بہار اسمبلی انتخابات: این ڈی اے کا مقابلہ کرنے کیلئے سیکولر اتحاد میں مجلس کی شمولیت ضروری !

خبر در خبر (638)
شمس تبریز قاسمی
بہار کے عوام دوہری مصیبت سے دوچار ہیں ۔ ایک طرف کرونا وائرس کا کیس وہاں مسلسل بڑھتا جارہا ہے ۔ دوسری طرف سیلاب سے عوام پریشان ہے ۔ ان دو پریشانیوں کے علاوہ کمیونل اور ہنسا کے واقعات بھی بہت تیزی سے بہار میں بڑھ گئے ہیں ۔ عوام کا اندازہ تھا کہ کرونا کی وجہ سے بہار الیکشن کو ٹال دیا جائے گا ۔ اپوزیشن پارٹیوں کی بھی یہی خواہش تھی کہ وقت پر الیکشن نہ ہو ۔ اسے آگے بڑھا دیا جائے لیکن اب ممکن نہیں لگ رہاہے ۔ الیکشن کمیشن نے اشارہ دے دیا ہے کہ چناؤ اپنے وقت پر ہوگا ۔ ستا دھاری پارٹی اور نتیش کمار کے رویے سے بھی یہی پتہ چل رہاہے کہ سب کچھ ٹالا جاسکتا ہے لیکن الیکشن کو نہیں ۔ چناؤ ہر حال میں اپنے وقت پر ہی ہوگا۔ بہار کا الیکشن کیسا ہوگا۔ اپوزیشن کئی خیموں میں بٹے گا ۔ کیا بی جے پی نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کے ساتھ ہی انتخاب لڑے گی یا الگ الیکشن لڑکر نتیش کمار کو سی ایم کی کرسی سے دورکرنا چاہے گی ۔
بہار اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں صرف تین ماہ کا وقت رہ گیا ہے ۔ 29 نومبر 2020 کو موجودہ اسمبلی کی مدت پوری ہوجائے گی۔ اب صرف دو صورت ہے ۔ یا تو بہار میں صدر راج نافذ کردیا جائے یا پھر نتیش کمار کی مدت میں صدر جمہوریہ اسپیشل آڈر کے ذریعہ اضافہ کردیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہاں انتخابات کرائے جائیں ۔ اپوزیشن پارٹیاں یہ چاہ رہی ہیں کہ وقت پر الیکشن نہ کرایا جائے ۔ عوام میں بھی اکثریت کا موڈ یہی ہے کہ الیکشن کو ٹال دیا جائے لیکن بہار سرکار الیکشن کرانے کے موڈ میں ہے ۔ ابھی تک معاملہ کنفیوزن کا شکار تھا کا الیکشن ہوگا یا نہیں ہوگا ۔ لیکن اب تقریباً 90 فیصد یہ واضح ہوگیا ہے کہ بہار چناؤ اپنے ٹائم پر ہوگا ۔ پچھلے دنوں الیکشن کمیشن آف انڈیا نے گائیڈ لائن سے متعلق کچھ چیزیں جاری کردی ہے کہ کرونا کال میں بہار چناؤ کیسے ہوگا ۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کا بھی بیان آچکا ہے کہ ستمبر میں بہار چناؤ کا اعلان ہوگا ۔ چناؤ کی تیاری جاری ہے ۔ افسران اور الیکشن کے دوران کام کرنے والے سبھی حکام کی ٹریننگ جاری ہے ۔
اگر کرونا کال میں ہی الیکشن ہوتا ہے تو اپوزیشن کو بہت بھاڑی پڑے گا ۔ لیکن اس سے بھی بڑی سیاست بہار میں یہ ہورہی ہے کہ بی جے پی نتیش کمار اور ان کی پارٹی کے دبدبہ کو کم کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کا منصوبہ ہے کہ بہار میں نتیش کمار کا دبدبہ کم ہو اور بی جے پی کا بڑھے ۔ این ڈی اے میں جے ڈی یو کی جگہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے لیکن یہ بی جے پی کیلئے آسان نہیں ہے ۔ لوک سبھا چناؤ کی وجہ سے بی جے پی کا خیال تھا کہ بہار میں بی جے پی کے ووٹر بڑھ گئے ہیں ۔ دوسری طرف کشمیر سے آر ٹیکل 370 کے خاتمہ ۔ بابری مسجد ۔ رام مندر کا فیصلہ ۔ اجودھیا میں رام مندر کا نرمان جیسے فیصلوں اور کاموں سے عوام ہندتوا کے ایجنڈا کو فلو کرے گی اور ذاتی سمی کرن سے اوپر اٹھ کر بی جے پی کو ووٹ کرے گی ۔ کافی دنوں تک بی جے پی کا یہی خیال تھا ۔ بی جے پی نے ایک طرح سے موڈ بھی بنالیا تھا کہ الیکشن میں جے ڈی یو کو کمزور کرنا ہے ۔ عین وقت پر جے ڈی یو کا ساتھ چھوڑ کر صرف لوک جن شکتی پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا ہے ۔ دوسری طرف آر جے ڈی اور تیجسوی یادو پر یہ دباؤ رہے گا کہ وہ نتیش کمار کو اپنے ساتھ ملا ئے ۔ ایسی صورت میں یقینی طور بہار میں سہ رخی لڑائی ہوجائے گی اور جب بھی لڑائی سہ رخی ہوتی ہے تو بی جے پی کا سب سے فائدہ ہوتا ہے ۔ بی جے پی کا یہی موڈ تھا ۔ اسی سیاست کی بنیاد پر چراغ پاسوان نے مسلسل اپنی اتحاد ی پارٹی جے ڈی یو کے خلاف بولنا بھی شروع کردیا تھا ۔ چراغ پاسوان اپنے ہی ساتھی کے خلاف یہ سب کس کے اشارے پر بول رہے تھے یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے ۔لیکن اب ایسا لگ رہاہے کہ بی جے پی کے پاس نتیش کمار کے ساتھ الیکشن لڑنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے ۔ بی جے پی کو اپنے اندورنی سروے سے یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ جے ڈی یو کو چھوڑ کر تنہا لڑنا بہت مشکل ہوگا۔ رام مندر اور کشمیر مدعا بھی یہاں کا م نہیں دے گا ۔ 2015 کا تجربہ بھی بی جے پی کے پاس ہے ۔ 2015 کے اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو ۔ لالو پرساد کی پارٹی جے ڈی یو اور کانگریس ایک ساتھ ۔ بی جے پی اور ایل جے پی دیگر اتحادیوں کے ساتھ الیکشن لڑی تھی ۔ بی جے پی اور پارٹی صدر امت شاہ نے بہار جیتنے کیلئے وکاس کی بات کرنے کے بجائے ہندو مسلم کے مدے کو خوب اٹھا ۔ ہندتوا اور راشٹر واد کے ایجنڈے کو بنیاد بنایا ۔ یہاں تک کہاکہ اگر بہار میں بی جے پی ہار گئی تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے لیکن یہ سب کام نہیں آیا اور بی جے پی کی بدترین شکست ہوئی ۔ آر جے ڈی اور جے ڈی یو کی سرکار بنی ۔2017 میں نتیش کمار نے بی جے پی سے دوبارہ ہاتھ ملالیا۔ کانگریس اور آر جے ڈی اپوزیشن میں آگئی اور وہاں مہا گٹھبندن کی جگہ این ڈی اے کی سرکار بن گئی ۔ اسمبلی میں اس وقت جے ڈی یو کے 73 ۔ بی جے پی کے 56 ایل جے پی کے 2 اور چار آزاد امیدوار نتیش کمار کے ساتھ ہیں ۔
ایک دوسرا مسئلہ بی جے پی کے ساتھ یہ ہے کہ بی جے پی کے سب سے سینئر لیڈر سشیل کمار مودی نتیش کمار کے پکے دوست ہیں ۔ ان کے چہیتے ہیں ۔ نتیش کمار کے بغیر ان کا دل نہیں لگتا ہے ۔ دوسری طرف نتیش کمار بھی بی جے پی لیڈروں میں صرف سشیل کمار مودی کو چاہتے ہیں ۔ نتیش کمار کی یہی خواہش ہے کہ بی جے پی کے ساتھ الیکشن لڑیں اور اسی طرح اگلی سرکار میں بھی میرے ساتھ سشیل کمار مودی ڈپٹی چیف منسٹر بنیں ۔ سشیل کمار مودی سے بہار کے اکثر بی جے پی نیتا خوش نہیں ہے ۔ سیشل کمار مودی کی صاف ستھری شبیہ ۔ متنازع بیان نہ دینا ۔ہیٹ اسپیچ سے گریز کرنا اور سیکولر شبیہ بناکر رکھنا بھی بی جے پی کے نتیاؤں کو گورا نہیں ہے ، لیکن وہ کھل کر نہیں بول سکتے ہیں کیوں کہ انہیں اندازہ ہے کہ اگرسشیل کمار سے بغاوت کی ۔ ان کے خلاف زبان کھولی تو کہیں مجھے ہی پارٹی سے نکال نہ دیا جائے ۔
بہار الیکشن کیلئے اپوزیشن تیار نہیں ہے ۔ اپوزیشن میں کتنی پارٹی ہوگی ۔ کون پارٹی ہوگی اس پر بھی ابھی تک کوئی چرچا نہیں ہوا ۔ کانگریس اور آر جے ڈی میں بھی ابھی تک کوئی وچار نہیں ہوسکا ہے ۔ آر جے ڈی کی پوزیشن بہار میں ابھی ٹھیک ٹھاک نہیں ہے ۔ آر جے ڈی کا یادو ووٹ بی جے پی میں جاچکا ہے ۔ دوسری طرف مسلمان بھی آر جے ڈی سے ناراض ہوچکے ہیں اور وہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں ۔ بہار میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی جڑیں بہت مضبوط ہوچکی ہے اور تقریباً ہر ضلع میں مجلس پہونچ گئی ہے ۔ سابق وزیر اعلی اور ہندوستانی عوام مورچہ کے صدر جتین رام مانجھی نے بھی مجلس کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے ۔ پپو یادو ایس ڈی پی آئی کے ساتھ ملکر ایک الگ اتحاد بنارہے ہیں۔
اس لئے آنے والے الیکشن میں اپوزیشن بہت زیادہ تقسیم ہوگا ۔ آر جے ڈی اور کانگریس کے بعد مجلس بھی زبردست مقابلے کرے گی ۔ اپوزیشن کا ووٹ یقینی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگا ۔ایک طرف آر جے ڈی اتحاد کو جائے گا دوسری طرف مجلس اتحاد کو اور این ڈی اے کیلئے راستہ صاف ہوگا۔ اپوزیشن اسی وقت کچھ مضبوط ہوگی بہار میں جب آرجے ڈی اور کانگریس مجلس کو ساتھ شامل کریں گے ۔ اگر مجلس الگ الیکشن لڑتی ہے تو یقینی طور پر آر جے ڈی کا سب سے زیادہ نقصان ہوگا ، ووٹ بینک ادھر ٹرانسفر ہوگا ۔ مجلس کتنی سیٹوں پر جیتے گی یہ کہنا مشکل ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ آر جے ڈی اپنی ضد کی وجہ سے ہارے گی ۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہار کے صدر اختر الایمان بی جے پی اور جے ڈی یو کا مقابلہ کرنے کیلئے آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد کرنے کے خواہشمند ہیں ۔ وہ اپنی طرف سے ہری جھنڈی بھی دکھا چکے ہیں ، پر تیجسوی یادو خاموش ہیں ۔ اگر آر جے ڈی اور کانگریس کے الائنس میں مجلس کو شامل نہیں کیا جاتا ہے تو بہار میں اپوزیشن کا بری طرح صفایا ہوگا۔ کیوں کہ مجلس بہت مضبوط ہوچکی ہے ۔ ضلع ، بلاک اور پنچایت کی سطح پر پارٹی پہونچ چکی ہے اور اس شکست کیلئے یقینی طور پر تیجسوی یادو کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا ۔
سیاست میں کوئی مستقل دوست اور کوئی مستقل دشمن نہیں ہوتا ہے ۔ نتیش کمار کل تیجسوی یادو کے ساتھ تھے، آج مودی کے ساتھ ہیں ۔ مانجھی کل نتیش کے ساتھ تھے اور آج اختر الایمان اور اسدالدین اویسی کے ساتھ ہیں ۔ این ڈی اے کے خلاف مضبوط لڑائی اسی وقت ممکن ہے جب سبھی اپوزیشن پارٹیاں ایک ساتھ لڑے ۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیئے کہ اس مرتبہ بہار میں مسلمانوں اور دلتوں نے مجلس اور مانجھی کے اتحاد کو بھرپورسپورٹ کرنے کا مائنڈ بنا رکھا ہے ۔ آر جے ڈی ۔ جے ڈی یو۔ بی جے پی اور کانگریس سے وہ بہت مایوس ہوچکے ہیں ۔
stqasmi@gmail.com
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں )