شریعت میں مداخلت کی کوشش اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جدوجہد

محمد اظہار الحق ویشالوی قاسمی
ہندوستان دنیا کا واحدملک ہے جو صدیوں سے متنوع تہذیب وثقافت کا سنگم رہاہے ،مختلف مذہب کے پیروکاروں نے اس دھرتی کو اپنا وطن تسلیم کیاہے ،الگ الگ علاقہ اور خطہ کی ثقافت کا یہاں بول بالارہاہے ،ہر قوم ،مذہب اور خطہ کی اپنی علاحدہ علاحدہ زبان رہی ہے ،مختلف اوقات میں مختلف مذہب کے ماننے والوں نے یہاں حکومت کی ہے ،کبھی کسی حکومت نے ایک مذہب کو تسلیم کرنے ،ایک عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے ،مختلف عقائد ونظریات کو ختم کرکے متحدہ نظریات پر چلنے کی تلقین نہیں کی ہے ،یہی اس ملک کی خوبصورتی ہے، ،اسی وجہ سے دنیا بھر میں ہندوستان کو عظمت ،وقار اور عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے کہ یہاں مختلف مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں ،دنیا کے تقریباتمام مذاہب کے پیروکار یہا ں موجود ہیں ،بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں ،ہرقوم اپنی جداتہذیب وثقافت کے ساتھ یہاں رہتی ہے ،ہرخطہ اپنی علاحدہ زبان کے ساتھ اس ملک کا باشندہ کہلاتاہے ،انہیں وجوہات کی بناپر جب اس ملک کو انگریزوں سے آزادی ملی تو آئین بناتے وقت مذہبی آزادی کے تشخص کو برقراررکھنے کیلئے مستقل طور پر ایک دفعہ شامل کی گئی اور یہ وضاحت کردی گئی کہ ہندوستان میں مکمل مذہبی آزادی ہوگی ،تمام مذہب والوں کو اپنے پرسنل لاء کے مطابق زندگی گزارنے کااختیار ہوگا حکومت اس میں کسی طرح کی کوئی مداخلت نہیں کرے گی ۔
لیکن آئین میں مکمل صراحت کے باوجود باربار مذہبی آزادی سے چھیڑ چھاڑ کیا جاتاہے،ملک کی عدالتیں مسلم پرسنل لاء کے خلا ف فیصلہ سناتی ہیں،حکومت کی طرف سے مختلف پر سنل لاء کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی باتیں کی جاتی ہیں،حالیہ دنوں میں یہ تنازع ایک مرتبہ پھر جاری ہے ، وزارت قانون اور لاء کمیشن کی طرف کامن سول کوڈ کو موضوع بحث بنادیاگیاہے ،بی جے پی کے انتخابی ایجنڈا میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ شامل ہے اور اسی جانب قدم بڑھانے کیلئے اس نے سب سے پہلے طلاقہ ثلاثہ کا شوشہ چھوڑاہے ،ایک ایسی خاتون جسے اپنے علاقہ کے پولس اسٹیشن کی خبر نہیں تھی ا س کا مقدمہ سپریم کورٹ میں دائر کرایا گیا اور میڈیا کے ذریعہ یہ پیروپیگنڈا کرایا جارہاہے کہ ہندوستان میں مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے ،اسلام میں مسلم خواتین کو مکمل حقوق نہیں دیئے گئے ہیں،تین طلاق کا معاملہ ختم ہونا چاہئے ،ٹی وی چینلوں پر چند اسلام بیزار خواتین کو لاکر مسلسل یہ کہلوایا جارہے کہ تین طلاق کی وجہ سے مسلم عورتیں بے پناہ پریشانیوں کا سامناکررہی ہیں ، اس لئے تین طلاق ختم ہونی چاہئے ،کچھ نام نہاد مسلم دانشوران بھی اس طرح کی باتیں کررہے ہیں کہ تین طلاق کی روایت دقیانوسی اور فرسودہ خیالات پر مبنی ہے ،بدلتے زمانے کے ساتھ مذہب میں بھی تبدیلی ہونی چاہیئے ۔انہیں یہ نہیں معلوم قرآن کریم میں تین طلاق کا تذکرہ صراحت کے ساتھ موجود ہے اور ا س کتاب الہی کے الفاظ ،معانی ومطالب تو دور ان کے حرکات وسکنات میں بھی قیامت کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی ہے ،کامیاب اور خوشحال معاشرتی زندگی کیلئے طلاق ایک رحمت ہے،جس کا اختیار مردوعورت دونوں کو حاصل ہے ،مردطلاق دے سکتاہے تو عورت خلع کے ذریعہ شوہر سے علاحدگی اختیار کرسکتی ہے۔
تاریخ شواہد موجود ہیں کہ صرف اسلام نے عورتوں کے حقوق کی باتیں کی ہے ،انہیں پستی آسمان کی بلندی پر پہونچایاہے ،سماج میں عورتوں کو مساوات کا درجہ دیا ہے ،مردوعورت کے درمیان کسی طرح کی کوئی تفریق نہیں برتی گئی ہے، عورتوں کی تمام تر ذمہ داریاں بھی مردوں پر عائد کی گئی ہے ،ایک ایک جز کی نشاندہی کی گئی ہے اور خواتین کے حقوق کی مکمل تفصیلات بیان کی گئی ہے ،جبکہ دوسرے مذاہب میں عورتوں کو یہ حق نہیں دیا گیا ہے وہاں نہ شادی کا تصور ہے اور نہ طلاق ،عورتوں کا استعمال صرف اورصرف جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے کیا جاتاہے ،جب جنسی ہوس پوری ہوجاتی ہے اسے چھوڑدیاجاتاہے ۔
ہندوستان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈمسلمانوں کا نمائندہ ادارہ ہے، امارات شرعیہ نے ہندوستانی مسلمانوں کو سرکاری عدالتوں سے بچتے ہوئے دائرہ شریعت میں رہ کر زندگی گزارنے کا جو تصور دیاتھا اس کی قانونی جنگ لڑنے کیلئے 1973 میں یہ ادارہ قائم کیا گیا اور اس کے بعد مسلسل اپنے مقصد کی تکمیل کی طرف گامزن ہے ،مسلمانان ہند کے حقوق کی جنگ پوری توانائی کے ساتھ لڑرہاہے لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ یہ ادارہ ملک کی تمام عوام تک اپنا تعارف کرانے میں ناکام ہے ،آج بھی مسلمانوں کی اکثریت آل انڈیامسلم پڑسنل لاء بورڈ سے ناواقف ہے ،انہیں مسلمانوں کے اس نمائندہ ادارہ کے بارے میں پتہ نہیں ہے ،نکاح طلاق جیسے معاملات کے عدالتوں میں جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سارے علاقوں میں دارالقضاء نہیں ہے ۔آل انڈیا مسلم پر سنل بور ڈ مسلمانوں کا واحد نمائندہ پلیٹ فارم ہے ،ہر مسلم گھر تک اس کا تعارف وقت کی اہم ضرورت ہے ،یہ بھی ضروری ہے کہ تمام ڈویژن میں دارالقضاء کا قیام کیا جائے ،اس علاقے میں مختلف اجلاس کر کے درالقضاء کی اہمیت بتائی جائے ،عوام کوبیدار کیا جائے وہ شرعی اور عائلی مسائل کو لیکر سرکاری عدالتوں میں جانے کے بجائے شرعی دارالقضاء میں جائیں،تمام مساجد کے ائمہ کو مربوط کیا جائے ،ان کے نام موقع بہ موقع ہدایا ت جاری کی جائیں ،مسلم معاشرہ میں در آئی خرابیوں کے تعلق سے بیانات کرائے جائیں ،مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اہمیت اور اغراض ومقاصد سے انہیں واقف کرایاجائے اور اس بات پر خاص زور دیا جائے کہ کوئی بھی مسلمان اپنا معاملہ لیکر سرکاری عدالتوں میں نہ جائیں وہ دارالقضاء سے رجوع کریں۔
آل انڈیا مسلم پر سنل لاء بورڈہندوستانی مسلمانوں کانمائندہ پلیٹ فارم ہے ،اس وقت طلاق ثلاثہ اور یکساں سول کوڈ کے معاملہ پر مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی قانونی جنگ سپریم کورٹ میں لڑرہاہے،حکومت اور بورڈ دونوں ایک دوسرے کے حلیف ہے ،زیروفیصد خواتین کے مطالبہ کی بناپر بہت ہی زوروشور کے ساتھ یہ کہاجارہاہے کہ طلاق ثلاثہ کو ختم کردینا چاہئے جبکہ 99 فیصد سے زائد خواتین مسلم پرسنل لاء کے ساتھ ہے اور بورڈ کی دستخطی مہم کا وہ ساتھ دے رہی ہیں،بورڈ نے تمام اہم ملی تنظیموں کو ساتھ لیکر ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرکے حکومت کو بروقت اور مضبوط جواب دیاہے اور ایسالگ رہاہے کہ مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد حکومت اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے لگی ہے اور بورڈ یہ محاذ سر کرنے میں تقریبا کامیا ب ہوچکاہے ۔
مفکر اسلام مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب کی کوشش قابل تعریف ہے ،تمام قابل ذکر ملی جماعت اور مکاتب فکر کے متحدکرکے انہوں نے تاریخی کا م کیا ہے ،سبھوں کو ساتھ لیکر جس انداز سے وہ حکومت کا مقابلہ کررہے ہیں اور تحفظ شریعت کی تحریک چلارہے ہیں اس سے یہ یقینی ہے کہ حکومت اپنے ناپاک ایجنڈے کو نافذکرنے میں کامیاب نہیں ہوپائے گی اور مسلم اتحاد کے سامنے اسے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام ہونے والی جوائنٹ پریس کانفرنس کے بعد ایوان حکومت میں زلزلہ طاری ہے اور انہیں بخوبی یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ مسلم پرسنل لا ء میں ہاتھ لگانا اتنا آسان نہیں ہے ،وینکیا نائیڈو،روی شنکر پرشاد،دتاتریہ سمیت مختلف وزراء کے بیان سے مکمل طو رپر یہ واضح ہورہاہے کہ ارباب اقتدار نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔(ملت ٹائمز)