پس آئینہ:شمس تبریز قاسمی
ہندومت اور یہودیت کے درمیان پائے جانے والے گہرے تعلقات کا اثر اب ہندوستان اور اسرئیل کے سفارتی تعلقات پر بھی پوری طرح اثر انداز ہوگیا ہے ، ان دونوں ممالک کی قربتوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے اور حالیہ دنوں میں اسرائیلی صدر آروین کے ساتھ ہندوستان میں25 سالہ سفارتی تعلقات کا جشن بھی منایاگیا ہے ۔
1948 میں جب عرب ریاست فلسطین کی زمین پر قبضہ کرکے اسرائیل کو قائم کیا گیاتھا تو اس وقت ہندوستان نے کھلے لفظوں اسرائیل کی حمایت نہیں کی تھی ،بلکہ اس کی ظاہری ہمددری فلسطین کے ساتھ تھی ،مہاتمام گاندھی کا یہ نظریہ تھاکہ یہودیوں کا یہ دعوی اور اسرائیل اسٹیٹ کا قیام بجا ہے لیکن مذہبی بنیاد پر اس کی تقسیم غلط ہے ، 1947 میں ہندوستان نے تقسیم فلسطین منصوبہ کی مخالفت میں ووٹ دیاتھا ،اسی طرح 1949 میں ہندوستان نے اقوام متحدہ میں اسرئیل کو شامل کئے جانے کے خلاف ووٹ دیاتھا ،ہندوستان کے اس موقف کی یہاں کے ہندوشدت پسندوں نے سخت مخالفت کی اور قیام اسرائیل کی کھل کر حمایت کی ،آر ایس ایس کے اس وقت کے سربراہ مادھواسداشی گوالکر نے بھی اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ فلسطین یہودیوں کی جائے پیداش اور ان کا اصلی وطن ہے وہی اس کے حقدار ہیں ۔
آر ایس ایس اور ہندوشدت پسندوں کی کھلے عام اسرائیل کی حمایت ،فلسطین کی مخالفت اور یو این میں اسرائیل کے خلاف ہونے والی ووٹنگ کے بعد حکومت ہند نے بھی اپنا نظریہ تبدیل کرلیا اور17 ستمبر 1950 کو ہندوستان نے غاصب اسرائیل کو دنیا کے خطے پر ایک ملک تسلیم کرلیا ، اس وقت کے وزیراعظم پنڈٹ جواہر لال نہرو نے سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے یہ کہاکہ ’’روئے زمین پر اسرائیل ایک حقیقت جسے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں اور ہم نے بہت پہلے اس کا اعتراف کرلیاتھالیکن عرب ممالک کی دوستی اور ان کے جذبات کو ٹھیس نہ پہونچانے کی خاطر ہم اس کا اظہار نہیں کررہے تھے ‘‘ اسی سال ممبئی میں اسرائیل کو قونصل خانہ کھولنے کی اجازت دے دی گئی ،نہرو حکومت دہلی میں سفارت خانہ بھی قائم کرانا چاہ رہی تھی لیکن عرب ممالک کی دوستی اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچاسے اجتناب کرتے ہوئے انہوں نے بہ ظاہر ایسا نہیں کیا ،ایک طرف انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا دوسری طرف فلسطین سے بھی ہمددری ظاہر کی ۔جس کا نتیجہ یہ ہواکہ فلسطین سے ہمدردی کم ہوتی گئی اور اسرائیل سے تعلق بڑھتاگیا۔
1950 سے 1990 تک ہندوستان ۔اسرائیل کے درمیان تعلقات برائے نام تھے ،خلیجی ممالک سے گہری دوستی ،ان سے ملنے والے تعاون او رہندوستانی مسلمانوں کی دلجوئی کی خاطر اس درمیان آنے والے حکومت اسرائیل سے اپنے تعلقات کو چاہنے کے باوجود بھی فروغ نہیں دے سکی ،تاہم عرب ممالک سے پاکستان کو ملنے والی حمایت کے بعد ہندوستان نے بھی اپنی پالیسی تبدیل کی اور عربوں کی دوستی کی پرواہ کئے بغیر اسرائیل سے سفارتی رشتہ قائم کرنے کے منصوبہ پر عمل آوری شروع کردی اور جنوری 1992 میں دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات قائم ہوگئے۔
1999 میں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعددونوں ملکوں کے تعلقات خفیہ ہونے کے بجائے عام ہوگئے ،بی جے پی نے اسرائیل سے سفارتی رشتے کو مضبوط بنانا شروع کردیا ،سب سے پہلے2000 میں جسونت سنگھ نے بطور زیر خارجہ اسرائیل کاسرکاری دورہ کیا ، 2003 میں اسرائیل کے وزیر اعظم ایرن شیرون نے پہلی مرتبہ ہندوستان کا دورہ کیا ،حکمراں جماعت بی جے پی کی جانب سے ایرون شیرون کے دورہ کو خصوصی اہمیت دی گئی ،اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہار ی واجپئی نے شیرون کے دورہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے مزید مستحکم ہونے کے اعتماد کا اظہار کیا،نئی دہلی میں انڈیا گیٹ پرہندوستان اور اسرائیل کا جھنڈا ایک ساتھ لہرایاگیا،دوسری طرف مسلمانوں نے شیرون کی آمد پر شدید احتجاج کیا ،تقریبا سو مسلمانوں کو حراست میں لیا گیا ،علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے طلبہ نے بھی اسرائیلی وزیراعظم کی آمد پر شدیداحتجاج درج کرایا۔2006 میں کانگریس کے دورحکومت میں شردپوار،کپل سبل اور کمل ناتھ کے ساتھ اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلی اور موجودہ پی ایم نریندر مودی نے بھی اسرائیل کا دورہ کیا ، متعدد مسلم رہنماؤں اور اردو صحافیوں کا بھی وفد کی شکل میں اسرائیل کا دورہ کرایاگیااور اسرائیلی بربریت پر خاموشی اختیار کرنے اور فلسطینوں کی داستان مظلومیت نہ لکھنے کی ذہن سازی کی گئی ۔
مئی 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بننے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات نے ایک نیا رخ اختیا کرلیاہے ،نریندرمودی کے وزیر اعظم بنتے ہی اسرائیل وزیر اعظم نتین یاہونے فون کرکے انہیں مبارکباد پیش کی،2014 میں امریکہ دورہ کے دوران نریندر مودی نے اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہوسے خصوصی طور پر علاحدہ ملاقات کی اور اس کے بعد اب تک یعنی ڈھائی سالہ مدت میں تقریبا ایک درجن وزراء اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں،جن میں صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی ،وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ شسما سوراج بھی شامل ہیں ،صدرجمہوریہ ہند پرنب مکھر جی نے اکتوبر 2015 میں اسرائیل کا دورہ کیاتھا اور یہ کسی بھی ہندوستانی صدر کا پہلا دورہ تھا ،اسرائیل میں انہیں خصوصی اعزازدیاگیا اور وہاں کی پارلمینٹ سے انہوں نے خطاب کیا ،سشماسوراج کا دورہ بھی اہمیت کا حامل رہا،انہوں نے اسرائل کے وزیر اعظم،صدراور تمام ممبران پارلیمنٹ سے ملاقات کے ساتھ یروشلم میں واقع یہودیوں کے کئی مذہبی مقامات کا بھی معائنہ کیا ۔گذشتہ 14 تا 22 نومبر 2016 سے اسرائیل کے دسویں صدر ارون ایک تجارتی وفد کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان 25 سالہ سفارتی تعلقات مکمل ہونے پر ہندوستان کے سرکاری دورے پر تھے، آگرہ میں منعقد ہونے والی ٹیکنالوجی اینڈ بزنس میلہ کے وہ مہمان خصوصی تھے۔اس دوران انہوں نے مختلف مقامات کادورہ کیا اور ہندوستان سے مضبوط سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
بی جے پی حکومت قائم ہونے کے بعد یہوداور ہندو مت کے درمیان کئی مشترکہ مذہبی کانفرنس بھی ہوچکی ہے ،اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق ہنداسرائیل کے درمیان بڑھتی قربت کی ایک وجہ مسئلہ کشمیر پر ہندوستان کو اسرائیل کی ملنے والی حمایت بھی ہے اور آئندہ دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید گہرے ہوں گے ۔ ہندوستان اسرائیلی ساختہ فوج سامان اور جنگی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اسرائیل روس کے بعد ہندوستان کا دوسرا بڑادفاعی سپلائر ہے،فوجی سازوسامان اور جنگی آلات کی خریداری کے نام پر سالانہ 9 بلین سے زائد امریکی ڈالر ہندوستان اسرائیل کو اداکرتاہے، ایک صحافی کے بقول ہر سال اربوں ہندوستانی روپے اسرائیلی بینکوں کے کھاتوں میں منتقل ہو جاتے ہیں اوراس کے بدلے میں انسانیت کش لڑاکا طیارے، جدید ترین ٹینک، مہلک رائفلیں، خطرناک کیمیکل، بھانت بھانت کا اسلحہ ہندوستانی گوداموں میں پہنچ جاتا ہے۔اس کے علاوہ ایشا میں ہندوستان اسرائیل کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنربھی ہے ،پورے ملک میں اسرائیلی اشیاء کی فروخت بہت بڑی تعداد میں ہوتی ہے۔
2014 کے بعد سے ہند۔اسرائیل تعلقات میں مسلسل ضافہ ہورہاہے ،ظلم کی حمایت اور ظالم کی مدد کرنے میں حکومت ہند
پیش پیش ہے ،2014 میں غزہ پر ہورہی اسرائیلی بمباری کے دوران ہندوستانی پارلیمنٹ میں اسرائیل کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیاتھا جس کا وزیر خارجہ شسما سوراج نے انکارکر تے ہوئے یہ کہاتھاکہ ہندوستان فلسطین کا حمایتی ہے لیکن اسرائیل سے بھی اس کے اچھے تعلقات ہیں،اس طرح کا کوئی بھی اقدام ہماری دوستی پر اثر انداز ہوگا۔رواں سال اڑی حملہ کے بعد پاکستان کے خلاف کئے گئے سرجیکل اسٹرائک کا موازنہ اسرائیلی فوج سے کرکے وزیر اعظم نریندرمودی نے واضح طور پر دنیا کے سامنے اعتراف کرلیاہے کہ ان کی حکومت فلسطینوں پر اسرائیلی دہشت گردی اور بربریت کو نہ صرف جائزٹھہراتی ہے بلکہ وہ اسے بہادری سمجھتی ہے اور اسی بربربیت نمابہاردی کی وہ ہندوستانی فوجوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں جو بے گناہوں کا خون بہاتی ہے ،معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل کرتی ہے اوردہشت گردی کو کھلے عام بڑھاوادیتی ہے۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر )
stqasmi@gmail.com