پیوستہ رہ شجر سے ، امیدِ بہار رکھ

تسنیم کوثر سعید

سیمانچل کے مسلمانوں کے جرات مندانہ فیصلے نے اس خوف کو لات مار دی ھے جسکو بار بار دہرایا جاتا رہا ہے کہ فلاں کو ووٹ نہیں دیا تو چلاں آ جائے گا ۔

مجلس کی سیاسی کامیابی نے کچھ دوسری مسلم جماعتوں میں بھی کھلبلی مچا دی ھے کہ ” اس کی قمیض میری قمیض سے سفید کیسے “

کچھ دان شور ( دانشور) پھر وہی راگ الاپ رہے ہیں کہ مٹھی بھر مسلمان سیاست کے میدان میں گھٹنے بھر غیر مسلموں کا کیا ہی مقابلہ کریں گے ، سیمانچل کے مسلمانوں کو اب نفسیاتی طور پر مغلوب کرنے کی مہم چھیڑ دی گئی ہے اور یہ کام مسلمانوں کی ہی دوسری جماعتوں نے کرنا شروع کر دیا ہے۔

 یہ مشورہ تقسیم کے بعد سے ہی مسلمانوں کی دینی جماعتیں اور عالموں کی طرف سے آتا رہا ھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو سیاست ترک کر دینا چاہئے ، تب حالات موافق نہیں تھے تو کبھی نہ ہوں ؟

یہاں کی جماعت نے خود کو پاکستان اور بنگلہ دیش کی جماعت سے الگ دکھانے کے لئے ووٹ تک کے استعمال سے احتراز برتا۔

لیکن ہمارا دین تو سیاست کو الگ سے کوئی سسٹم نہیں مانتا ۔ نظام اسلام ہی دراصل آئڈیل اسٹیٹ سسٹم ہے، اس کی زندہ مثالیں دنیا پر حکومت کرنے والے مسلمانوں نے پیش کی ہیں جو اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ کہنا کہ مسلمانوں کو سیاست ترک کر کے تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا چاہئے صحیح نہیں۔

جہاں تک تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کی بات ہے تو یہ سلسلہ کبھی رکا نہیں تھما نہیں اس کو کمزور پھر اسی دین کے علمبرداروں نے مدرسہ سسٹم کو کرپشن کا اڈہ بنا کر کیا۔ ان پر لگام کسنے کی ضرورت ہے ۔

تعلیمی مدارج پہ مرحلہ وار تحریک چلانے کی ضرورت ہے ۔

نئے سرے سے مسجد سے متصل مکتب کے لازمی قیام اور اس کے بنا روک ٹوک کے تسلسل سے چلنے کا انتظام کرنے کی ضرورت ھے۔جو بچے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں لائق ہیں لیکن مالی طور پہ کمزور ہیں ان کی مالی اعانت کی ضرورت ہے۔

جمہوریت میں خود کو اکثریت کا خوف دکھا کر سیاست سے کنارہ کشی کا مشورہ دینا قوم و ملت کے لئے خودکشی کے مترادف ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں