ہم دونوں کے آنگن میں شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

پس دیوار:نزہت جہاں
برصغیر کے دوملکوں کے درمیان تلخیاں عروج پر پہونچ چکی ہے ،ہر ایک دوسرے سے زیادہ طاقتور ہونے کا ثبوت پیش کررہاہے ،دونوں ملک ہائی الرٹ ہیں ،کب کیا ہوجائے کون کس پر حملہ کردے کچھ نہیں کہاجاسکتاہے،یہ کشیدگی اور تعلقات میں یہ تلخی18 ستمبر کو اڑی،کشمیر میں ہندوستانی فوج پر ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کے بعدپیدا ہوئی ہے ،گذشتہ دنوں اڑی میں ایک فوجی کیمپ پر درمیان شب میں ایک فدائین حملہ ہوا جس میں بیس فوجی نوجوان شہید ہوگئے ،اس حادثہ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اختلاف کا پارہ انتہاء کو پہونچ گیا،پاکستان نے ایٹمی حملہ کرنے کی بھی دھمکی دے دی،اطلاع کے مطابق پاکستانی فوج ٹرینگ میں مصروف ہے تو ہندوستان بھی پاکستان کو ایک مرتبہ پھر سبق سکھانے کیلئے تیار ہے ، دونوں ملکوں کی میڈیا اس میں نمایاں کردار اداکررہی ہے ،ٹی وی چینلوں پرایک طوفان جنگ برپا کردیا گیاہے ،کسی چینل پر ہندوستان کو حملہ کرنے کیلئے اکسایا جارہاہے تو کہیں لوگوں سے دستخط لیا جارہاہے حکومت پر حملہ کا دباؤ بنانے کیلئے ،ایسا لگ رہاہے کہ خدانہ نخواستہ ہزاربارخدانخواستہ دونوں ملکوں کے درمیان اگر جنگ چھڑجاتی ہے تو اس وقت یہی میڈیا پرسن اور ٹی وی اینکرس جنگ کی قیادت کریں گے ،صف اول اور قلب میں جاکر فوج کی کمان سنبھالیں گے کیوں کہ وہ جس طر ح ہندوستان کی دفاعی طاقت کا تجزیہ کررہے ہیں، جنگ لڑنے کے اصول وضوابط کو پیش کررہے ہیں ،چیخ چیخ کر یہ بتارہے کہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے صرف پانچ منٹ کافی ہے،اس کے مطابق انہیں کو کمانڈر انچیف کی ذمہ اداکرنے پڑے گی ، دوسری طرف پاکستانی میڈیا بھی ہندوستانی میڈیا کے شانہ بشانہ کھڑا ہوکر جنگی جنون کو اکسانے اور نفرت انگیز مہم چھیڑنے میں ہندوستان کو دس قدم پیچھے چھوڑنے کی کوشش کررہاہے ،وہاں کے اخبارات کھول کر دیکھتی ہوں تو ہندوستان کے خلاف ان کی زبان ،انداز اور طر زتحریر دیکھ کر میں حیران رہ جاتی ہوں کہ کیا کسی کو کسی دشمن کے خلاف اتنی سطحی زبان استعمال کرنی چاہئے ،سوشل میڈیا پربھی ہنگامہ برپا ہے ،اطراف سے دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کی مہم چھیڑنے کی کوشش جاری ہے ،نئی نسل کے لوگ اشتعال انگیزپوسٹ سے فیس بک کو میدان جنگ میں تبدیل کرچکے ہیں،کبھی کبھی مجھے ایسالگتاہے کہ فیس بک سوشل سائٹ نہیں بلکہ میدان جنگ ہے جہاں دونوں طرف کی فوجیں آپس میں برسرپیکار ہیں ،کسی تاخیر کے بغیر مسلسل حملہ ہوتارہتاہے ،ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی ،اشتعال انگیز پوسٹ اور توہین آمیز گرافکس کا تبادلہ جاری رہتاہے ، امن ومحبت اور صلح وسمجھوتہ کی کسی کو فکر نہیں ہے ، سچ پوچھئے تو ایک دوسرے پر فوجی حملہ ہو یا نہ ہو لیکن نظریاتی جنگ بہت تیز ی اور شدت کے ساتھ ہورہی ہے ،دونو ں طرف کی فوج فیس بک پر میدان فتح کرنے میں مصروف ہے ۔
جنگ وجدال نے دنیا کو تباہ وبربادکیا ہے،ہزاروں گھڑوں کو اجاڑدیاہے ،بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ بنایاہے ،کتنی قومیں اس جنگ میں صفحہ ہستی سے مٹ گئی ہیں اور کئی نسلیں تباہ ہوگئی ہیں ،ماضی کی داستان بکھیرنے کے بجائے حالیہ دنوں میں جہاں جنگ جار ی ہے اسی کا جائزہ لے لیجئے ،عراق ،شام ،افغانستان لیبیا اور یوکرائن جاکر دیکھئے جہاں جنگ کے نام پر کتنے خاندان تباہ وبرباد ہوگئے ہیں، لاکھوں انسان بحران کے شکار ہیں،سرچھپانے کیلئے ان کے پاس چھپر تک نہیں ہے ،وہ دووقت کی روٹی کھانے کیلئے یورپ اور ترکی کا رخ کررہے ہیں،اپنے ملک کی زمین ان کیلئے تنگ پڑچکی ہے ،جنگ کی شروعات ہوجانے کے بعد یہ سلسلہ ان ملکوں میں رکنے کا نام نہیں لے رہاہے، اب تک وہاں امن وسکون کا نام نشان نہیں ہے اور نہ طویل عرصے تک ایسی کوئی امید ہے ، خود پاکستان میں امریکہ کے ڈرون حملہ اور ضرب عضب کے ناموں پر ہزاروں بے گناہ جاں بحق ہوئے ہیں۔ماضی قریب میں ناگاساکی اور ہیروشیما پر ہونے والے ایٹمی حملے کا بھی جائزہ لے لیاجائے جہاں کئی نسلیں متاثر ہوچکی ہیں ،جب ان دونوں جگہوں پر ایٹمی حملہ ہواتھاتو وہاں کی صورت قیامت خیز منظر پیش کررہی تھی ،کوئی کسی کا پرسان حال نہیں تھا۔
ہندوستان ۔پاکستان کی حکومتوں کے درمیان تلخیوں کا سلسلہ کبھی کم نہیں ہوتاہے ،فرق اتنا ہے کبھی کم تو کبھی زیادہ ہوجاتاہے ،وقت ایسا بھی آتاہے جب پاکستان کے وزیر اعظم ایک مختصرسی دعوت پر ہندوستان تشریف لے آتے ہیں اور ہندوستان کے وزیر اعظم بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ظہرانہ کرنے کیلئے پاکستان میں لینڈ کر جاتے ہیں ،کبھی پروگرام طے ہونے اور تمام تر تیاریوں کے باوجود ہندوستانی وزیر اعظم پاکستان جانے سے انکار کردیتے ہیں ،سوشل میڈیا پر بھی نظریاتی جنگ چلتی ہے ،ایل اوسی پر فائرنگ بھی ہوتی رہتی ہے اس کے باوجود دونوں جگہ کی عوام اتحاد چاہتی ہے ،امن وسلامتی کا فروغ چاہتی ہے ،دونوں ملک کے باشندے ایک دوسرے سے مضبوط سفارتی رشتے کے خواہش مند ہوتے ہیں،اور ہونا بھی یہی چاہئے کہ ہندوپاک کے درمیان صرف سرحد کی تقسیم ہے بقیہ تمام چیزوں میں یکسانیت ہے ،دونوں ملک کی تہذیب ،ثقافت اور کلچر میں مکمل مساوات ہے ،دونوں ملکوں کے مسائل یکساں ہیں،غربت ،فاقہ کشی ،بھوک مری ،کرپشن ،ناخواندگی ،بے روزگاری بے ایمانی اور اس جیسے امراض کا شکار دونوں ملک ہے ،اقتصادی اور معاشی حالات بھی تقریبا یکساں ہیں ،ایسے میں دونوں ملکوں کی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ وہ غربت کے خلاف جنگ لڑیں،تعلیمی ،معاشی ،سماجی اور صحت کے میدان میں ترقی کرنے پر توجہ مبذول کریں ،سرحد پر فائرنگ بندکرکے امن کا دیا جلائیں ،دونوں ملک کے حالات اسی کے متقاضی ہیں ،دونوں ملک کی ترقی اسی میں ممکن ہے ،دفاعی بجٹ کم کرکے عوامی اصلاحات پر فوکس کرنے کی اشدضرورت ہے،جنگ اگر ہوتی ہے تو نقصان دونوں ملک کا ہوگا کیوں کہ دونوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہے اور اس طرح ان دونوں ملکوں کی ترقی کی رفتار اور سست پڑجائے گی بلکہ یہ دونوں ملک مزید کئی دہائی پیچھے چلیں جائیں گے۔امریکہ کی دوستی پر خوش ہونے والے اور چین کی دوستی کو بنیاد بناکر دوسروں کو آنکھ دکھانے والوں کو یہ اچھی طرح ذہن نشیں کرلینی چاہئے کہ یہ دونوں کسی دوسرے کے ہونے والے نہیں ،یہ اپنے مفاد کی خاطر یہ سب کررہے ہیں،کب بیچ دریا میں چھوڑ کرچلے جائیں کوئی ٹھکانہ نہیں ۔
ہندوپاک کے درمیان جاری تنازع کے دوران ہندوستان کی کوشش ہے کہ جنگ چھیڑنے کے بجائے سفارتی سطح پر پاکستان کو کمزور کیا جائے ،دنیا سے الگ تھلگ کیا جائے جس میں ایک بڑی کامیابی مل چکی ہے ،نومبر میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنس میں عدم شرکت کا فیصلہ کرکے نریندر مودی نے ایک مضبوط اقدام کیا ،جس کا نتیجہ یہ ہواکہ افغانستان ،بنگلہ دیش اور بھوٹان نے بھی سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کیا اور بالآخر وہ کانفرنس ملتوی ہوگئی ،وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ واضح کردیاہے کہ ہندوستان پاکستان پر کوئی بھی فوجی حملہ نہیں کرے گا البتہ سفارتی سطح پر پاکستان کو دنیا سے الگ تھلگ کردیا جائے گا ۔ہندوپاک کے درمیان جاری تنازع میں عام انتخاب کے دوران استعمال کئے گئے نریندر مودی کے ایک اور جملہ کی حقیقت منظر عام پر آگئی ہے کہ جس طرح اندرونی مسائل میں انہوں نے چناوی جملہ کا استعمال کیا تھا اسی طرح خارجہ پالیسی میں بھی انہوں نے اپنے وعدے بطور جملہ ہی پیش کئے ،انہوں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے کہاتھاکہ پاکستان کو اسی کی بھاشامیں جواب دینا چاہئے ،کانگریس سے کہاتھاکہ وہ پاکستان کو عشقیہ خطوط لکھنا بند کرے لیکن آج وہ خود وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہیں تو جنگ سے انکاررکرہے ہیں اور یہ کہ رہے کہ ہندوستان کوئی بھی فوجی حملہ نہیں کرے گا ، اس دوران ہندوستانی فوج نے سرجیکل اسٹرائک کرکے اڑی حملہ کا انتقام لینے کی کوشش کی ہے لیکن اب تک یہ واضح نہیں ہوسکاہے کہ جسے ہندوستان سرجیکل اسٹرائک کہ رہاہے وہ حقیقت ہے یا پھر اہل وطن کا دل جیتنے کیلئے ایک فرضی ڈرامہ کیوں کہ پاکستان اسے سرجیکل اسٹرائک ماننے سے مسلسل انکارکررہاہے،اقوام متحدہ نے بھی ہندوستان کے موقف کی تائید کرنے اور اسے سرجیکل اسٹرائک ماننے کے بجائے ایل اوسی پر فائرنگ قراردیاہے۔اگر یہ واقعی سرجیکل اسٹرائک ہے اور دعوی کے مطابق 50 دہشت گرد مارے گئے ہیں تو ہم اپنی آرمی کے نوجوانوں کے اس جذبہ شجاعت کو سلام کرتے ہیں ۔
(مضمون نگار بہار اسکول میں استاذ اور آزاد جرنلسٹ ہیں )