کچھ مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کا اعتراف’یہ من کی بات ‘ہے یا بورڈ کاسرکاری بیان، بورڈ کی قیادت کی طرف سے وضاحت کا انتظار،مجلس عاملہ کے ایک سینئر رکن کے موقف سے مسلم حلقوں میں شدید بے چینی و ناراضگی
قاسم سید
اساس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے معتبر با وقار اور کم و بیش تمام مسالک و مشارب کا واحد نمائندہ پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے ۔ حکومت کے حلقوں میں بھی اس کے موقف کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جاتا ہے اس کی آواز کی دھمک دور تک سنی جاتی ہے بورڈ کے عہدیداران و ارکان بھی وقتاً فوقتاً اپنی تقریروں اور تحریروں میں اعتماد کے ساتھ یہ کہتے رہے ہیں کہ بورڈ مسلمانان ہند کی ترجمانی کرنے والا اکلوتا ادارہ ہے اور یہ حقیقت ہے کبھی کسی نے اس دعوے کو چیلنج نہیں کیا۔ اکابرین ملت کی بڑی تعداد اس میں شامل ہے اگر چہ حکومت نے اس کی آواز کو دبانے اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی نتیجہ میں ناکامی ہاتھ لگی ، مسلم خواتین پرسنل لاء بورڈ ، شیعہ پرسنل لاء بورڈ وغیرہ کہا جاتا ہے کہ اسی حکمت عملی کے بطن سے پیدا ہوئے ، یہ الگ بات ہے کہ ایسے بے بی ٹیوب بورڈ پر مسلمانوں کا اعتماد متزلزل نہیں کر سکے۔ وہ ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن و اس کی آبرو ہے آج بھی ہر طرف سے مایوس ہوکر بورڈ کی طرف ہی امید بھری نظروںسے دیکھتا ہے ۔
مگر اب بورڈ کے بعض کلیدی رکن ہی اس کی حیثیت کو چیلنج کر رہے ہیں مسلمانوں میں انتہائی متحرک فعال سرگرم لیڈر اور ٹی وی چینلوںکے پسندیدہ چہرے کمال فاروقی نے جو اپنے متنازع بیانات کے لئے شہرت رکھتے ہیں ۔انھوں نے انگریزی میڈیا میں ایک بیان سے بورڈ کی مسلمہ حیثیت پر سوالیہ نشان لگا یا ہے ۔ انگریزی روزنامہ’ دی ہندو ‘ سے طلاق و تعدد ازدواج پر حکومت کے حلف نامہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے جہاںبہت سی اچھی باتیں کیں وہیں اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ تمام مسلمانوں کونمائندہ ادارہ نہیں ہے ۔ ہاں کچھ مسلمانوں کی نمائندگی ضرور کرتا ہے قارئین کو یاد ہوگا کہ کئی ماہ قبل مدارس کے تعلق سے انتہائی قابل اعتراض بیان انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا تھاجس نے علماء و اہل مدارس ہی نہیں عام مسلمانوں میںبھی ناراضگی پیدا کی تھی اور انہوںنے اپنے بیان پر علماء سے معذرت کی تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بورڈ کی مجلس عاملہ کے ایک رکن کو بورڈ کی طرف سے بیان دینے کا اختیار ہے کیا ان کے بیان کو بورڈ کا سرکاری بیان مانا جائے اور اس سے مسلمانوں کا نمائندہ پلیٹ فارم نہ کہاجائے کیا بورڈ اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہے ۔ اگر یہ بیان غلط ہے تو بورڈ کے کسی ذمہ دار کی طرف سے اس کی وضاحت کیوں نہیں آئی۔ محترم کمال فاروقی صاحب متنازع بیان کے سبب ہی سماج وادی پارٹی سے الگ کئے گئے تھے ایسے وقت جب تمام مسلمانوں کے درمیان اتحاد ویکجہتی و بورڈ کا پوری قوت کے ساتھ ساتھ دینے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے آخر یہ شوشہ کیوں چھوڑا گیا۔کیا اس بیان کو بورڈ کی قیادت کی رضا مندی حاصل ہے ۔ جب کمال فاروقی صاحب یہ کہتے ہیں ’’ ہم دعویٰ نہیں کرتے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ تمام مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے البتہ وہ کچھ مسلمانوںکی ضرور کرتا ہے ‘‘یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ عین اس موقع پر جب بورڈ سپریم کورٹ میں شریعت کے تحفظ کے لئے اب تک کی سب سے سنگین سخت لڑائی لڑ رہا ہے یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں آن پڑی۔ بورڈ کے محترم ذمہ داران کی خاموشی سے یہ سمجھا جائے گا یہ بیان ان کی رضامندی یا ہدایت پر دیا گیا ہے یہ پھروہ قوم کو بھروسہ میں لے کر بتائیں کہ ہم تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیںکرتے اور مسلمانوں کی وہ کونسی قسم ہے جس کی نمائندگی کا تذکرہ کمال فاروقی نے اپنے قیمتی بیان میں کیا ہے ۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ خالص شرعی قوانین کی ترویج و تحفظ کے لئے قائم کیا گیا تھا اس میں علماء و فقہا کو فوقیت دی جانی چاہئے تھی مگر نا معلوم مصالح کے تحت خالص کاروباری وسیاسی لوگ بھی در آئے اور یہی سیاسی طالع آزما موقع ملنے پر بورڈ کی ساکھ کو سیاسی فیوض و برکات اور من و سلویٰ سمیٹنے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔ان نازک حالات میں کمال فاروقی کا بیان کتنا فائدہ اور نقصان پہنچانے والا ہے یہ ارباب حل و عقد ہی بتائیں تو زیادہ بہتر ہے لیکن سنجیدہ مسلم حلقوں میں اس سے بے چینی اور شدید ناراضگی ضرور پیدا ہو رہی ہے۔ دراصل المیہ یہ ہے کہ اردو والوں کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ ان بے چاروں کی انگریزی اخباروں تک پہنچ کہاں ہے اس لئے’ من کی بات ‘کہہ دی جاتی ہے ۔