زین شمسی
ملت ٹائمز
بھارت اب صرف مہان ہی نہیں رہے گا اسمارٹ بھی بن جائے گا۔بس ڈر یہ ہے کہ اسمارٹ بننے کے بعد کہیں اس کی عظمت ختم نہ ہو جائے۔ ایسا اس لیے کہہ رہاہوں کہ جب جب کوئی بھی اسمارٹ بننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنی ان روایات اور تہذیبوں کو فرسودہ اورفضول بتا کر رد کر دیتا ہے جو اس کی اپنی بنیاد میں ہوتی ہے ۔ بس یہی خوف ہے اور یہ خوف کیوں ہے اس کے پیچھے کئی دلیلیں دی جا سکتی ہیں۔ وینکیا نائیڈو نے مودی سرکار کے ڈریم پروجیکٹوں میں سے ایک اسمارٹ سٹی بنانے کے لیے 20شہروں کے نام کا اعلان کر دیا ہے۔ انتہائی اسمارٹ فیصلہ لیتے ہوئے بہار ، اترپردیش ، مغربی بنگال ،جھارکھنڈ و دیگر کچھ ریاستوں کوبالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ ان پیمانوں میں کھرے نہیں اترے جو اسمارٹ سٹی بنانے کے لیے بنائے گئے تھے۔
اچھی بات ہے کہ کم سے کم مودی سرکار نے 20شہروں سے اس کی شروعات کی ہے۔ اسمارٹ سٹی کیسی ہوگی اس کے بارے میں تب بات کی جائے گی جب اس شہر کا دورہ کیا جائے گا۔ فی الحال تو ہم تصور ہی کر سکتے ہیں اور تصور میں اس سٹی کو ایک ایسی شکل میں دیکھتے ہیں ،جہاں گندگی نہیں ہوگی ،ہر طرح کی سہولت ہوگی ،سیکورٹی ہوگی ،ہر طرف کیمرے لگے ہوں گے۔ٹریفک نہیں ہوگا اور نہ ہی لڑائی جھگڑا ہوگا۔ہر چیز منظم ڈھنگ سے سجی سجائی ہوگی۔ایک ایسا نظام ہوگا جہاں کسی طرح کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔بے ڈھنگی عمارتیں نہیں ہوگی۔ چوڑی سڑکیں ہوگی۔ سیور اور ٹوائلٹ کا نظم ہوگا۔مختصر یہ کہ جہاں سب کچھ بہتر ہو ،وہی اسمارٹ سٹی ہے۔
کسانوں ،مزدوروں جھگیوں اور رین بسیرا کے ملک میں اگر اسمارٹ سٹی بن رہی ہے تو کم از کم اس کی امید بھی نظر آرہی ہے کہ شاید وہ شہر جو اسمارٹ سٹی کے زمرے میں نہیں آئے اس کی بھی پیوند کاری کی جائے گی۔شہروں میں بڑھتی بھیڑ کو اگر روکنے کی کوشش ہوتی تو یوں بھی سارے شہر اسمارٹ ہی ہوتے ،لیکن کیا کیجئے گا کہ نظام اقتدار نے گاوؤں کی طرف سے راہ فرار ہونے والوں کی مصیبتوں پر کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔ نتیجہ میں گاوؤں سے ہجرت کرنے والے لوگ شہروں میں جم گئے اور شہرجام ہوگیا۔کسان پہلے مزدور ہوئے ،پھربندھوا مزدور ہوگئے اور اب یہ حالت ہے کہ منریگا نہ ہوتو بھوکوں مر جائیں۔ کسانوں کی زمینوں کو بے اوقات بنا دیا گیا۔زراعت کو گھاٹے کا سودا بنانے کے لیے ہر طرح کی حکمت عملی اپنائی گئی، اور جب لوگ اپنی زمینیں کوڑی کے بھاؤ بیچ کر شہروں کی طرف آئے تو شہروں کا بوجھ بڑھ گیا اور اب جب شہر رہنے کے لائق نہیں رہا تو اسے اسمارٹ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔مگر شہر کے اسمارٹ ہوجانے کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ وہاں کے باشندے بھی اسمارٹ ثابت ہوں۔
اسمارٹ نیس ذہنوں میں ہونی چاہیے نہ کہ عمارتوں میں۔ ثبوت کے لیے ایک چھوٹی سی مثال دیکھئے کہ مہامنا یعنی اسمارٹ ٹرین کا مودی نے خود آغاز کیا ،خود ہی ہری جھنڈی بھی دکھائی ،ٹی وی رپورٹروں نے ٹرین کے اندر کا منظر دکھانے کے دوران ٹوائلٹ تک کی سب سے زیادہ تعریف کی ، لیکن ایک ہی ہفتہ میں ٹوائلٹ کٹ سمیت کئی چیزیں چوری ہوگئیں۔ یعنی ٹرین سے زیادہ مسافر ہی اسمارٹ نکلے۔اسی لیے کہا جارہا ہے کہ اسمارٹنیس عمارتوں یا اشیا میں نہیں بلکہ عوام کے ذہن میں ہوتی ہے۔ جن 20شہروں کو اسمارٹ سٹی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے کیا وہاں کے عوام کو بھی اسمارٹ بنانے کی کوشش کی جائے گی ،یہ سوال اہم ہے۔کیا یہ امید کی جائے کہ وہاں کے لوگ فساد برپا نہیں کریں گے ،متعصب نہیں ہوں گے ،بے ایمانی اور رشوت خوری سے پرہیز کریں گے۔ ایماندار ی کو اپنا شعار بنائیں گے۔ اگر عمارتوں ،سڑکوں ، اسکولوں اور پارکوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی اسمارٹ بن جائیں تو پھر اس پہل کوپورے ہندوستان میں رائج کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے ،ورنہ وہی شہر اچھا ہے جو گندا تو ہے مگر پرامن ہے۔
انسان نے جب آنگن چھوڑ کر فلیٹ کو اپنایا، تبھی سے ہندوستان کی عظمت پامال ہونا شروع ہوگئی۔صاف ستھری جگہ پر اپنا مکان خریدنے کاخواب سب کے سینے میں دفن ہوتا ہے ، لیکن ذرا فلیٹوں کی سماجیات پر غور کیجئے۔پڑوسیوں کو پڑوسی کا نام و پتہ معلوم نہیں۔ایک فلیٹ میں چوری ہورہی ہوتی ہے اور بغل والے فلیٹ والے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بچہ غائب ہو جاتا ہے اور کسی کو پتہ نہیں چل پاتا۔یہاں تک کہ لاشیں جب سڑ جاتی ہیں، تب پتہ چلتا ہے کہ کوئی مر گیا۔ فلیٹ کے کلچر نے لوگوں کو اتنا محدود بنا دیا کہ اخلاقیات کا دم گھٹنے لگا ہے۔ترقی کے نام پر اچھی زندگی گزارنے کے لیے کئی طرح کے ٹیکس دینے پڑے ہیں۔اس ٹیکس میں ہماری تہذیب ، ہمارا اخلاق اور اقدار سسکیاں لینے لگا ہے۔گاؤں کے لوگ کہتے ہیں کہ شہر جاکر اسمارٹ بن گئے ہو،لیکن شہر والے جانتے ہیں کہ انہوں نے کم پانے کی جستجو میں بہت کچھ کھو دیا ہے۔ یوں بھی مکان اور گھر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اینٹ اور گارے سے بنائے گئے مکان میں اگر محبت نہ ہو، روزانہ چپقلش کا بازار گرم ہو تو اس کے درمیان میں دیواریں آجاتی ہیں۔گھر تو وہ ہے جہاں خوشیاں ہوں ،جہاں درد بانٹنے والے ہوں ،اسی طرح شہر بھی وہی اچھے جہاں محبت ہو ،بھائی چارہ ہو ،امن ہو ،ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے والی کمینوٹی ہو۔وہی شہر اسمارٹ ہے۔اصل اسمارٹ سٹی وہی ہے۔ اسے کسی پروجیکٹ کے تحت نہیں بنایا جاتا۔وہ شہر تہذیب کے ستون پر کھڑا ہوتا ہے۔ اسمارٹ سٹی بناتے وقت سرکار کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وائی فائی کی سہولت کے ساتھ وہاں بھائی بھائی کی بھی سہولت ہو۔ہندو مسلم ،سکھ عیسائیوں کے لیے الگ الگ خانہ اور پیخانہ نہ بنائے جائیں۔شک اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ 20ناموں میں سے ایک نام دہلی کا بھی ہے۔اس کے لیے لکھا گیا ہے این ڈی ایم سی، یعنی نئی دہلی میونسپل کارپوریشن۔ یعنی وہ دہلی جو پہلے سے ہی صاف ستھری ہے۔ وہ دہلی جہاں پہلے سے ہی بڑے لوگ رہتے ہیں، اسی شہر کو مزید سہولت دی جائے گی۔باقی وہ دہلی جہاں مسلمان رہتے ہیں، غریب رہتے ہیں،جہاں کی عمارتیں آپس میں گتھم گتھا ہو چکی ہیں، انہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔گویا نئی دہلی کا وہ علاقہ جو روشنی میں جگمگا رہا ہے اسی میں مزید جھومر اور قمقمے لگا دئے جائیں گے۔ظاہر ہے یہی تفریق ان تمام شہروں میں بھی دکھائی دے گی جسے اسمارٹ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایک شہر کا تصور کیا ہونا چاہیے۔اسی دہلی میں ایسے کئی مقامات ہیں جہاں مسلمانوں کو گھر نہیں ملتا، کرایہ کے مکان کا تو تصور ہی نہیں ہے۔ ہندوستان کے اندر ہی کئی طرح کی تقسیم پہلے سے ہی کی جا چکی ہے، مسلمانوں کو شہر کے کسی کونے میں دھکیل دیا گیا ہے۔جہاں کسی بھی طرح کی کوئی سہولت نہیں ہے۔وہ جی رہے ہیں ،کیونکہ جینا مقدر ہے۔
جب تک عوام اسمارٹ نہیں ہوں گے۔بیدار نہیں ہوں گے ،اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کریں گے،اپنے شہر اپنے ملک کے لیے نہیں سوچیں گے تب تک وہ خواہ اسمارٹ سٹی میں رہیں یا جھگی جھونپڑی میں رہیں ،بھارت کی عظمت زخمی ہوتی رہے گی۔ بھارت اسمارٹ اس لیے نہیں تھا کہ یہاں کے شہر اسمارٹ تھے ،بلکہ وہ اس لیے اسمارٹ تھاکہ یہاں کے شہری اسمارٹ تھے۔ آج یہاں کے شہری اپنی اسمارٹنیس کھو چکے ہیں ،ان سے بھائی بھائی کا نعرہ چھینلیا گیا ہے اور وائی فائی کاچارہ دے دیا گیا ہے۔ وہ اسمارٹ سٹی میں رہیں یاگندگی بستیوں میں بھارت کا وقار بلند نہیں کر سکتے۔
( مضمون نگار معروف صحافی اور روزنامہ خبریں کے جوائنٹ ایڈیٹر ہیں )