مسلم خواتین کو مکمل حق ملا ہے ،ظلم ہندوخواتین کے ساتھ ہورہاہے !

پس دیوار :نزہت جہاں
انسانی تاریخ کے مطالعہ معلوم ہوتاہے کہ عورت روز اول سے ہی حقیر سمجھی جاتی رہی ہے ،کسی بھی معاشرہ میں اس کو عزت نہیں دیاگیا،بدھ مت ، ہندو ازم ، عیسائیت اور یہودیت جیسے مذاہب اسلام سے بہت پہلے میدان میں آئے،انسانیت کے ہاتھوں بڑے بڑے تہذیبی ادارے قائم ہوئے ، پھلے پھولے لیکن عورت کی بدبختی اور کسمپرسی برقرار رہی اور ذرا بھی ترقی نہ ہوسکی۔عورت کیا تھی؟ محض غلامانہ حیثیت رکھتی تھی۔یونان نے علم و حکومت میں بے پناہ ترقی کی لیکن اس تہذیب میں بھی عورت کی کوئی حیثیت نہ بن سکی۔ہندوؤں کو اپنے قدیم تمدن پر ناز تھا لیکن وہاں بھی عورت کی حالت ناگفتہ بہ تھی، یہاں تک کہ پوجاپاٹ میں بھی خواتین کے ساتھ امتیاز برتاگیا۔یورپ نے تہذیب و تمدن کے بڑے بڑے ادوار دیکھے لیکن ان میں عورت کی ذات اور حقوق کے متعلق کوئی یکساں قانون موجود نہ تھا اس لئے وہاں اس کے حل کیلئے ایک علمی اکیڈمی قائم کی گئی جس نے اس بارے میں تحقیق کے بعد یہ شرمناک فیصلہ دیا کہ عورت ایک نجس و ناپاک حیوان ہے ،شیطان کا جال اورپھندا ہے ، کینہ ور اونٹ اور دیوانے کتے کی طرح عورت کے منہ پر پٹی باندھ دینی چاہئیے تاکہ یہ نہ ہنس سکے اور نہ ہی کلام کر سکے ۔لوفی کہتا ہے کہ عورت ایک ناگزیر برائی ہے ایک بلائے ناگہانی ہے جس سے راہ فرار نہیں ایک کوندتی ہوئی بجلی ہے اور ایک مہلک اور لا علاج بیماری ہے ،لوبزل برول کا خیال ہے کہ عالم کے ہر دور میں اخلاق فاضلہ کی بنیادوں کو منہدم کرنے میں سب سے موثر سبب عورت کا وجود ہے۔شیکسپئیر کی یہ نصیحت ہے کہ بس لوگ اس سے دور رہیں ، بشری تاریخ کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ دنیا کے ہر حصے ، ہر طبقے اور ہر زمانے میں عورتوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک رواں رکھا گیا ،ان کے بنیادی انسانی حقوق غصب اورتلف کئے گئے اور ان پر مادی اور روحانی ترقی کے دروازے بند کر دئیے گئے، انہیں دنیا کی نظروں میں حقیر و ذلیل ثابت کرنے کیلئے ناقص العقل ، ضعیف الفطرت اور شیطان سیرت ٹہرایا گیا۔
لیکن جب مذہب اسلام آیاتو عورتوں کو اس کا صحیح مقام ملا ،قرآن کریم نے خواتین کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ، اسکا مقام و مرتبہ بیان کیا، اسے سر بلند کیا ، عالی مقام کہا اور اسکی قدر و منزلت میں اضافہ کیا ۔اسے ایک قابل احترام شخصیت قرار دیا گیا، اسکے حقوق متعین کئے گئے اور فرائیض و واجبات طے کئے گئے ۔شرعی احکام میں بھی عورت کو مرد کے مساوی قراردیاگیا ، جو مطالبہ مردوں سے کیا گیا وہی عورتوں سے کیا گیا ۔اسلام نے خاتون کو یہ مقام دیاکہ صفا اور مروہ کے درمیان بی بی ہاجرہ کی دوڑ کو تا قیامت عبادت کا حصہ بنایا ۔عورت کے بارے میں گزشتہ تہذیبوں کی خرافات پر اس وقت کاری ضرب لگی جب قرآن کریم نے فیصلہ سنایا کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے وہی زیادہ معزز ہے جو زیادہ متقی ہو یا یہ کہ تم میں سے ہر مرد اور ہر عورت کو ان کی نیکی کا بدلہ ملے گا بشرطیکہ وہ مومن ہو ، معاشرتی زندگی میں بھی اسلام نے عورتوں کو یکساں حقوق دیئے ،نکاج جیسے پاک رشتہ کا تصور دیا، انہیں حق خود ارادیت فراہم کیا ،اپنی زندگی کے معاملات میں انہیں تصرف کا حق دیا ، بیوہ و مطلقہ خواتین کے بارے میں کہاگیا کہ ان کی زبانی اجازت لئے بغیر ان کا نکاح نہ کیا جائے ،نہ ہی کسی کنواری لڑکی سے اجازت لئے بغیر اس کا نکاح پڑھایاجائے ،اسلام نے خواتین کو اقتصادی آزادی بھی عطا کی ،انہیں بھی مردوں کی طرح ہر جائز طریقہ سے کمائی کرنے کا اختیار سونپاگیا ، وہ اپنے مال و جائییداد میں اپنی مرضی سے جو چاہے تصرف کر سکتی ہیں ۔ اس پر کہیں بھی اور کوئی بھی جبرا وصی و گارجین نہیں بن سکتا ۔
مذاہب عالم کے مقابلہ میں صرف اسلام میں عورتوں کے حقوق بیان کئے گئے اور آج جس کسی مذہب میں عورتوں کے حقوق کی باتیں کی جارہی ہے تو وہ اسلام سے ماخوذ ہیں ،میرے علم کے مطابق بیشتر مذاہب کی بنیادی کتابوں میں نکاح کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ،طلاق اور خلع جیسے مسائل اسلام سے ماخوذ کئے گئے ہیں،نان ونفقہ جیسی چیزیں انہوں نے اسلامی تعلیمات سے لی ہیں ،جائیداد او روراثت کا خاکہ انہیں مسلمانوں سے ملا ہے اس کے باوجو د آج اسلام کے بارے میں یہ کہاجارہاہے کہ یہاں عورتوں پر ظلم کیا گیاہے ،خواتین کو مکمل حقوق نہیں دیئے گئے ہیں،انہیں سماجی ،تعلیمی ،اقتصادی آزادی حاصل نہیں ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت عورتوں کو زینہ بناکر شریعت میں مداخلت کرنے کے راستہ پر گامزن ہے ،وہ مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کا بہانہ تلاش کر رہی ہے،حقیقت میں انہیں عورتوں کے حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ،خواتین کے مسائل کی جانب ان کی کوئی توجہ نہیں ہے۔
حالیہ دنوں میں جس چیزکو بنیاد بناکر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیاجارہاہے وہ طلاق کا معاملہ ہے ،بحیثیت ایک خاتون مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہے کہ طلاق کسی بھی لڑکی کیلئے زندگی کا سب سے بڑا عیب ہوتاہے،پورے کیریئر پر سوالیہ نشان لگ جاتاہے،ایک بیوی کو شوہر گلا دباکر مارد ے تو اس سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی ہے جتنی طلاق پڑجانے سے ہوتی ہے لیکن ان سب کے باوجود طلاق معاشرتی اور سماجی زندگی کا لازمی حصہ ہے ،پرامن اور خوشحال زندگی گزارنے کیلئے طلاق کی تعبیر ایک نعمت سے بھی کی جاسکتی ہے ،جب بیوی ۔شوہرکے درمیان الفت نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے ،دونوں کا ایک ساتھ رہنامشکل ہوجاتاہے تو ایسے وقت میں شریعت نے طلاق کے ذریعہ دونوں کے درمیان علاحدگی کا راستہ بتایاہے ،طلاق کی ترتیب رکھی گئی ہے ،آخری حد تین طلاق ہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ موجود ہے ،ناجائز ،مبغو ض اور انتہائی غلط ہونے کے باوجود بھی تین طلاق کو تین ہی ماناگیاہے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسی حرکت کرنے والوں کو کوڑا بھی لگایا ہے لیکن تین کو تین طلاق ہی تسلیم کیا ہے۔
طلاق کا اختیار مردوں کو دیاگیا ہے لیکن عورتوں کو بھی حق خلع کے ذریعہ اپنی مرضی سے کسی مرد سے نجات حاصل کرنے کاحق حاصل ہے ۔وقوع طلاق کیلئے ہمارے معاشرہ میں یکطرفہ طور پر مردوں کو ذمہ دار ماناجاتاہے ،بہت سے لوگ عورتوں پر ظلم وزیادتی روارکھتے ہیں ،بیوی لب کشائی کرنے کی جرات کرتی ہے تو انہیں فورا طلاق کی دھمکی دیجاتی ہے اور ایک عورت طلاق کی اذیت سے بچنے کیلئے سب کچھ گوراکرلیتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بعض مرتبہ لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کا قصور ہوتاہے اور وقوع طلاق کیلئے لڑکیاں ذمہ داربنتی ہیں ۔
اسلام ایک دائمی اور ابدی مذہب ہے ،اس میں تبدیلی کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتاہے ،اسلام میں عورتوں کو جو حق دیئے گئے ہیں وہاں تک پہونچنے میں کسی اور مذہب کو ابھی بہت وقت لگے گا بلکہ کبھی بھی ان کے یہاں عورتوں کو یہ عظیم مقام نہیں مل پائے گا ،اکیسوی صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہندؤوں کے یہاں بغیر جہیز کے شادی نہیں ہوتی ہے ،کبھی جہیز نہ دینے کی پاداش میں ایک شوہر اپنی بیوی کو جلاکر خاکستر کردیتاہے ،لڑکیوں کو باپ کی جائیداد سے کوئی وراثت نہیں ملتی ہے ،ازدواجی زندگی میں اختلاف ہوجانے کے بعد جدائیگی کیلئے برسوں کورٹ کا چکر لگانا پڑتاہے جبکہ اسلام میں طلاق کے ذریعہ آسانی کے ساتھ جدائیگی ہوجاتی ہے اور از سرنو دونوں کو مردوعورت کو اپنی نئی ازدواجی آغاز کرنے کا حق مل جاتاہے ،جبکہ ہند ومذہب کے یہاں طلاق کیلئے سالوں کورٹ کا چکر لگاناپڑتاہے،ہندوخواتین شوہر سے چھٹکاڑا پانے کیلئے دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں اور انہیں انصاف نہیں مل پاتا ہے ،وزیر اعظم نریندر مودی کی اہلیہ جسودابین بھی انہیں مظلوم خواتین میں شامل ہے جنہیں گذشتہ 38 سالوں سے شوہر کی رفاقت نہیں مل سکی ہے اور اذیت ناک زندگی بسرکرنے پر مجبور ہے ،جولوگ مسلم خواتین کو حقوق دلانے کی باتیں کررہے ہیں ان سے میری درخواست ہیں کہ و ہ گجرات کی جسودابین کو انصاف دلادیں پورے ملک کی خواتین شکر گزارہوں گی ۔
ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے ، یہاں آئین میں تمام باشندوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے ،مسلمانوں کو بھی مکمل طور پر ملنی چاہئے ،مسلم پرسنل لاء عین اسلامی شریعت ہے جس میں کسی طرح کی تبدیلی کا امکان نہیں ہے ،ملک کی99.9فیصد خواتین مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ہے ،جن خواتین کو ٹی وی اسکرین پر لاکر بلوایا جارہاہے وہ نہ صرف اسلام بیزارہیں بلکہ اسلام دشمن عناصر کے اشارے پر وہ یہ سب کررہی ہیں،ان کی زندگی میں اسلام کا دور دورتک کوئی شائبہ نہیں ہے ،یہ خواتین ہمارے لئے کبھی آئیڈیل نہیں ہوسکتی ہیں،ہم ہرحال میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ہیں اور رہیں گے ، اسلامی شریعت میں کسی طرح کی کوئی بھی تبدیلی برداشت نہیں کریں گے۔(ملت ٹائمز)
(مصنفہ بہار اسکول میں ٹیچر اور ملت ٹائمز کی فیچر رائٹر ہیں،موجودہ حالات کے پس منظر میں ملت ٹائمز کی خصوصی درخواست پر انہوں نے یہ مضمون سپردقرطاس کیا ہے،قارئین مندرجہ ذیل ای میل آئی ڈی پر براہ راست ان سے رابطہ کرسکتے ہیں )
nuzhatjahanm@gmail.com