—-تو سبھی ایک ہوئے

ایم ودودساجد
کوئی 20سال قبل میں نے نئی دہلی سے شائع ہونے والے ایک کثیرالاشاعت ہفت روزہ کے خصوصی اسلامی نمبر کے ٹائٹل کے لئے ایک طویل کلیدی مضمون لکھا تھا۔اس کا عنوان تھا انماالمومنون اخوۃ ۔یعنی ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اس مضمون میں اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ کرکے مذکورہ قرآنی بشارت اور حکم کا احاطہ کیا گیا تھا۔ان میں سے ایک حج بھی تھا۔حج کے ذیل میں جو کچھ لکھا گیا تھااس کا مشاہدہ ٹھیک 20سال کے بعد2016کے حج میں نصیب ہوا۔
میں حج بیت اللہ کے جس شاہی وفد کا حصہ تھا اس میں ہندوستان سے ایک طرف جہاں مختلف مکاتب فکر کے جید علماء شامل تھے وہیں دوسری طرف عصری تعلیم وتربیت کے بڑے اداروں سے وابستہ معروف دانشوربھی تھے۔دوران حج ان سب سے استفادہ کا موقع ملا۔ باعمل مسلمانوں کی زندگی میں ایسا موقع بار بار آتا ہے جب ایک ہی صف میں محمود وایاز کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن ایسا موقع حج کے سوا شایدکوئی اور آتا ہوجب ایک ہی خیمہ اور ایک ہی کمرہ میں محمود وایازباہم گھل مل جاتے ہیں اور جہاں دونوں ایک دوسرے کے بہت سے راز ہائے سربستہ سے واقف ہوجاتے ہیں۔بیت اللہ‘ خالق کائنات کا ایک ایسا دربار ہے کہ جہاں شاہ وگدا‘امیر وغریب ‘گورے اور کالے اوراعلی وادنی سب ایک ہوجاتے ہیں اور ایک وقت تو ایسا آتا ہے جب سب کا لباس بھی ایک ہی ہوجاتا ہے۔سب ایک ہی سمت میں دوڑ رہے ہوتے ہیں اور سب کی ایک ہی منزل اور ایک ہی خواہش ہوتی ہے۔
قرآن وشرع نے خدا کے بندوں کو جس نظم وضبط میں باندھا ہے وہ صرف مذہبی امور کو محیط نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر کام میں بھی وہ مطلوب ہے۔سعودی عرب میں اورخاص طورپر حرمین شریفین میں اس نظم وضبط کا مشاہدہ جابجا ہوا۔سرکاری مہمانوں کے لئے میں نے دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی انتظامات دیکھے ہیں۔یہاں تک کہ امریکہ میں بھی صرف سیکیورٹی کے عملہ کو چھوڑ کرباقی شعبے سرکاری مہمانوں کے ساتھ نرم روی اختیار کرتے ہیں اور سرکاری اہل کارمہمانوں سے مرعوب ہوجاتے ہیں۔لیکن دوران حج مختلف ذمہ داریوں پر مامور سرکاری اہل کار اور خاص طورپرپولس والے اس سے مرعوب نہیں ہوتے۔حرم میں ہوں یا حرم سے باہر اگر آپ کو ان سے خلاف ضابطہ کوئی رعایت مطلوب ہے تو وہ ہرگز آپ کی نہیں سنیں گے۔آپ ان سے کہیں گے کہ ’’ہم شاہ سلمان کے مہمان ہیں‘‘۔وہ آپ کی شان میں خیر مقدمی کلمات کہیں گے لیکن کوئی رعایت نہیں دیں گے۔ایک معمولی سا کانسٹبل بغیر لاٹھی ڈنڈے کے آپ کو اگر ہاتھ سے روک دے تو پھر آپ کوئی بھی حوالہ دے کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔یہاں حال یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے نیتاؤں سے بڑے بڑے افسربھی خوف کھاجاتے ہیں اور ضابطوں کی دھجیاں اڑادی جاتی ہیں۔یہاں ایسے محض چار واقعات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
جدہ ایر پورٹ پر ہوائی جہاز سے اترنے کے بعد ہمیں ایک خاص بس کے ذریعہ امیگریشن دفتر کے احاطہ میں لایا گیا۔وفد کا استقبال کرنے کے لئے کئی سرکاری افسران اور پرائیویٹ ایجنسیوں کے اہل کار موجود تھے۔ لیکن وہاں موجود طبی عملہ نے ایک نہ سنی اور وفدکے تمام اراکین کو احتیاطی تدبیرکے تحت ایک ایک ٹیبلیٹ کھلاکر ہی آگے بڑھنے دیا۔شروع میں اہلکاروں نے بڑی کوشش کی کہ وفد کے اراکین کو اس سے مستثنی کردیا جائے کیونکہ وہ شاہی مہمان ہیں۔لیکن طبی عملہ پر کسی حوالہ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ہاں انہوں نے یہ ضرور کیا کہ دوائی کے ساتھ سب کو صاف اور ٹھنڈے پانی کی ایک ایک بوتل مہیا کرادی۔جو کھاتا رہا وہ آگے جاتا رہا۔ اسی طرح امیگریشن سے بھی سب کو اسی طرح گزرنا پڑا جس طرح دوسرے عام عازمین گزر رہے تھے۔میرا نمبر جس کیبن پر آیا اس کا افسر 18سال سے اوپر کا تو ہرگز نہیں تھا۔اس کے اند رمجھے اپنا بیٹا نظر آیا۔لیکن اس نے تمام ضروری سوالات بھی کئے اور ہر ضروری خانہ پری بھی کی۔پاسپورٹ پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے خفیف سی آواز میں دو مرتبہ میرا نام دوہرایا۔جب اسے معلوم ہوا کہ میں شاہی مہمانوں میں شامل ہوں تو اس نے مجھے دعا دی اور کہا کہ خدا آپ کا حج قبول کرے اور آپ کے گناہ معاف کرے۔دوچار باتیں میں نے بھی کیں اور جب وہ مجھے پاسپورٹ واپس کرنے لگا تو اس کے ہونٹوں پر تبسم آگیا۔میں نے پوچھا کہ اس تبسم کا سبب کیا میرا شاہی مہمان ہونا ہے؟تو اس کا جواب سن کر میں لاجواب ہوگیا۔اس نے پاسپورٹ کو واپس مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا’’سنو!یہ مسکراہٹ ایک مسلمان بھائی کے چہرہ کو دیکھ کر ملنے والی خوشی کانتیجہ ہے‘‘۔
یوم عرفہ سے پہلے آنے والے جمعہ کے روز ہم لوگ گو کہ بہت پہلے حرم کے لئے نکل پڑے تھے لیکن حرم کے بیرونی صحن میں ہی جگہ مل سکی۔چونکہ اس روز ہجوم بہت تھا اور ہر طرف سے اللہ کے مہمان جوق در جوق چلے آرہے تھے اس لئے بدنظمی سے بچنے کے لئے بیرونی صحن حرم میں پہنچنے کے بہت سے راستے بند کرکے چند راستے کھولے گئے تھے۔ایک ساتھی نے مجھ سے کہا کہ آپ ان پولس والوں سے اپنا حوالہ دیں اورراستہ کھلوالیں تاکہ زیادہ دور نہ چلنا پڑے۔گوکہ مجھے تردد تھا لیکن میں نے ساتھیوں کے اصرارکے بعدایک پولس اہلکار سے وہی جملہ دوہرایا’’نحن ضیوف خادم الحرمین الشریفین‘‘یعنی ہم خادم حرمین کے مہمان ہیں۔اس نے اس کے جواب میں جو کچھ کہااس کو سن کر ہمارے ہاتھ شرمندگی کے سوا کچھ نہ لگا۔اس نے کہا’’اہلاوسہلاً‘اسمع اخی ‘واللہ ہاؤلاء کلہم ضیوف الرحمن‘‘۔آپ کا خیرمقدم ہے لیکن سنئے یہ سب اللہ کے مہمان ہیں۔اور ہمیں دوسرا راستہ اختیارکرکے ہی اندر جانا پڑا۔
عرفات سے غروب شمس سے پہلے عمدہ ایرکنڈیشنڈ بسوں میں منی کے لئے نکلے۔ان بسوں پر باقاعدہ جلی حروف میں’برنامج ضیوف خادم الحرمین الشریفین‘ لکھا ہوا ہے۔ہماری بس میں سب سے آگے نئی دہلی میں سعودی سفارت خانے میں دینی امور کے انچارج احمد بن علی الرومی بھی بیٹھے ہیں۔ایک مقام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ پولس ‘پاپیادہ جانے والوں کو پہلے جانے دے رہی ہے اور کچھ وقت کے لئے بسوں کو روک کر رکھا گیا ہے۔وفود کی بہت سی بسیں آگے جاچکی ہیں۔جب کہ سب کو ایک ساتھ رہنا تھا۔پولس والوں سے ذمہ داروں نے بہت کہا لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ایک موقع پر پہنچ کر بس ڈرائیور نے کوئی’ شارٹ روٹ‘ لینے کے لئے بس موڑ دی لیکن آگے جاکر پولس اہلکاروں نے اسے روک لیا۔پولس والا بہت غصہ میں ہے۔وہ ڈرائیورسے دروازہ کھولنے کے لئے کہہ رہا ہے۔ڈرائیور نے کچھ ردوکد کے بعد دروازہ کھول دیا۔پولس والا باوجودسخت ناگواری کے جب داخل ہوا توپہلے زور سے سلام کیا۔لیکن باقی کسی حوالہ کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور بس کو آخر کار اسی روٹ پر واپس ڈالنا پڑا۔اسی دوران ہماری بس کے ’علم بردار‘یعنی پروٹوکول افسراور ڈرائیور کے درمیان عربی میں خوب لڑائی ہوتی رہی۔ایک مقام پر افسر نے یہ کہہ کر زور سے لاحول ولاقوۃ الاباللہ پڑھا کہ یہ شاہی مہمان ہیں اور تم مشکل میں پڑسکتے ہو۔تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد ڈرائیورکی آواز ابھری’حسبی اللہ ونعم الوکیل‘۔میں نے اپنے ان ساتھیوں سے جن کو عربی نہیں آتی تھی کہا کہ دیکھو جس طرح کسی لڑائی کے دوران ہم کہتے ہیں کہ’’ٹھیک ہے جو کرنا چاہو کرلوہمارا بھی اللہ مالک ہے‘‘تو اسی طرح یہ ڈرائیورقرآن کی آیت پڑھ کر یہی کہہ رہا ہے۔
دراصل یہ اس ماحول کا اثر ہے جو سعودی حکمرانوں نے وہا ں بپا کر رکھا ہے۔انہوں نے دینی خدمات کو جو فوقیت دے رکھی ہے اس نے سعودی معاشرے کو قرآن وسنت سے دور ہونے نہیں دیا ہے۔مرکزی جمعیت علما ء ہند کے صدر مولاناڈاکٹر عزیر احمد قاسمی نے اس ضمن میں بڑا مطالعہ کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حرم مکہ اور حرم مدینہ دونوں میں بعد نماز عصرہر مسجد میں لاکھوں لوگوں کو قرآنی تعلیم دی جاتی ہے۔اسی طرح وہاں کے کالجوں میں قرآنی تعلیمات کے تین پیریڈ لگتے ہیں۔قرآن کمپلیکس میں ہر سال لاکھوں قرآنی نسخے اور متعددزبانوں میں قرآن کے ترجمے شائع کراکر ملکوں ملکوں تقسیم کئے جاتے ہیں۔دینی امور کے لئے باقاعدہ وزارت شؤن الاسلامیہ اور شرعی مسائل کے لئے دارالافتاء کے عنوان سے ایک مستقل شعبہ کام کر رہا ہے۔اس شاہی وفد نے جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا محمودوایاز کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا۔یہاں ہندوستان میں ہم جن کے قریب بیٹھنے کا تصور نہیں کرسکتے وہاں ان کے قریب دن رات رہنے کا موقع ملا۔وہاں کا حسن انتظام دیکھ کر رشک کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی آتا تھا کہ عراق کا پڑوسی ایک غیر عرب ملک محض مسلکی عناد کے تحت حرمین کا نظام بین الاقوامی فورم کے ہاتھوں میں دینے کا جو مطالبہ کرتا ہے اس کی بنیاد شرانگیزی اور فتنہ پردازی کے سوااور کچھ نہیں ہے۔حتی کہ اس سال اس ملک نے اپنے عازمین تک کا راستہ روک دیااور ہزاروں لوگوں کو حج کی سعادت سے محروم کردیا۔ایسی جرات وہی قومیں کرسکتی ہیں جن کے نزدیک دین اہم نہ ہوبلکہ جودین کو بہانہ بناکر دنیا کی فتنہ سامانیوں کو مطمح نظر بنالیں۔خدا حرمین کو فتنہ سامانیوں سے محفوظ رکھے۔ (ملت ٹائمز)

SHARE