پس آئینہ:شمس تبریز قاسمی
خواتین کی آزادی ،اقتدار میں حصہ داری اور انہیں مساوی حقوق دینے کی بات سب سے زیادہ امریکہ کرتاہے؛ لیکن یہ بھی تاریخی سچائی ہے کہ امریکہ کی پوری تاریخ میں آج تک کوئی خاتون وہاں نہ صرف منصب صدارت پر فائزہوسکی ہے بلکہ کسی معروف پارٹی سے کسی بھی خاتون کو امیدوار بھی نہیں بنایاگیاتھا ،2016 میں پہلی مرتبہ کسی خاتون کو صدارتی انتخاب میں امیدوار بنایاگیااور یہ ہنگامہ کیاگیا کہ اس مرتبہ امریکہ ایک نئی تاریخ رقم کرے گا ،پہلی مرتبہ وہاں کوئی خاتون صدر بنے گی ،امریکی اور عالمی میڈیا،تمام سروے رپوٹ،ایگزٹ پول اور دیگر ہر ایک جائزے میں یہی دیکھایاجاتارہا کہ 2016 کا صدارتی انتخابات ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوارہیلری کلنٹن جیتے گی اور ان کے حریف ریپبلیکن پارٹی سے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کو شکست فاش کا سامناکرناپڑے گا ،لیکن 9 نومبر کے نتائج نے سب کو حیران کردیا،دنیا کے ترقی یافتہ ملک کا سروے اور ایگزٹ پول ناکام ثابت ہوا اور خلاف امید ڈونالڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو شرمناک شکست دوچارکرتے ہوئے 45 ویں صدر کی حیثیت سے اوبامہ کی جانشینی کا حق حاصل کرلیا۔
یہ امریکہ کا 58 صدارتی انتخاب تھا،اس انتخاب میں دنیا بھر میں موجود معتد ل مزاج اورمثبت ذہنیت کے حامل افراد کی حمایت ہیلری کلنٹن کو حاصل تھی ،عرب ممالک ،مشروق وسطی اور دنیابھر میں موجود مسلمانوں کی خواہش بھی یہی تھی کہ امریکہ کا یہ صدارتی انتخاب ہیلڑی کلنٹن جیتے ،دوسری طرف پوری دنیا کے تشدد پرست ،امن وآشتی کے دشمن اور انتہاء پسند ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کے متمنی تھے ،ہندوستان کے شدت پسند ہندوبھی ڈونالڈ کی کامیابی کیلئے اپنی بساط کے مطابق جدوجہد کررہے تھے ،یہی وجہ ہے کہ جب ڈونالڈٹرمپ کی کامیابی کا اعلان ہواہے تو واشنگٹن سے پہلے نئی دہلی میں پٹاخاپھوڑکر ان کی جیت کا جشن منایاگیا’’دہلی میں ایک ریڑھی والے کو میں نے آپس میں یہ گفتگو کرتے ہوئے سناکہ پاکستان کو خبر ملی کے نہیں ،اب پتاچلے گا اس کو ‘‘اس انتخاب میں مسلمان اور مسلم مخالفین کے نظریہ کی تعبیر آج سے چودہ سوسال قبل قیصروکسری کے درمیان ہونے والی جنگوں کے ساتھ بھی کی جاسکتی ہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ہے،رومی اہل کتاب تھے اس لئے مسلمانوں کو ان سے لگاؤتھا اور وہ ان کی جیت کے متمنی ہووتے تھے ،ایرانیوں کا مذہب کفار مکہ کی طرح تھا اس لئے وہ کسری کی فتح کی خواہشمند ہوتے تھے۔
70 سالہ ہیلڑی کلنٹن کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ خاتون اول کی حیثیت سے امریکی اقتدارمیں حصہ دار بننے والی پہلی خاتون ہیں ،1968 سے سیاست میں سرگرم ہیں،مختلف عہدوں پر فائز رہ چکی ہیں،2009سے 2013 تک اوبامہ کے دورصدارت میں 67 ویں ریاستی سکریٹری برائے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حیثیت سے انہیں سب سے زیادہ شہرت ملی ہے ،اس کے علاوہ 2001 سے 2009 تک وہ نیویارک سے سنیٹر بھی رہ چکی ہیں،سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے بھی انہیں غیر معمولی شہرت ملتی رہی ،2016 کے صدراتی انتخابات میں انہیں اقتدارتک پہونچانے کیلئے ہرممکن کوشش کی گئی ،45 فیصد ووٹ بھی ان کے کھاتے میں آگئے اس کے باوجود کامیابی مقدر نہیں ہوسکے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے پہلی مرتبہ سیاست میں قدم رکھا ،اس سے قبل ان کی شناخت ایک تاجر اور بزنس مین کی تھی،ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں وہ 324 ویں نمبر پر سب سے زیادہ مالدار مانے جاتے ہیں جبکہ امریکہ میں وہ 113 ویں نمبر پر سب سے بڑے مالدار ہیں ،2015 میں انہوں نے صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا اور جولائی 2016 میں ریپبلیکن پارٹی نے انہیں ٹکٹ دیکر میدان میں اتاردیا،ڈونالڈٹرمپ نے سیاسی میدان میں قدم رکھتے ہی ہندوستان کی بی جے پی والی پالیسی اپنائی ،مثبت بیانات کے بجائے تنقیدی بیانات داغنا شروع کردیا ،تعمیر ی گفتگوسے زیادہ تخربیبی گفتگو کی ،مسلمانوں اور عربوں کے خلاف انتہاء پسندانہ رویہ اپنایا،امریکہ میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی عائد کرنے کی بات کی ،یروشلم کواسرائیل کو دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے ،اوباماکا ہیلتھ پلان منسوخ کرنے ،ہیلری کلنٹن کو جیل رسید کرنے ،میکسیکو کی سرحد پر دیوارکھڑی کرنے ،غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بد رکرنے جیسے امور کو انہوں نے اپنی انتخابی تقریر کا ایجنڈا بنایا،اس دوران انہوں نے امریکیوں سے کئی پرکشش وعدے بھی کئے ۔ڈونالڈٹرمپ کی اس انتخابی مہم نے انہیں بہت جلد شہرت سے ہمکنا رکردیا ،کلنٹن سے زیادہ میڈیا کوریج ڈونالڈٹرمپ کوملا، ایک نیا چہرہ موضوع گفتگو بن گیا، ایک بڑی تعداد ان کی حمایت میں آگئی،ٹرمپ کے ظلم کی شکار کئی خواتین نے بھی ٹرمپ کا صدربنانے کیلئے جدوجہد کی اور یوں برسوں تک سیاست میں سرگرم کرداکرنے والی خاتون پر امریکیوں نے ٹرمپ کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں اپنا صدر منتخب کرکے وہاٹس ہاؤس بھیج دیا ۔دوسری جانب ان کی اس مہم سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں ان کے تئیں نفرت بھر گئی ،ان کی تقریر پر بیحد خراب تنقید کی گئی ،انہیں سور،کتا تک کہ دیاگیا ،ان کے اخلاقی کیریکٹر پر بھی سوالیہ نشان لگایاگیا،ایک آسٹریلوی خاتون اینکر نے الیکشن کے دن ٹرمپ کے اخلاقی امور پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ ایسی فحش باتیں کہ دی جسے سن کر ہر کوئی شرمندہ ہوگیا ،ہرچند کہ خاتون اینکر کی یہ باتیں ٹی وی پر غلطی سے نشر ہوئی تھی کیوں کہ تبصرہ کرتے وقت ان کا خیال تھاکہ مائک بند ہے۔
ٹرمپ کی جیت کے بعد ان کے خلاف امریکہ میں مظاہر ہ کیا گیا ہے،انہیں صدر ماننے سے انکا ر کیا گیا ہے ،کچھ امریکیوں نے ٹرمپ کی جیت کو امریکی تاریخ کا سیاہ دن بھی قراردیاہے ،مسلم اسکالرس اور رائٹرس بھی ڈونالڈٹرمپ کو امت مسلمہ کیلئے ایک عظیم خطرہ قراردے رہے ہیں،انہیں مسلمانوں کیلئے اب تک کا سب سے بڑا خونخوار دشمن کہ رہے ہیں،عجیب وغریب مفروضے بیان کرہے ہیں اور ہیلری کلنٹن کی شکست پر افسوس کا اظہا ر کررہے ہیں،اس پورے معاملے کا جائزہ لینے کے بعد مجھے ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی جس کی بنیاد پر ٹرمپ کی جیت اور ہیلری کلنٹن کی شکست پر افسوس کا اظہا ر کیا جائے کیوں کہ امریکی پالیسی شروع سے اسلام اور مسلمان مخالف رہی ہے ،گذشتہ سولہ سالوں میں صدرات کے فرائض انجام دینے والے جارج ڈبلیوبش اور باراک اومامہ کی پالیسی کا جائزہ لینے سے یہی معلوم ہوتاہے کہ وہاں اقتدار کی تبدیلی ہوتی ہے عزائم اور منصوبوں میں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے ،مسلم دنیا کو بش سے زیادہ باراک اوبامہ سے نقصان پہونچاہے ،اگر ہیلری کلنٹن صدر بنتی تو صرف چہرے کی تبدیلی ہوتی پالیسی وہی برقرار رہتی ،ایسے بھی ہیلری کی خارجہ پالیسی عرب اور مشرق وسطی کے حق میں مفید ثابت ہونے کے بجائے نقصان کا سبب بنی ہے ،یمن میں بغاوت کرنے والے حوثی ملیشیاؤں کے تئیں ہیلری کا پالیسی بہت ہی نرم تھی یہی وہی حوثی ہیں جنہوں نے دوہ ہفتہ قبل کعبتہ اللہ شریف پر میزائل داغاتھا ،شام کو تباہ وبرباد کرنے میں بھی ہیلری کی پالیسی کا بڑا دخل ہے کیوں کہ وہاں مداخلت سے انکا ر کیا گیا ، ایک عربی صحافی نے اس صورت حال کا تجزیہ یوں کیا ہے ’’ اوباما انتظامیہ ،جس کا ہمیں خطے میں بدترین تجربہ ہوا ہے،ہلیری کی جیت کی صورت میں وہی رہتی اور محض چہروں کا ردو بدل ہوتا،اس انتظامیہ کو دوبارہ برسراقتدار دیکھنا خوشی کا ایک لمحہ ہوتا‘‘۔گویا ہیلری کی پالیسی اسلام اور مسلم مخالف ہی ہوتی ،ٹرمپ مسلم مخالف ایجنڈے پر عمل کرنے کا اعلان بہت پہلے ہی کرچکے ہیںیہ الگ بات ہے کہ ٹرمپ نے انتخاب کے دوران مسلم مخالف بیان اپنی ویب سائٹ سے عارضی طور پر ہٹالیاتھا ،اسی طرح نتیجہ آنے کے بعد انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں ایک مثبت اور معتدل تقریر کی جس میں انہیں کسی طر ح کی کوئی متنازع بات نہیں کہی۔اس لئے مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں کوامریکہ کی پالیسی پر نظر رکھنے سے زیادہ توجہ اپنی پالیسی کو سنوارنے ،اپنے عزائم کو مستحکم بنانے ،دفاعی طاقت کو بڑھانے ،معیشت کو مضبوط کرنے اور شریعت سے رشتہ مظبوط کرنے پر دینی چاہئے ، ہماری کامیابی اور سربلندی کا یہی واحد راستہ ہے۔
اخیر میں ہاورڈ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر سیموئیل ہنٹنگٹن (Samuel Huntington) کی یہ تحقیقی رپوٹ تہذیبوں کا تصادم (Clash of Civilization ملاحظہ فرماتے چلیں جس سے مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی ایک منظم سازش کا انداز ہ ہوتاہے۔
’’دنیا کی تقریباََ 50فیصد دولت ہمارے پاس ہے مگر ہماری آبادی دنیا کی کل آبادی کا صرف 6.3 فیصد ہے۔ ان حالات میں ہم حسد اور ناراضگی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ آنے والے دور میں ہمارا اصل کام یہ ہوگا کہ ہم تعلقات کا ایک ایسا ڈیزائن تیار کریں جو اس فرق کو قائم رکھ سکے اور ہماری قومی سلامتی پر منفی اثرات بھی مرتب نہ ہوں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم جذباتیت اور دن کو خواب دیکھنے کی عادت ختم کر دیں۔ ہمارے فوری قومی مقاصد کے لیے ہماری توجہ ہر جگہ مرکوز رہنی چاہیئے۔ہمیں اپنے آپ کو دھوکہ دینے کی ضرورت نہیں کہ ہم دنیا کے لیے خیرات اور بے غرضی کے متحمل ہو سکتے ہیں ۔ ہمیں فضول اور غیر حقیقی مقاصد جیسا کہ انسانی حقوق، معیار زندگی میں اضافہ اور جمہوریت کے نعرے ہیں ان پر بات کرنا ترک کر دینا چاہیئے۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں طاقت کی بنیاد پر سلوک کرنا ہوگا۔ (طاقت سے نمٹنا ہوگا) ہم جتنا کم مثالی نعروں کے روڑے اٹکائیں گے اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہوگا۔(ملت ٹائمز)
کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)