اصل سچائی یہ ہے کہ امریکی کی پالیسی ہی اسلام دشمنی پر مبنی ہے ،اس کااولین مشن مشرق وسطی کی تباہی، تیل کے ذخائر پر قبضہ اورتمام مسلمانوں کو آپسی اختلاف کا شکار بناکر انہیں سیاسی ،سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی محاذ پر دنیا کی سب سے ناکارہ قوم بناناہے ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ وہاں ہیلری کلنٹن صدر بنے یا ڈونالڈ ٹرمپ ، صدر بننے کے بعد ہلری کلنٹن بھی وہی سب کچھ کریں گی جس کا اظہار ڈونالڈ ٹرمپ ابھی سے کررہے ہیں،گذشتہ دوصدر کی مثال ہمارے سامنے ہے ،ماضی کے 16 سالوں میں بش کی جارحانہ پالیسی سے زیادہ سیاہ فام براک اوبامہ کی دوستانہ پالیسی سے مسلم دنیا اور مشرق وسطی کونقصان پہونچا ہے
پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
پندرہویں صدی میں دنیا کے نقشہ پروجود پذیر ہونے والاامریکہ اس وقت دنیا کا سب سے طاقتور ملک بن چکاہے،ماضی میں سپرپاور کا کردار اداکرنے والے ،خلافت عثمانیہ ،اٹلی ،فرانس،برطانیہ اور سویت یونین روس سمیت سبھی ممالک آج اس کے سامنے سرنگوں ہیں،امریکہ پچاس ریاستوں پر مشتمل ایک فیڈریشن کا نام ہے جسے ریاستہائے متحدہ امریکہ کہاجاتاہے ، شمالی امریکہ کا دوسرا کا دوسرا اور دنیا کا تیسرا یا چوتھابڑا ملک ہے،اس کے شمال میں کینیڈا، جنوب میں میکسیکو، مشرق میں بحر اوقیانوس اور مغرب میں بحر الکاہل واقع ہیں۔اس کا کل رقبہ9833517 کیلومیٹر اور3796742 مربع کیلو میل پرمحیط ہے،وہاں کی کل آبادی324099593ہے، جس میں 94 فیصد سے زائد عیسائی ہیں،پانچ فیصد دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں جن میں 1.9 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر یہودی ہیں ،دوسرے نمبر پر مسلمان ہیں جن کا فیصد 0.9 ہے۔
پانچ صدی قبل تک پوری دنیا امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک کے وجود سے بالکل بے خبر تھی، پندرہویں صدی کے اواخر میں یورپی مہم جوئی کا آغاز ہوا، 12اکتوبر 1492 کو کرسٹوفر کولمبس امریکہ کے مشرقی ساحل پر لنگر انداز ہوا اوراس کے بعد تسلسل کے ساتھ مختلف مقامات کی دریافت سلسلہ شروع ہوگیا، فرانسیسیوں نے ملک کا شمال مشرقی حصہ بسایا ،ہسپانیوں نے جنوبی اور مغربی حصہ آباد کاری کے لئے منتخب کیا، پہلی کامیاب انگریزی آبادکاری جیمز ٹاؤن، ورجینیا میں 1607 میں قائم ہوئی، اس کے فورا بعد 1620 میں پلے ماؤتھ، میسا چوسٹس میں بھی آباد کاری ہوئی، 1609 اور 1617 میں ولندیزی آبادکار موجودہ نیو یارک اور نیو جرسی کے علاقوں میں آباد ہوئے، 17ویں اور 18ویں صدی کے اوائل میں انگلینڈ نے ولندیزی کالونیوں پر قبضہ کرکے یا تو انہیں ختم کرکے یا تقسیم کرکے نئی نوآبادیاں بنائیں، 1729 میں کیرولینا کی تقسیم کے بعد اور 1732میں جارجیا کی آبادکاری کے بعد برطانوی کالونیاں شمالی امریکہ (موجودہ کینیڈا کے علاوہ) تک پھیل گئیں، 1624 میں البانی اور نیویارک کے علاقوں میں ولندیزی نوآبادیاں نیو نیدرلینڈز کے نام سے قائم ہوئیں،اس طرح مختلف یورپی ممالک کی نوآبادیاں بنتی چلی گئیں، ان نو آبادیوں میں آپس میں چپقلش اور بعض اوقات جنگ و جدل تک نوبت پہنچتی رہی اور تقریا بیشتر اصلی امریکی قتل کردیئے گئے،برطانوی استعمار سے دنیا کے دیگر خطے سے تعلق رکھنے والی عوام کی طرح یہاں کے باشندے بھی محفوظ نہیں رہے ،1776 میں جہد مسلسل اور شدید قربانی کے بعدامریکہ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی،بعد ازاں وہاں ایک جمہوری نظام قائم کیا گیا ،ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہاں سب سے زیادہ عرصہ تک قائم رہنے والی آئینی جمہوریہ ہے جس کا آئین دنیا کا سب سے قدیم اور مکمل طور پر تحریری ہے،انیسویں ،بیسویں صدی میں امریکہ نے فوج، معیشت، ثقافت اور سیاسی اثر و رسوخ میں غیر معمولی ترقی حاصل کی اور روس کے زوال کے بعد جب سرد جنگ ختم ہوئی تو یہ دنیا کے واحد سپر پاور کے طور پر ظاہر ہوکر عالمی حکمراں بن گیا اور ماضی کی عظیم طاقتوں کو آنکھیں دکھانے لگا۔
دنیا کے اس سپر پاور ملک میں ان دنوں دنیا کے طاقتور شخص کے انتخاب کا مرحلہ چل رہاہے ،8 نومبر 2016کو 58 صدر کیلئے انتخاب ہوگا ،اس انتخابی معرکہ پر پوری دنیا کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں کیوں کہ امریکی صدر کا طرز عمل، انداز فکراور اس کی حکومت کی پالیسیاں کسی نہ کسی طرح پوری دنیا پر اثر انداز ہوتی ہیں،اس کا طریقہ انتخاب اور طرز حکومت دوسری جمہوری ریاستوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس کی سب سے خاص بات یہ ہے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کبھی ہار جاتے ہیں اورکبھی کم ووٹ حاصل کرنے والوں کے سر پر فتح کا تاج سجایاجاتاہے، امریکہ کے80فیصد سے زیادہ ووٹر ایک سے زیادہ مرتبہ ووٹ ڈالنے کے باوجود یہ نہیں جانتے کہ بعض اوقات بھاری اکثریت حاصل کرنے والا امیدوار کم ووٹ لینے والے کے مقابلے میں کیوں ہار جاتا ہے؟ امریکہ کی انتخابی تاریخ میں چار4مرتبہ یہ واقعہ رونما ہوچکا ہے، پاپولر ووٹ کی بھاری اکثریت حاصل کرنے والے کے مقابلے میں کم ووٹ لینے والا صدر منتخب قرار پایا ہے۔ حالیہ تاریخ میں 2000کے انتخابات میں جارج ڈبلیو بش کو مد مقابل الگور کے مقابلے پانچ لاکھ ووٹ کم ملے تھے پھر بھی بش صدر بن گئے اورالگور نے خاموشی سے اپنی شکست تسلیم کرلی۔
امریکہ میں ووٹر اپنے پسندیدہ صدارتی امیدوار کے نام اور پارٹی کے نشان کو براہ راست ووٹ ڈالتا ہے پھر بھی صدر براہ راست منتخب نہیں ہوتا۔ اس ووٹ کے نتیجے میں الیکٹورل کالج یا انتخابی ادارہ وجود میں آتا ہے، جب امریکہ کے 32 کروڑ ووٹر اپنے حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں تو دراصل وہ الیکٹورل کالج کے ممبران کا چناؤ کرتے ہیں،وہاں کل 538 الیکٹرول کالج ممبر ہیں جس میں سے جیتنے کیلئے 270 الیکٹرول ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے ،انتخابی ادارے کی یہ تعداد ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے ممبران کی تعداد کے برابر ہر ریاست کو اپنے ممبران کانگریس کی تعداد کے برابر الیکٹورل کالج کے ممبران الاٹ ہوتے ہیں۔ صرف ایک ووٹ صدر کے نام اور پارٹی نشان کے پر دیا جاتا ہے، نائب صدر کو الگ ووٹ نہیں ڈالتے وہ صدر کے ساتھ شامل کردیا گیا ہے یعنی صدر اور نائب صدر ایک پیکیج کا حصہ ہیں۔ پورے امریکہ میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں کی گنتی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی بلکہ ہر ریاست کے ووٹ الگ الگ شمار کئے جاتے ہیں(طارق چودھری کے مضمون سے اقتباس)
حالیہ امریکی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی سے ہیلری کلنٹن اور ری پبلکن پارٹی سے معروف تاجر ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی امیدوار ہیں،ذرائع کے مطابق اس کے علاوہ بھی دو امیدوار صدارت کے لئے میدان میں کھڑے ہیں ،امریکہ میں صدارتی انتخاب سے قبل تین سیاسی مباحثے ہوتے ہیں جس میں دونوں حریف ملک کی موجودہ صورت حال ،اپنے عزائم اور مقاصد پر کھل کر بحث کرتے ہیں ،اپنی قوت گویائی ، انداز بیان سے اور پر اثرتقریر سے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہیں،ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ مباحثے امریکہ کی رائے عامہ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں اور کسی کی جیت ہار میں ان مباحثوں کا نمایاں کردار ہوتاہے،ایک سیاسی مباحثہ 27 ستمبر کو ہوچکاہے جبکہ دوسرا سیاسی مباحثہ چار اکتوبر اور آخری مباحثہ19اکتوبر کو منعقد ہوگااور8 نومبر کو امریکہ کا58 واں صدارتی انتخاب منعقد ہوگا،اب تک کے تبصروں اور تجزیوں کے مطابق امریکہ کی تاریخ میں پہلی خاتون امیدوارہیلری کلنٹن کی کامیابی کے امکانات 72فیصد ظاہر کئے جا رہے ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کا امکان زیادہ سے زیادہ 28فیصد تک پہنچ پایا ہے۔
امریکہ کے انتخابی معرکے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن اور ری پبلکن پارٹی کے امیدوار تاجر ڈونلڈ ٹرمپ متضاد اوصاف کے حامل ہیں،ہیلری کلنٹن کے تئیں یہ رائے عامہ ہے کہ وہ متوازن،امن پسند اور مثبت ذہنیت کی حامل سیاست داں ہیں،مشرق وسطی اور عالم اسلام کے تئیں ان کی پالیسی دوستانہ اور امن وآشتی پر مبنی ہوگی،اسی سوچ کی بناپرانہیں دنیا بھر کے مسلمان اور تمام مثبت فکر کے حامل لوگوں کی ہمدردی بھی حاصل ہے، دوسری طرف ڈونالڈ ٹرمپ اپنے اشتعال انگیز بیانات سے پوری دنیا کو یہ باور کراچکے ہیں کہ ان کی پالیسی اسلام دشمنی پر مبنی ہوگی ،ان کا ہر اقدام انتہائی جارحانہ اور شدید ہوگا ،صدر بننے کے بعد وہ جارج ڈبلیوبش اور موجودہ صدراوبامہ کا ریکاڈ توڑ کر ظلم وبربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کریں گے،اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہونچانے کیلئے کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے، گذشتہ دو صدور نے افغانستان ،عراق ،لیبیا ،تیونس اور شام میں لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام کرایا ہے ،مسلمانوں پر خود ان کی اپنی زمین تنگ بنادی ہے ،تاہم ٹرمپ ان سب سے بھی آگے بڑھ کر اپنی ایک نمایاں شناخت قائم کرنے کی کوشش کریں گے ؛ لیکن بدیہی اور اصل سچائی یہ ہے کہ امریکہ کی پالیسی ہی اسلام دشمنی پر مبنی ہے ،اس کااولین مشن مشرق وسطی کی تباہی، تیل کے ذخائر پر قبضہ اورتمام مسلمانوں کو آپسی اختلاف کا شکار بناکر انہیں سیاسی ،سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی محاذ پر دنیا کی سب سے ناکارہ قوم بناناہے ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ وہاں ہیلری کلنٹن صدر بنے یا ڈونالڈ ٹرمپ ، صدر بننے کے بعد ہلری کلنٹن بھی وہی سب کچھ کریں گی جس کا اظہار ڈونالڈ ٹرمپ ابھی سے کررہے ہیں،گذشتہ دوصدر کی مثال ہمارے سامنے ہے ،ماضی کے 16 سالوں میں بش کی جارحانہ پالیسی سے زیادہ سیاہ فام براک اوبامہ کی دوستانہ پالیسی سے مسلم دنیا اور مشرق وسطی کونقصان پہونچا ہے۔(ملت ٹائمز)