تخریب سے لے تعمیر تک کے لئے عوامی مہم اور مسلمان

  مسعود جاوید

بابری مسجد شہادت سے قبل ملک میں فرقہ وارانہ ماحول بنانے کے لئے گاؤں گاؤں کا دورہ کیا گیا تھا اور اب رام مندر نرمان کے لئے گاؤں گاؤں چندہ مہم چلائی جا رہی ہے ظاہر ہے اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے اس لئے شرپسندوں کے حوصلے ۹۰ کی دہائی سے زیادہ بلند ہیں۔ آج اڈوانی کے رتھ یاترا روکنے کے لئے کوئی لالو پرساد نہیں ہے۔

اب جبکہ عدالت عظمی نے رام مندر بنانے کے لئے اس متنازع مقام کو سونپ دیا اور ہم نے صبر کر لیا تو اس کے لئے چندہ مہم چلانا، بائیک ریلی نکالنا اور گاؤں گاؤں کا دورہ کرنا یہ ان کا معاملہ ہے ہمیں ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

لیکن اس چندہ مہم ریلی کے دوران مسلمانوں کے خلاف دل آزار نعرے لگانے اور مشتعل کرنے کے واقعات مدھیہ پردیش اور اترپردیش کے بعض مقامات پر سامنے آئے ہیں اور الزام مسلمانوں پر عائد ہوئے کہ مسلمانوں نے چندہ ریلی پر پتھراؤ کیا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ سنجیدہ باشعور ہندو برادران وطن کو سمجھنا چاہیے کہ بابری مسجد کی شہادت سے لے کر عدالت کے فیصلے تک مسلمانوں کو کس آگ کے دریا سے گزرنا پڑا ہے ۔۔۔ عدالت عظمیٰ کا اعتراف حقائق :- مسجد کے نیچے کوئی مندر کا ثبوت نہیں ، رام للا پرکٹ نہیں ہوئے بلکہ مورتی سازش کے تحت رکھی گئی تھی، اس مقام پر نماز ادا کی جاتی رہی تھی۔‌ کے باوجود اس مقام کو مندر کی تعمیر کے لئے دینا بذات خود بڑے پیمانے پر کشیدگی کا سبب ہو سکتا تھا لیکن مسلمانوں نے ضبط نفس سے کام لیا۔ مسلمانوں نے صبر کیا اب چندہ مہم اور ریلی نکال کر ان کے خلاف دل آزار نعرے اور چڑھانے والی حرکتوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہونا فطری ہے۔ کاش وہ ایسی حرکتیں نہ کریں۔

دوسری بات یہ کہ جب ہم نے صبر کر لیا تو کسی کے مشتعل کرنے کی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دینا ہی جوش پر ہوش کی فتحیابی ہے ۔

اس لئے شرپسندوں کے نعروں اور دل آزار حرکتوں کو نظر انداز کرنے کے لئے اپنے اپنے حلقوں میں ذہن سازی کریں یہ بزدلی نہیں دانشمندی ہے کہ ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ عموماً ایسی ریلیاں مساجد کے دروازوں پر رک کر ہمیں مشتعل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ ایسے موقعوں پر بہت سے مقامات پر مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس وقت وہاں نہیں ہوں گے اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا ۔ رام نومی دسہرہ کے جلوس جب مسجد کے دروازے سے گزرتے تھے تو اکثر فرقہ وارانہ تصادم تک کی نوبت آ جاتی تھی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے انگریزوں کے دور میں بھی ایسی صورتحال کا ذکر ملتا ہے اور انگریزوں نے محرم اور رام نومی وغیرہ کے جلوس کے گزرنے کے لئے راستے متعین کر دیا تھا یعنی حساس علاقوں سے نہیں گزرنا۔ آج بھی انتظامیہ/پولیس اسی گائیڈ لائن پر عمل کرتی ہے۔

عموماً مسجد کے اس پاس مسلمانوں کا مجمع ہوتا ہے۔ ٹکراؤ ناگزیر تھا۔ دونوں فرقوں کے امن پسند لوگوں نے انتظامیہ کے ساتھ مل کر یہ ترتیب بنائی کہ دونوں فرقوں کے جلوس رات گیارہ بجے کے بعد گزرے۔ اس ترتیب کو تقریباً دس سال ہو گئے اور الحمدللہ تصادم سے بچے ہوئے ہیں اس لئے کہ جب چڑھنے والے موجود نہیں ہوں گے تو چڑھائیں گے کسے ؟ آج بھی ایسی ہی کوئی مناسب ترتیب کی ضرورت ہے۔