تحریر عبدالرحمن عابد
ہندوستان پاکستان کے باہمی تعلقات آجکل کشیدگی سے گزر کر دشمنی کے دائرے میں داخل ہو چکے ہیں ، دونوں طرف سے آئے دن سرحدوں پر کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آرہا ہے ، حالانکہ سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ ہند پاک فوجوں کے درمیان طویل عرصہ زے معمول بن چکا ہے ،
فوجی سطح پر سرحدوں کی گولی باری کے تباد لے کے باوجود دونو ملکوں کی قیادت سفارتی اور سیاسی سطح پر حالات کی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے بروقت کامیاب سفارتی اقدامات کرتی رہی ہیں ، سابقہ حکومتوں کے ادوار میں بی جے پی اپوزیشن کے کردار میں ہوتی تھی تو وہ اسوقت حکومت اور حکمراں جماعت پر ایسی سخت تنقید کرتی رہی ہے ، پاکستان کے معاملات میں اسکا لہجہ اتنا تلخ ہوتارہاکہ وہ ا درون ملک حکمراں کو ایک کمزور ملک دبّو حکومت قرار دیتی رہی ہے۔
نریندر مودی کے اقتدار کے ابتدائی ڈھائی سالوں میں بھی سابقہ حکومت کی پالیسی ہی چلتی نظر آتی رہی ، البتہ دو مرتبہ ڈرامائی صورت حال ضرور دیکھنے کو ملی ، ایک جب اچانک بغیر کسی طے شدہ پروگرام کے اچانک وزیر اعظم نریندر مودی پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے کی ذاتی تقریب میں شرکت کے لئے لاہور پہونچ گئے اور دوسرے جب اڑی حملے کے بعد بھی وزیر اعظم نریندر مو دی بغیر کسی اشتعال کے اس حملے کی تلافی کے امکانات تلاش کرتے رہے ، حالانکہ اس نازک موقعہ پر اپوزیشن نے مودی کو گھیرنے اور بات بات پر نشانہ بنا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی شاید گانگریس مودی کے طرز عمل سے دھوکے کا شکار ہوگئی ، وہ مودی حکومت کے طرز عمل سے یہ سمجھتی رہی کہ مودی وزیر اعظم بن جانے کے بعد اپنی جنگجو طبیعت کو فراموش کرکے ایک متحمل مزاج سنجیدہ اور مدبر وزیراعظم کے طور پر عالمی سیاست کے مطلع پر اپنی شخصیت کارسوخ قائم کرنے کی فکر میں جنگ بازی سے بچنا چاہ رہے ہیں ،
دوسری طرف نریندر مودی ان حالات سے نکلنے کے متبادل تلاش کرتے رہے ، شاید مودی کے سامنے کوئی سخت قدم اٹھاتے وقت نوازشریف سے کئے وعد ے اور مستقبل کے امن منصوبے اٹکتے رہے ہوں ، یا پھر وہ خود اپنے ہی منصوبوں کے ہیولے سے پریشان ہوتے رہے ہوں ، یا پھر جو بھی وجوہات رہی ہوں ، لیکن اڑی کے بعد دس دن تک عام تا ثر یہی تھا کہ شور شرابے کے بیچ جیسے دس دن گزر گئے اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ بات آئی گئی ہوجائیگی ۔
اچانک انتیس ستمبر کی صبح مودی حکومت کے مشورے سے ہماری فوج کے D G M O نے اعلان کیا ہم نے ایل او سی کے اس پار سے دہشت گردوں کی دراندازی کی پختہ اطلاعات کی بنیاد پر سرجیکل اسٹرائک کردی ہے ، فوری طور پر ہمارے ڈی جی ایم او نے اعلان کیا کہ اس کار رواء میں ہمارے جوانوں نے دو پاکستانی فوجیوں کے علاوہ اور بھی کئی لوگوں کو مار گرایا ہے ، ابھی تفصیلی معلومات ہمارے پاس نہیں ہے تفصیلی اطلاع ملتے ہی آپکودی جائیگی ، اسی کو لیکر ہمارے میڈیا نے پہلے چھ سے آٹھ پھر پندرہ پھر تیس اور شام تک کچھ چینلوں نے اسکو اڑتیس تس کچھ نے پچاس کردیا جبکہ پاکستانی میڈیا نے اپنے دو فوجی جوانو کی موت کی خبریں نشر کیں لیکن اپنی سرحد کے اندر حملے کی تردید پاکستانی حکومت اور میڈیاکے علاوہ انٹر ن نیشنل میڈیا نے بھی کی ہے ،ان کے علاوہ اب تو اقوام متحدہ نے بھی سر جیکل آپریشن کی تردید کردی ہے ، حالانکہ شروع دن جب اس سرجیکل آپریشن کا پرچار ٹی وی چینلوں پر کیا گیا تھا تو ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہمارے پاس سرجیکل آپریشن کے ثبوت ہیں ، ڈرون طیارے کے کیمروں کے ذریعہ بھی اس آپریشن کی ویڈیو فلم بنائی گئی ، یعنی اب ہم فوجی آپریشن کی بھی فلمیں بناتے ہیں ، بہت خوب ، اگر کسئی سوال کرے کہ صاحب فوجی جوان اپنی جان ہتھیلی پر لیکر اپنے دشمن کا خاتمہ کریں اور آپ انکی ویڈیو فلم بنوا کر اسکی تشہیر کریں اور حکمراں جماعت ہونے کی وجہ سے آپ فوج کی قربانی اور جانفشانی کو اپنی پارٹی کے الیکشن کیلئے استعمال کریں ، اور سارا ملک تماش بین بنکر بی جے پی کی جے کار کے نعرے بلند کر تا رہے تب تو آپ گد گد ، اور اگر بین الاقوامی سطح پر ہورہی ملک کی ہتک کا جواب دینے کے لئے اروند کیجر یوال کی عام آدمی پارٹی یا کانگریس آپ سے کہیں کہ صاحب سامنے آکر مردانہ وار جواب دیجئے ہم سب آپکے ساتھ ہیں تو بی جے پی بوکھلاکر چالاکی سے فوج کا سہارا لیکر اپنی اپوزیشن جماعتوں پر گھٹیا طریقہ سے الزام تراشی پر اتر آتی ہے ، لیکن اب بی جے پی کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے ، فوج اس ملک کی محافظ ہے بی جے پی کی طرح گھٹیا اور اوچھے طریقوں سے ملک کی عزت س آبرو کو بیچ کر اقتدار کے مزے نہیں لیتی ہے ، بی جے پی کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ میڈیا کو آپ خرید سکتے ہیں لیکن ملک کے عوام بکنے والی چیز نہیں ہے ، چند بی جے پی نواز ریٹائرڈ فوجی اس ملک کے مالک نہیں ہیں کہ وہ چینلوں پر بیٹھ کر ملک کے نام حکم جاری کردیں اور پورا ملک فوجی سپاہیوں کی طرح انکے حکم کی تعمیل میں یس سر کا نعرہ لگاتا رہے ، یہ ملک آزاد ہے ، جمہوریت ہے ، حکومت سے سوال کرنے کا ہر شخص کو جمہوری حق حاصل ہے جواب دینا حکومت کی ذمہ داری ہے ، ہندوستان جرمنی نہیں ہے کہ یہا ں سنگھ اور بی جے پی کی ہٹلر شاہی چلے گی !
اگر ملک کا کوئی بھی شہری بین الاقوامی برادری میں ہندوستان کی بدنامی سے دکھی ہوکر اپنی حکومت سے اپیل کرے کہ ہمارے ملک اور فوج کو بدنام کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیجئے ہم سب اور پورا ملک حکومت کیساتھ ہے اگر ہمارے ملک کو جھوٹا کہا جائے اور ہماری جانباز فوج کی کار روائی پر سوال کھڑے کئے جائیں تو ہمیں انکا جواب بہر حال دینا چاہئے ،
لیکن دوسری طرف بی جے پی سنگھ پریوار اور ہمارا میڈیا اس پر اصرار کر رہے ہیں کہ جن ہندوستا نی لیڈروں نے حکومت سے آگے بڑھکر پاکستانی پروپیگنڈہ مہم کا منہ توڑ جواب دینے کی بات کہی ہے وہ سب ملک کے غدار ہیں ، فوج پر بد اعتمادی کی بات کرتے ہیں ، یعنی اب ملک سے وفاداری کا پیمانہ بھی ہر حال میں بی جے پی کی ہاں میں ہاں ملانا ھوگا ،؟
بی جے پی حکومت اور سنگھی میڈیا فوج کی آڑ میں اپوزیشن کی زبان پر تالا لگانا چاہتے ہیں ، اور بی جے پی تو اسی سرجیکل اسٹرائک کی سیڑھی پر چڑھکر الیکشن جیتنے کی چاہت کو کسی بھی قیمت پر پورا کرنا چاہتی ہے ، بی جے پی کی اندھی غلامی کرنے والے میڈیا نے ملک کی عزت اور سربلندی کے لئے کام کرنے کے بجائے بی جے کی چاپلوسی کرتے ہوئے ملک کی آبرو اور اپنی فوج کی عزت وسر بلندی کے لئے آگے بڑھکر جواب دینے کی بات کرنے والوں کو ہی سیاسیاعتبار سے بلیک میل کرکے گھیرنے اور بدنام کرنے کی قابل مزمت مہم شروع کردی ، جسے کسی بھی طرح سے ملک کے مفاد میں نہیں کہا جا سکتا ، آج یہ بات پوری طرح ثابت ہوچکی ہے کہ بی جیپی سنگھ پریوار اور اسکی سوچ سے جڑے ہوئے لوگ ملک کے اندر فسطائیت کا ننگا ناچ کرنے کی مہم کے تحت ہی یہ تمام حربے استعمال کر رہے ہیں تاکہ کوئی عام آدمی تو کیا اپوزیشن جماعتوں کو بھی دیش بھکتی کی آڑ میں بلیک میل کیا جاسکے ، ورنہ کیا وجہ ہیکہ ایک طرف تو پاکستانی سرحد میں تین کلو میٹر کے اندر گھس کر حملہ کیا ہے ،اور دوزری طرف اپنے ہی میڈیا زرائع کے حوالے سے کنفیوزن پھیلایا گیا ، خود ہی پہلے ایک کیمپ بعد میں کبھی تین تو کبھی پانچ اور کہیں تو الگ الگ سات مقامات پر کیمپوں کو تباہ کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں لیکن پاکستانی پروپیگنڈہ کا جواب دینے کو تیار نہیں ! لطف کی بات یہ ہے کہ بھارت کا میڈیا اتنے لمبے لمبے دعوے کر رہا لیکن پاکستان تو کیا بین الاقوامی میڈیا بھی ان دعوؤں کوقبول نہیں کر رہا ، الٹاپاکستان نے بین الاقوامی میڈیا کو دعویٰکئے گئے مقامات کا دورہ کرایا تو اس نے بھی ہمارے تمام دعوؤں کو علی الاعلان مسترد کرتے ہوئے حکومت پاکستان کے دعووں کی ہی ایک حد تک تائید کردی ، لیکن کمال بات یہ ہیکہ اسکے باوجود ہمارا میڈیا چورچور چلاکر خود اپنی چوری کو مستند بنانے پر بضد ہے ،
بلکہ میری رائے تو یہ ہیکہ ہمارا متعصب اور احمق میڈیا ہی ہے جسنے مودی حکومت کی پاکستان پالیسی کا بیڑہ غرق کیا ہے ، یہ صرف ٹی آر پی کے لالچ میں اندھا ہو گیا ہے یا اسلام اور مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی کی آگ میں جل کر کوئلہ بن جانے سے اس کا یہ برا حشر ہوا ہے ۔ یا پھر ہتھیاروں کی سوداگری کرنیوالوں کو اپنا ضمیر ایمان سب کچھ فروخت کر چکا ہے ، یا پھر یہ بقول شخصے یہ بھی ممکن ہیکہ مودی حکومت ہی اپنا اصلی چہرہ چھپانے کے لئے میڈیا کے ذریعے یہ تمامتر تماشہ کرا رہی ہو ، !
اس مسئلہ کی بنیاد پر بھی غور کریں ہند پاک تعلقات ایسے تو تقسیم کے معاملات سے ہی الجھ گئے تھے لیکن گاندھی جی نے درمیان میں دخل دیکر تصفیہ کرادیا لیکن مسئلہ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جو شروع دن سے متنازعہ ہے جو دونوں ملکو کے درمیان ٹکراوُ اور تو تو میں میں کا سبب بنا ہوا ہے ،کشمیر کا کچھ حصہ پاکستان میں ہے اور کچھ حصہ ہندوستان میں ہے ، دونوں ملک دعوٰی کرتے ہیں کہ کشمیر اسکا ہے لیکن کشمیری دونوں کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں ، اس مسئلہ پر اب تک دو وں کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں ، اقوام متحدہ میں بھی بار بار اس پر بحثیں ہوچکی ہیں ، حق خودارادیت کا مسئلہ بھی اقوام متحدہ کا ہی پیدا کیا ہوا ہے ، در اصل اقوام متحدہ بھی چھوٹے ملکوں کا استحصال ہی کرتا ہے ، اسی لئے وہ انہیں آپس میں الجھاتے رہتا ہے ، کشمیر مسئلہ کی وجہ ہند پاک ٹکراوُ اتنا پیچیدہ بنا ہوا ہیکہ دونوں اآپس میں اچھے پڑوسی کے بجائے اکثر دشمنی اور ایک دوسرے پر شکوک وشبہات کا تعلق رہتا ہے، اسی وجہ سے دونوں ملکوں کے بجٹ کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری اور اپنے دفاعی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے ، لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہیکہ اس دور میں کوئی ساملک بھی دوسرے کو ختم نہیں کرسکتا ، ہاں آپس میں لڑکر دونوں ایک دوسرے کو زخم ضرور دیسکتے ہیں ،
ادھرحکومت ہند شاید طاقت کے بل پر کشمیر مسئلہ کا حل چاہتی ہے جو بظاہر کہیں سے ممکن نظر نہیں آتا ،مرکزی حکومت اگر سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کو کشمیر یوں کے بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دے سکے تو شاید کچھ حل کی طرف بڑھنے میں مدد مل سکے ، حالانکہ جس طرح سے گزشتہ دنوں جس طرح اچانک پولس بھرتیوں کی ویڈیو کلپس ٹی وی چینلوں پر دکھائے گئے وہ ہڑبڑاہٹ کی کارروائی صاف طور پر محسوس ہورہی تھی جو مسئلہ کو حل کرنے کا صحیح طریقہ ہیں ہوسکتا ، ہاں اگر حکومت ہند واقعی سنجیدگی اور ایما داری سے مسئلہ حل کرنے کی خواہشمند ہے تو اسے اٹل بہاری باجپائی کے انداز میں سوچنا ہوگا، لوگوں کی تکلیف کو محسوس کرکے اسکو دور کرنے کی سنجیدہ اور قابل ذکر کوشش کرنا ضروری ہوگا،
کشمیریوں کا سب سے بڑا مسئلہ روزگار اور صحت ہے کا ہے جسکو پہلی ترجیح دیناضروری ہے ددوسرا کشمیریوں کو احساس خودمختاری پیدا کرانا اور انکو ایسی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرانا جس میں وہ خود اپنے طور پر یہ محسوس کریں کہ انکا اپنا فائد ہ ہندوستان کے ساتھ رہنے میں ہے اور ایک بار اس مسئلہ کو حتمی طور پر طے کردیا جائے کہ یہ اس کا آخری ہے ، اب اسکے بعد اس پر کوئی بات نہیں ہوگی لیکن یہ بات بزور طاقت نہیں بزور اخلاق یہ معاملہ طے ہونا چاہئے ، کیا حکومت حکومت ہند ایسا کرسکتی ہے یا کرنا چاہتی ہے ، ؟(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں)