ایم ودودساجد
صحافت کا میرے جیسا ادنی طالب علم جہاں بھی جاتا ہے وہاں اپنی صحافتی حس کا استعمال کرنا چاہتا ہے۔لہذاحج 2016کے دوران خدا نے یہ موقع خودہی عطا کردیا۔گوکہ کوشش یہی رہی کہ حرم مکہ میں قیام کے دوران زیادہ وقت خانہ کعبہ میں ہی گزار دیا جائے لیکن حج کے ایام شروع ہونے سے دوروز قبل مجھ سے کہا گیا کہ آپ کو بین الاقوامی میڈیا کی ایک خصوصی حج کانفرنس میں کلیدی موضوع پر خطاب کرنا ہے۔ اس کے لئے مجھے حرم کے اوقات میں تبدیلی کرنی پڑی۔خدا کا شکر ہے کہ بہت سے ملکوں کے صحافیوں کو سننے اور وہاں کی صحافتی زندگی کے علاوہ سماجی اور سیاسی صورت حال کوجاننے کا موقع ملا۔آپ کے اس روزنامہ سمیت ملک کے متعدد اخبارات میں شائع ہونے والی گزشتہ دوقسطوں کو پڑھ کر بہت سے قارئین نے یہ فرمائش کی ہے کہ اس مقدس سفر کے کچھ اور نکات پر روشنی ڈالی جائے۔لہذا اس سلسلہ کی یہ تیسری اور آخری قسط ہے اور اس کے بعد اگر خدا نے چاہا تو ان تینوں مضامین کو ملاکراور ان میں کچھ اضافہ کرکے ایک سفرنامہ ترتیب دینے کی کوشش کروں گا۔یوں میں بھی میں نے 1997سے 2010کے آخر تک لیبیا‘تیونیشیا‘فرانس‘عراق‘اردن‘ترکی‘مصر اور امریکہ سمیت جو غیر ملکی دورے کئے ان کے سفرنامے محض اس انتظار میں ترتیب نہیں دئے کہ جب تک وہ مقدس سفر نہ ہوجائے جس کی تمنا ہر مسلمان کرتا ہے اس وقت تک کسی سفر نامہ کی کوئی افادیت اور اہمیت نہیں ہے۔
سعودی عرب کے حکمراں طبقہ نے حرمین کی خدمات کے حوالہ سے بلاشبہ ممتاز حیثیت حاصل کرلی ہے۔جس منظم پلاننگ اور حسین منصوبہ کے ساتھ انہوں نے حرمین کی توسیعات کو انجام دیا ہے دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔لیکن اہلکاروں میں ابھی کچھ میدانوں میں تربیت کی کمی ہے۔معلوم نہیں یہ کمی ان کی سادگی کے سبب ہے یا ان کے مزاج کی وجہ سے ہے لیکن اس کمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔انگریزی بین الاقوامی رابطہ کی زبان بن گئی ہے اورامریکہ وبرطانیہ نے ایک خاص کوشش کے تحت اسے پوری دنیا میں اس طرح پھیلا دیا ہے کہ اس کو سیکھے بغیر فرد ادھورا ہے۔لہذااہلکاروں کو انگریزی زبان کا ماہر نہ سہی اس کا واقف تو ضرور بنادینا چاہئے۔اسی طرح پلاننگ میں نچلے درجہ کے کارندوں اور افسروں کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔مجھے جس کانفرنس کو خطاب کرنا تھااس کے لئے مجھ سے رابطہ پر مامور پرائیویٹ اہل کاروں کو یہ علم نہیں تھا کہ مجھے کتنی دیر بولنا ہے۔جب کانفرنس ہال میں مجھے کانفرنس کے مہمان خصوصی شیخ راشدالزہرانی کے پاس بٹھایا گیا تب مجھے معلوم ہواکہ کانفرنس کا اصل موضوع صرف میرے پاس ہے اور باقی ملکوں سے آنے والے صحافیوں کودوسرے ضمنی موضوعات دئے گئے ہیں۔شیخ زہرانی ہی اس کانفرنس کے ماڈریٹرتھے۔ہمارے پڑوسی ملک کے ایک سابق وزیر اطلاعات ونشریات کوکلیدی نشستوں سے ہٹ کر بٹھایا گیا تھا۔مجھے کچھ تکلف ہوا لیکن میں نے خدا کاشکر ادا کیا کہ اس نے یہ افضلیت محض اس قرآن پاک کے سبب عطا کی جو والدصاحب کی محنت سے میرے سینہ میں محفوظ ہے۔لہذا میں نے اپنی گفتگو کا آغاز قرآن پاک کی آیت انماالمومنون اخوۃ— سے کیا۔
ایک لطیف واقعہ یہ ہوا کہ جب تقریباً تمامندوبین بول چکے توشیخ زہرانی نے کہا کہ میں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ ہر ایک مقررکو کتنی دیر بولنا ہے۔میرا نمبر آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ مجھے کتنی دیر بولنا ہے‘5منٹ یا 3منٹ؟انہوں نے بلا تکلف کہا کہ ڈیڑھ منٹ۔حال یہ ہے کہ میرے تعارف میں انہوں نے دومنٹ سے زیادہ صرف کردئے تھے۔بہرحال بعض ملکوں کے صحافیوں نے کہا کہ ہندوستانی صحافی کو ہم تفصیل سے سننا چاہتے ہیں اور انہیں زیادہ وقت دیا جانا چاہئے۔میں نے کہا کہ بلاشبہ حج ایک طاقتور میڈیا ہے اورسماجی سطح پر اس کاسب سے بڑا پیغام اتحادبین المسلمین ہے۔یہاں پوری دنیا سے ہر رنگ ونسل ‘ہر سوسائیٹی اور ہر مسلک کے لوگ ایک ہی معبود کے سامنے جھک جاتے ہیں اور باوجوداس کے کہ تہذیب وتمدن ‘زبان وبیان اور خطہ وعلاقہ کے اعتبارسے سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں حرم میں ایک دوسرے سے ملنے والی تکلیف کو برداشت کرتے ہیں۔اور سب ایک ہی مقصد کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کا جذبہ رکھتے ہیں۔میں نے کہا کہ اللہ کے رسول کافرمان ہے کہ گورے کو کالے پر‘عربی کو عجمی پر‘امیر کو غریب پراور بادشاہ کو فقیر پرکوئی فوقیت نہیں ہے۔اور مجھے خوشی ہے کہ سعودی حکمراں اس فرمان پر پوری طرح عمل پیرا ہیں۔وہ ہر حاجی کواللہ کا مہمان تصور کرتے ہیں اور اس کی بلاامتیاز خدمت کرتے ہیں۔یہاں تک کہ پولس اہلکارشاہ سلمان کے مہمانوں کو دوسرے مہمانوں پر کوئی فوقیت نہیں دیتے۔لہذا اس بار کے شاہی مہمانوں میں سب سے زیادہ بڑی تعداد ان افریقی ملکوں سے تھی جہاں بڑے پیمانے پر غربت اور جہالت ہے۔ان ملکوں کے مندوبین کا رہن سہن اور’کھان پان‘ دیکھ کر لگتا تھا کہ ابھی انہیں بہت کچھ سیکھنا ہے۔میرا خیال ہے کہ سعودی حکمراں مسلم معاشرے کے ان دور افتادہ اور پسماندہ مگر جفاکش اور سیاہ فام طبقات کو برابری کی سطح پر لانا اور انہیں مہذب ومتمدن بنانا چاہتے ہیں اور یہی اسلام کی اصل روح ہے۔اس کا ایک بدیہی ثبوت یہ ہے کہ مکہ‘منی اورعرفات میں قیام کے دوران مندوبین کی مسلسل تربیت کے لئے علما اور خطبااور مختلف انعامی تقریری مقابلوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ نمازوں کے بعدمختلف شرعی مسائل بھی بیان کئے جاتے تھے جہاں دنیابھر کی زبانوں کے ماہرمترجمین ترجمہ کرتے تھے۔میں نے شاہ سلمان کے بارے میں مزید کہا کہ پچھلے سال 11ستمبر کو حرم میں ہونے والے کرین حادثہ کے بعدوہ خود شہیدوں کے ورثاسے تعزیت اورزخمیوں کی عیادت کے لئے ہسپتالوں میں گئے۔اس سال بھی انہوں نے منی میں انتظامات کاخود آکر جائزہ لیا۔
پڑوسی ملک کے ایک سابق وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ ہم نے میڈیا کو خوب آزادی دے رکھی ہے۔میں نے کہا کہ اگر آزاد میڈیا دیکھنا ہوتو ہندوستان آئیے۔خاص طورپر اردو میڈیا‘حکومت کے غلط اقدامات اور منفی پالیسیوں پر جارحانہ گرفت کرتا ہے۔اس پروگرام میں انڈونیشیا‘بنگلہ دیش ‘بوسنیا‘کینیا‘سینیگال‘کیمرون‘ملیشیا اور نائیجریاکے صحافیوں نے بھی خطاب کیااور اپنے ملکوں میں اخبارات اور صحافیوں کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔یہ بات سن کر حیرت ہوئی کہ انڈونیشیا میں اگر چینل پر مذہبی پروگرام پیش کئے جاتے ہیں تو اس کی سخت تنقید ہوتی ہے۔انڈونیشیا کے صحافی نے بتایا کہ مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان بڑے اختلافات ہیں جو ایک چیلنج ہے۔ملیشیا کے ایک صحافی نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ مغربی میڈیا ہمارا مخالف ہے لیکن اصل سوال ہے کہ خود ہم کیا کر رہے ہیں۔میں نے سعودی عرب کے ذمہ داران کو مشورہ دیا کہ مغربی میڈیا کو زیر کرنے کے لئے اسے ایک بڑا کردارادا کرنا چاہئے۔اور صرف حج کے دوران ہی نہیں بلکہ دوسرے مواقع پر بھی بین الاقوامی میڈیا کو مدعو کرنا چاہئے۔میں نے بتایا کہ ہندوستان کے مسلمان اور اردو اخبارات سعودی عرب سے متعلق خبروں اور واقعات کو اہمیت دیتے ہیں اور بعض ملکوں کی سیاسی سازشوں کا پر زور جواب دیتے ہیں۔نائیجریا کے ایک صحافی عبدالمومن نے کہا کہ ان کے ملک میں میڈیا آزاد نہیں ہے اور سخت قدغن کا شکار ہے۔عبدالمومن ایک مسجد میں امام بھی ہیں‘ایک اخبار کے ایڈیٹر بھی ہیں اور خیراتی بنیادوں پر ایک ہسپتال اور ایک اسکول بھی چلاتے ہیں۔
یہاں ایک اور نکتہ بھی قابل بیان ہے۔شاہی ضیافت والے اس حج کے طفیل ہندوستان کے کم سے کم ایک بڑے سائنٹسٹ نے رجوع الی الاسلام کا مژدہ سنایا۔جامعہ ہمدردکے سابق وائس چانسلراور ہمدردمیڈیکل ایجوکیشن اینڈریسرچ سینٹرکے ڈائریکٹرڈاکٹر غلام نبی قاضی نے جب دوران طواف بزور بازوکعبۃ اللہ کو پکڑ لیا توبقول ان کے ان کی دنیا ہی بدل گئی۔انہوں نے فارغ ہوتے ہی اپنی بیٹی کو ایس ایم ایس کیا اور لکھا’’کہ آج مجھے اپنی جڑوں سے وابستگی کا احساس ہوا‘‘۔رات کو انہوں نے یہ واقعہ مجھے سنایااور اس کے بعدانہوں نے کمر کی تکلیف کے باوجود جس جذبہ اور عقیدت سے باقی تمام ارکان پورے کئے اور جس طرح شب بیداری کی اس نے مجھ جیسے بے بضاعت کو شرمندہ کردیا۔یہ حج بیت اللہ کی ہی برکت تھی کہ دوران سفرانہوں نے اور دوسرے بہت سے معمرساتھیوں نے میرا خیال رکھا۔واپسی میں جدہ ایرپورٹ پرکئی گھنٹے کے انتظار کے دوران خود لائن میں لگ کر میرے لئے چائے کا انتظام کرکے ڈاکٹر جی این قاضی نے مجھے جو عزت بخشی اس کا میرے پاس کوئی بدل نہیں ہے۔انہوں نے میری گزشتہ دوقسطوں کے مطالعہ کے بعدلکھا’’کہ میں نے دوران حج آپ سے بہت کچھ سیکھا اور اب ان مضامین سے بھی کافی کچھ حاصل کیا۔دراصل آپ کے یہاں فطری روانی اور حقائق کی سادگی پائی جاتی ہے ‘‘۔دارالعلوم دیوبندکے استاذ ان حدیث موالانا نعمت اللہ اور مولانا جمیل احمد سکروڈھوی‘جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلرڈاکٹر طلعت احمد‘پروفیسر اقتدار محمد خان‘پروفیسر جنید صدیقی‘پروفسیرجنید حارث‘پروفیسر مسعود حسین خان‘ضیاء الدین ‘بلال احمد‘مولانا فضل الرحمن‘مفتی نیاز احمد ندوی اور مفتی وصی احمد نے جس طرح میرے ساتھ شفقت کا معاملہ کیاوہ سوائے خانہ کعبہ کی برکت کے اور کچھ نہ تھا۔دیوار کعبہ کے سائے میں میں نے اپنی جس انا کو ذبح کیااس نے ایک نئے انسان کو جنم دیا ہے یا نہیں یہ تومیرے احباب بتائیں گے لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ خدا نے میرے اعتقاد اور میرے یقین کی بنیادوں کو ہمالیائی مضبوطی بخش دی ہے۔میں نے کعبۃ اللہ کے سامنے تین طرح سے دعا کی۔حتی الامکان اپنے تمام متعلقین اور واقف کاروں کے ناموں کی فہرست تیار کی اور ان سب کے لئے دعا کی۔اسی طرح ان کے لئے بھی خدا سے فضل وعطا کی خیرات مانگی جو میری فہرست میں جگہ پانے سے رہ گئے اورہندوستان میں بسنے والے ان تمام مسلمانوں کے لئے بھی مالک کائنات سے رحم وکرم کی بھیک مانگی جو حج کے بعد مجھ سے ملیں اور جب انہیں پتہ چلے تو وہ کہیں کہ ہمیں معلوم ہوتا تو ہم آپ سے دعا کے لئے کہتے۔میری دعا ؤں میں میرے تمام قارئین بھی شامل تھے۔اب میں اپنے قارئین سے بھی دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ ایک بڑا مرحلہ درپیش ہے اور خدا کے سوا کسی سے بھیک نہیں مانگ سکتا۔ (ملت ٹائمز)