاں خصوصیت اور سب سے نمایاں خوبی یہاں کا دستور ہے ۔ ملک کے بہترین افراد اور اعلیٰ دماغ نے یہاں کا دستور مرتب کیا جس میں مساوات ، انصاف ، آزادی اور بھائی چارہ کو اس کا دیباچہ بنایا ۔ دستور کو اس خوبصورتی کے ساتھ مرتب کیا گیا کہ یہاں رہنے والے ہزاروں ، ذات ،قبائل اور مختلف مذاہب کو یکساں اہمیت دی گئی ۔ سبھی یکساں درجے کے شہری قرار پائے ۔ سبھی کو یکساں حقوق ملے ۔ سبھی کو ملک کی ترقی کیلئے پابند بنایا گیا ۔ سبھی کو ملک کی سیاست میں حصہ داری عطا کی گئی ۔ دستور کی خوبیوں اور خصوصیات نے ملک کو مختلف مذاہب ، ذات ،قبائل ،نسل اور کلچر ہونے کے باوجود ایک بنادیا ۔ دستور کی اسی خصوصیت اور خوبی کی وجہ سے دنیا بھر میں بھارت کی شناخت اور پہچان ہے اور جب تک یہ دستور محفوظ اور برقرار رہے گا ہندوستا ن دنیا بھر میں ممتاز ، نمایاں اور عظیم ملک رہے گا ۔ یہاں کے سبھی باشندے خوشحال اور خوش رہیں گے ۔ امن و سلامتی کی فضاء قائم رہے گی ۔ ظلم وستم نہیں ہوگا ۔ ڈاکہ زنی ، چوری ، ہڑپ اور بے گناہوں ، کمزوروں اور بے بسوں پر ظلم نہیں ہوگا ۔
بھارت کا یہ دستور سبھی بھارتیوں کو عزت ، وقار ، سربلندی اور سرخروئی فراہم کرتاہے لیکن یہ تاریخی المیہ ہے کہ جب سے یہ دستور بنا ہے اسی وقت سے ایک طبقہ اس دستور کو بدلنے کیلئے سرگرم ہے ۔ وہ انصاف ، مساوات ،آزادی اور بھائی چارہ پر مبنی دستور کی جگہ انسانی تفریق ، نسلی برتری ، آقا اور غلامی پر مشتمل دستور نافذ کرنا چاہتا ہے ۔ اسی مقصد کی تکمیل کیلئے یہ گروپ ایک ایسا گروہ تیار کرچکاہے جس کے دلوں میں قانون کا خوف نہیں ہے ۔ اس کے یہاں قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگا ہے جس کے نتیجے میں پچھلے چھ سالوں کے دوران ملک میں سینکڑوں ماب لنچنگ کے واقعات پیش آئے ۔ بے گناہوں کا قتل کیا گیا ۔ درندگی اور حیوانیت کے واقعات پیش آئیے ۔ جنسی جرائم کے واقعات رونما ہوئے۔ یہ سب ایک گروہ نے منصوبہ بندی اور مکمل پلاننگ کے ساتھ کیا کیوں کہ اسے یہ ذہن نشیں کرادیا گیا تھا کہ قانون کی گرفت سے وہ آزاد رہے گا ۔ اس کے جرائم پر قانون نافذ نہیں ہوگا ۔ دستور اور قانون کے ہاتھ اس تک نہیں پہونچیں گے ۔ اس طرح کے واقعات انجام دینے کے پس پردہ یہ منصوبہ کارفرما ہے کہ ذہنی طو ر پر عوام کو باور کرادیا جائے کہ یہاں انصاف ، مساوات اور بھائی چارہ کیلئے گنجائش نہیں ہے ۔ یہاں قانون ، دستور اور انصاف صرف طاقتور اور ایک مخصوص نسب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے ہے بقیہ کو مارا جائے گا ۔ قتل کیا جائے گا ۔ انہیں انصاف اور مساوات نہیں دیا جائے گا ۔ ان سے صرف کام لیا جائے گا لیکن اس کا پھل نہیں دیا جائے گا ۔ اس طبقہ کو صرف ووٹ بینک کی مشین کے طور پر استعمال کیا جائے گا، لیکن اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے نہیں دیا جائے گا ۔ سلسلہ وار دستور کے خلاف واقعات انجام دینے کے بعد ملک کے عوام میں یہ بات ذہن نشیں ہوجائے گی کہ واقعی یہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے ۔ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا فلسفہ رائج ہے ۔ غریبوں ، کمزوروں ، دلتوں ، آدی واسیوں اور بے بسوں کیلئے صرف ایک راستہ ہے کہ وہ خاموش رہے ۔ ظلم برداشت کرے ۔ مظلوم بن کر رہے ۔ سیاست سے دور رہے ۔ معیشت سے محروم رہے ۔ مفلسی اور بے بسی کی زندگی گزارے ۔ روزمرہ کے واقعات کے بعد عوام کیلئے یہ سب باتیں نارمل ہوجائیں گے ۔ ذہنی طور پر وہ اس بات کیلئے تیار ہوجائیں گے۔ وہ خود کو کمزور ، بے بس اور لاغر محسوس کریں گے اور جب دیش میں ایسا ماحول بن جائے گا ۔ لوگوں کی قوت گویائی سلب ہوجائے گی ۔ انہیں اپنے حقوق اور آزادی سے مطلب نہیں رہے گا ۔ ان کے ذہن میں صرف یہ بات رہی گی کہ ہمیں کس طرح زندہ رہنا ہے ۔ عزت ، وقار ، سرخروئی ، سربلندی ، آزادی والی زندگی کی انہیں کوئی فکر نہیں رہے گی ۔ ان کا مشن اور مشغلہ صرف دو وقت کی روٹی کا حصول بن جائے گا ۔ یہ ماحول بن جانے کے بعد دستور کی ترمیم کا راستہ صاف ہوجائے گا ۔ منواسمرتی کے نفاذ کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی کیوں کہ عوام پہلے ہی ہمت ہار چکی ہوگی ۔ انہیں صرف اپنی زندگی پیاری ہوگی ۔ مقابلہ کرنے ، احتجاج کرنے اور ظلم کے خلاف آواز آٹھانے کی جرات میں ان میں باقی نہیں بچ پائے گی اور اس طرح بآسانی آر ایس ایس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔
ماب لنچنگ کے سلسلہ وارا واقعات اسی مشن کا حصہ تھے اور حالیہ دنوں میں کرونا وائرس نے دستور کی ترمیم کیلئے موقع فراہم کردیا ہے ۔ پوری دنیا میں کرونا ایک مرض ہے ۔ اس سے نمٹنے اور اس پر قابو پانے کی کوشش ہورہی ہے لیکن بھارت میں کرونا کو ایک کرائم کی شکل دے دی گئی اور اس کا مرکز مسلمانوں کو بنادیا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ بھارت میں کرونا وائرس مسلمانوں کی وجہ سے پھیلا ہے ۔ مسلمان غیر مسلموں کے درمیان کرونا وائرس پھیلا رہے ہیں ۔ اس کیلئے وہ مختلف امور کا سہارا لے رے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ مسلمانوں نے کرونا وائرس پھیلا ۔ مسلمانوں نے گناہوں کی جان لی لیکن ان کے خلاف کوئی سخت ایکشن نہیں ہوسکا ۔ انہیں سزا نہیں دی گئی ۔ کرونا وائرس پھیلانے کیلئے انہیں عبرتناک سزا نہیں ہوئی ور اس کی وجہ یہ رہی کہ ملک کے دستور میں مذہب کے نام پر تفریق برتنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ملک کے دستور میں سبھی مذاہب کو یکساں حقوق حاصل ہے لہذا یہاں سے یہ ذہن بنے گا کہ اگر ایسا ہے تو ملک کا دستور بدلنا چاہیئے ۔ آئین میں ترمیم ہونی چاہیئے ۔ اس میں اتنی تبدیلی ہونی چاہیئے کہ مسلمانوں کو سخت سزا مل سکے ۔ انہیں دوسرے درجہ کا شہری قرار دے دیا جائے ۔ ان سے بنیادی حقوق سلب کرلئے جائیں ۔ انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارہ کے حقوق سے مسلمانوں کو محروم کردیا جائے ۔ آر ایس ایس کو ایسے موقع سے بھر پور حمایت ملے گی ۔ اپنے مشن میں اسے کامیاب مل جائے گی اور فوری طور پر وہ دستور میں تبدیلی کا عمل انجام دے گی ۔ مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، رفتہ رفتہ دستور سے وہ دلتوں ، آدی واسیوں اور مختلف قبائل کے حقوق سلب کرلے گی اور منو اسمرتی کا نظام نافذ کردے گی اور اس طرح ملک کا وہ طبقہ آزادی ، انصاف اور مساوات سے ایک مرتبہ پھر محروم ہوجائے گا جسے برسوں بعد آزادی ملی تھی ۔ صدیوں بعد جسے انسانی احترام اور وقار نصیب ہوا تھا ۔ غلامی دلتوں کی پھر تقدیر بن جائے گی اور یہ ساری چیزیں اس طرح انجام دی جائیں گے کہ اس وقت بولنے کی ہمت نہیں ہوپائے گی۔
اس لئے ابھی وقت ہے، موقع ہے، بیدار اور ہوشیا رہنا تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے؛ قانون اور دستور کی حکمرانی ملک اور دیش کے حق میں بہتر ہے ۔ عوام کی بھلائی اور خیر خواہی اسی میں ہے کہ دستورکے دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کیا جائے ۔ قانون کا احترام اور اس کا خوف دلوں میں پیدا کیا جائے ۔ سب ملک کر قانون کا احترام کریں ۔ دستور کی روح کو دوبارہ بحال کیا جائے ۔ سب لوگ آپسی بھائی چارہ اور اتحاد کے ساتھ کام کریں ۔ اس وقت پوری دنیا کو مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کی ضرروت ہے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں ۔ اپنے یہاں اس کو نافذ کریں۔ آئین کے نفاذ پر زور دیں ۔ ذات ، نسل ، قبیلہ ، خاندان ، علاقہ اور مذہب کے جھگڑوں سے گریز کریں ۔ یہ بہترین موقع ہے کہ سرکار کچھ اہم اقدامات کرے خاص طور پر ماب لنچنگ اور تشدد کی سیاست کا خاتمہ کرے ۔ سرکار کے پاس اکثریت ہے ۔ پاور ہے اس لئے موقع کا بہتر طور پر استعمال کیا جاسکتاہے ماب لنچنگ اور تشدد کے خلاف قانون بنانے کیلئے ۔ یہاں یہ تذکرہ ضرروی ہے کہ پچھلے چھ سالوں میں ماب لنچنگ کی وجہ سے ہمارے ملک کی سب سے زیادہ دنیا بھر بدنامی ہوئی اور اندورن ملک بھی اس کی وجہ سے ملک میں خلفشار اور بدامنی ہے ۔ ماب لنچنگ سبھی مذاہب اور طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی ہوئی ہے اور اس کا حل یہی ہے کہ سرکار مسئلہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کے خلاف قانون بنائے ۔ ہم سب مل کر یہ عہد کریں ہندوستان میں اس آئین اور دستور کی روح کو بحال کرناہے جس کا ہمارے مجاہدین آزادی نے خواب دیکھا تھا اور بھیم راؤ امبیڈ کر کی ٹیم نے جسے تیا ر کیا تھا ۔ مہاتما گاندھی ۔ پنڈٹ نہرو ، بھگت سنگھ ۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور بھیم راؤ امبیڈ کر کے خواب کو عملی جامہ پہنانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور حکومت کیلئے ضرور ی ہے کہ وہ موقع کا استعما ل کرے اور پاور کا استعمال کرتے ہوئے آئین کی حقیقی روح کو بحال کرے ۔ اور یقنی بنایا جائے کہ قانون شکنی کرنے والے بدترین سزا کے مستحق ہوں گے تاکہ ملک میں امن و امان اور سکون کی فضاء قائم رہے ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )