طلاق اذیت ہے ایک ہو یا تین

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی 

مسلم حکومت کے خاتمہ کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج مذہبی آزادی اور شریعت کے مطابق عائلی زندگی بسر کرناتھا،ہندوستان میں پیش آنے والے ان حالات کا اندازہ مفکر اسلام مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی دوررس نگاہوں نے بہت پہلے لگایاتھااس لئے انہوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں امارت شرعیہ قائم کرکے دارالقضاء کا ایک منفرد تصور دیا ، ہندوستان سمیت ان تمام ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں انہیں اپنے عائلی مسائل کو حل کرنے کا یہ بہتر طریقہ بتایا،نکاح ،طلاق ،خلع ،وراثت اور اس جیسے معاشرتی مسائل کیلئے مسلمان سرکاری عدالتوں کا رخ کرنے کے بجائے اسلامی دارلقضاء کا رخ کریں جہاںان کا فیصلہ اسلامی تعلیم کے مطابق کیا جائے ،کیوں جن ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں کی عدالتوں کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہوگا ایسے میں مسلمانوں کو اپنے عائلی مسائل کا حل اسلامی شریعت کے مطابق نہیں مل پائے گا ،یہ تحریک ہندوستان میں پروان چڑھی اور ایک واقعہ کے پس منظر میں1937 میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ بھی بن گیا جس میں یہ با ت تسلیم کی گئی کہ پرسنل لاء سے متعلق مسائل میں اگر دونوں فریق مسلمان ہوں تو ان پر شرعی قوانین کا اطلاق کیا جائے گا۔ہندوستان کی آزادی کے بعد آئین کی دفعہ 15 اور 25 میں اس بات کی مکمل وضاحت کی گئی کہ ہندوستان میں مکمل مذہبی آزادی ہوگی ،1976 میں آئین میں سیکولر اسٹیٹ کا اضافہ بھی کردیا گیا کہ یہاں تمام مذہب کے پیروکاروں کو اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرنے کی مکمل اجازت ہوگی ، لیکن اسی آئین میں آرٹیکل کی دفعہ 44 بھی شامل کردی گئی جس کے مطابق بتدریج یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش کی جائے گی ۔
جمہوری حکومت کے قیام کے بعد متعدد مرتبہ سماجی اصلاح کے نام پر مسلم پرسنل کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ،کئی فیصلے شریعت کے خلاف کئے گئے، جس میں سب سے اہم 1972 میں پیش کیا گیا متبنی بل ہے جس میں متبنی کو حقیقی بیٹے کے درجہ میں مانتے ہوئے واراثث کا حقدار قراردیا گیا ، اس فیصلہ کے بعد مسلمانوں میں بیداری آئی اور اپریل 1973 میں مولانا منت اللہ رحمانی اور دیگر علماء کی ملک گیر تحریک کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام عمل میں آیا جو آج کی تاریخ میں مسلمانان ہند کا نمائندہ اور متحدہ ادارہ کہلاتاہے ،قیام کے بعد سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کوکئی محاذ پر کامیابی ملی ہے تواسے ناکامی کابھی سامناکرناپڑاہے،جس میں سرفہرست شاہ بانو کیس ہے جس میں بورڈ کو سپریم کورٹ میں شکست کا سامناکرناپڑا۔
شاہ بانوکے بعد اب سائرہ بانوں کا معاملہ سرخیوں میں ہے ،شاہ بانوکا معاملہ نان ونفقہ سے متعلق تھا،انہیں 62 سال کی عمر میں طلاق ملی تھی جس کے بعد انہوں نے عدالت سے اپنے لئے تازنذگی نان ونفقہ دلوانے کی درخواست کی تھی،سائرہ بانوں کی عرضی تین طلاق کے خلاف ہے ،اتراکھنڈ کے کانشی کی رہنے والی سائرہ بانوں کی 2002 میں شادی ہوئی تھی ،بارہ سالوں بعد 2014 میںان کے شوہرنے طلاق دے دیا ،سائرہ بانوں نے انصاف کیلئے سپریم کورٹ کا دروازہ کٹھکھٹایا،اور مختلف طرح کے مقدمات کے ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا کہ تین طلاق کا اختیار مردوں سے سلب کرلیا جائے ،جون 2016میں اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ اور حکومت ہنددونوں کو حلف نامہ دائر کرنے کو کہا،بورڈ اور حکومت دونوں کا حلف نامہ سپریم کورٹ میں داخل ہوچکاہے،بورڈ نے اپنے حلف نامہ میں وضاحت کی ہے کہ طلاق اور تعددازدواج میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی ہے جبکہ حکومت نے اس کے خلاف اپنے حلف نامہ میں یہ کہاہے کہ ایک سیکولر ملک میں تین طلاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ،سائرہ بانوں کے ساتھ تین طلاق کے خلاف آفرین رحمان اور عشرت جہاں بھی اپنا مقدمہ لڑرہی ہیں ،خواتین مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی تین طلاق کے خلاف تحریک چلارہی ہے ،ایک سروے بھی دکھایاجارہاہے جس کے مطابق 92 فیصد خواتین تین طلاق پر پابندی چاہتی ہیں،ٹی وی چینلوں پر مسلسل ایسی خواتین کو لایا جارہاہے جو یہ کہتی ہیں کہ نہ صرف تین طلاق بلکہ سرے سے طلاق ہی ہمارے ساتھ زیادتی ہے ،صرف مردوں کو تعددازدواج کا ختیار دیاجانا عورتوں کے ساتھ ناانصافی ہے ،اسلام میں صنف نازک کے ساتھ امیتازی سلوک برتاجارہاہے،مفتیان کرام اور قضاۃ عورتوں کے ساتھ ظلم کررہے ہیں،ان خواتین کامطالبہ ہے کہ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کیا جائے۔
مذہب اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ جس طرح یہاں نکاح جیسے پاکیزہ رشتہ کا تصور دیاگیاہے اسی طرح اس رشتہ کو مجبوری کوصورت میں ختم کرنے کا طریقہ بھی بتایاگیاہے،مردوعورت دونوں کو یہ حق دیا گیاہے کہ اگر ان کی ازدواجی زندگی خوشگوارنہیں گزرہی ہے ،یاان میں کسی ایک کو یہ رشتہ باقی رکھنا منظور نہیں ہے تو وہ طلاق یہ خلع کے ذریعہ ختم کرلے،شریعت میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ دنیا کی سب سے مباح چیزوں میںمبغوض طلاق ہے ، طلاق کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ ایک لفظ ہے جس کی ادئیگی کے بعد واپسی کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے،جس طرح بندوق سے نکلی ہوئی گولی واپس نہیں آسکتی ہے ،اسی لئے شریعت نے طلاق دینے کا طریقہ بھی بتادیاہے کہ اگر بحالت مجبوری طلاق دینی پڑے تو پہلے ایک طلاق دی جائے ،پھر دوسری اور تیسری تاہم ایک مجلس میں اگر کوئی تین طلاق دیتاہے تو یہ بھی واقع ہوجائے گی ہرچند کہ گناہ کبیرہ ہے اور ایساکرنے والوں پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑابھی لگایاہے،مسلمانوں کے ایک مسلک کا اس سے اختلاف ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک مانی جائے گی بہر حال یہ آپسی ختلاف ہے جو ہمار ا موضوع بحث نہیں ہے،اصل معاملہ تین طلاق کا ہے جس کے وقوع پر سبھی کا اتفاق ہے اور اس کا ثبوت نص قطعی یعنی قرآن کریم سے ہے ۔ہاںاس بات پر غور وفکر کرنے کی گنجائش ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والوں کے ساتھ کیا کاروائی کی جائے ،وہاٹس ایپ ،فیس بک ،ایمو اور اسکائپ کے ذریعہ دی گئی طلاق پر وقوع کا اطلاق کیا جائے یا نہیںتاہم تین طلاق کے عدم وقوع پر غورفکر کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،حکومت نے اپنے حلف نامہ میں جن مسلم ملکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاہے کہ وہاں تین طلاق پر پابند ی عائد ہے دراصل وہاں طلاق کو عدالتی نظام سے مربوط کیا گیاہے نہ کہ تین طلاق کے عدم وقوع کا انکار کرتے ہوئے اس پر پابندی لگائی گئی ہے۔
تین طلاق پر پابندی عائد کرنا اور یہ کہنا کہ ایک سیکولر ملک میں تین طلاق کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے یقینی طور پر شریعت میں مداخلت ہے ،خدانخواستہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر اس کے مطابق آجاتاہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تین طلاق دئے جانے کے بعد بھی آئین ہند کی روسے میاں بیوی دونوں کے درمیان رشتہ ازدواج باقی رہے گا جبکہ شریعت کی نگاہ میں یہ تعلق حرام ہوگا،حکومت کے اس موقف کی روشنی میں خواتین کا حق خلع بھی سلب ہوجائے گا کیوں کہ خلع کے وقوع کیلئے شوہر کا طلاق دینا ضروری ہے ،بات اگر طلاق کی کی جائے تو عورتوں کیلئے جتنی اذیت ناک تین طلاق ہے اتنی ہے ایک طلاق ہے ،جس طرح تین طلاق کے بعد دونوں کے درمیان کوئی رشتہ باقی نہیں رہتاہے اور حلالہ کے بغیر واپسی ناممکن ہے اسی طرح ایک اور دو طلاق کے بعدبھی دونوں کی درمیا ن جدائیگی ہوجائے گی ،پھر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ صرف طلاق ثلاثہ پر پابندی سے حکومت کا مطلب کیاہے اور اس میں انسانیت کی بنیاد پر عورتوں کے کس حق کی ترجمانی کا دعوی کیا جارہاہے ،ازدواجی زندگی میں درپیش مشکلات سے نجات پانے کیلئے طلاق کا تصور صرف اسلام نے دیا ہے ،دنیا کے دیگر مذاہب نے یہیں سے اخذکیا ہے ایسے میں خواتین کو اسلام سے زیادہ حقوق اور تحفظ کہیں اور مل جائے یا ناممکن ہے ۔ (ملت ٹائمز)
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com