” امن پسندوں “ کا سفاک چہرہ

ایم ودود ساجد 

حلب کی تباہی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔ سچ کہئے تو یہ محض حلب کی تباہی نہیں تھی بلکہ ’یزیدانِ وقت‘ کے ہاتھوں حسینی شامیوں کا قتل عام تھا۔ ایسا ظلم و جبر اور دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنوں کی ایسی قتل و غارت گری ماضی قریب میں کہیں دیکھی نہیں گئی تھی۔ کم و بیش ساڑھے تین دہائی قبل 60 ہزار افراد کو شہید کرکے جو بربادی قاتل بشارالاسد کے باپ حافظ الاسد نے مچائی تھی اب وہ بہت ہلکی اور پھیکی معلوم ہورہی ہے۔ حافظ الاسد نے ’باغیوں‘ کی پوری بستی پر بلڈوزر چلواکر محض چار گھنٹوں میں ایک پارک بنادیا تھا۔ لیکن اس کا مکروہ صفت بیٹا تو اس سے ہزار قدم آگے نکل گیا ہے۔ میرا شیوہ یہ ہے کہ تحریر میں تلخی ہو مگر مہذب الفاظ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے۔ لیکن شام کے بے بس حسینی شہریوں کے یزیدی قاتلوں کا ذکر کرنے کے لئے قلم پر بڑی مشکل سے ضبط کا باندھ باندھا ہے۔
سقوط حلب پر دنیا کا ہر ذی شعور انسان مضطرب ہے۔ وہ بھی جسے اصل مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا علم ہے اور وہ بھی جسے حقیقی مسئلہ کا علم نہیں ہے۔ اس لئے کچھ تاریخی حقائق کا جاننا ضروری ہے۔ میں نے ’سقوط‘ کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ قاتل بشار الاسد نے جابر روس اور منافق ایران کے ساتھ مل کر بے قصور شہریوں سمیت جن ’باغیوں ‘ کو کچلا ہے وہ فی الواقع باغی نہیں تھے۔ انہیں اقوام متحدہ نے باقاعدہ ایک جائز اپوزیشن کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ اس لئے انہیں دہشت گرد گروہ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ بشار سے لوہا لینے کیلئے کہیں باہر سے نہیں آئے تھے۔ وہ حلب کے ہی رہنے والے دبے کچلے اور ناانصافی کا شکار لوگ تھے۔ حلب شام کا ایک زر خیز صوبہ ہے جہاں ملک کی مجموعی آبادی کا 25 فیصد حصہ آباد ہے۔ یہاں کے لوگ جفاکش اور محنتی ہیں۔ وسائل سے بھرپور اس صوبہ سے پورا ملک فائدہ اٹھاتا ہے لیکن خود اسی کے مکین ان سے محروم ہیں۔
2011 میں جب ’بہار عرب‘ نامی انقلاب یا احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو شام بھی اس سے متاثر ہوا۔ لہذا یہاں حمص کے بعد دارالسلطنت دمشق سے بشار حکومت کے خلاف احتجاج کی ابتدا ہوئی۔ پھر یہ سلسلہ درعہ ” لتاکیہ“ ادلب اور حامہ سے ہوتا ہوا حلب پہنچ گیا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس وقت تک داعش جیسی سفاک دہشت گرد جماعت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ وہاں داعش پراسرار طور پر 2013 میں نمودار ہوئی ( اس نکتہ پر تفصیلی گفتگو آئندہ )۔ حلب میں مصر کی جماعت اخوان المسلمون سے متاثر الاحرار اور جبہت النصرہ جیسی سماجی خدمت گار جماعتوں کا غلبہ تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح فلسطین میں حماس غالب ہے۔ لہذا وہاں چھوٹے چھوٹے گروہوں کی تحریک نے زور پکڑ لیا اور آمر بشار الاسد کے خلاف عوامی آواز بلند ہوگئی۔ بشارالاسد نے اپنا اقتدار باقی رکھنے کے لئے ان احتجاجیوں کو دہشت گرد اور غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار قرار دے کر انہیں کچلنا شروع کردیا۔ دمشق اور دوسرے شہروں کے احتجاجی عوام غیر منظم اور نہتے تھے جبکہ بشارالاسد کی فورس جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تھی۔ لوگوں کو گھروں یہاں تک کہ مسجدوں سے باہر گھسیٹ کر لایا جاتا اور برسر عام ان کے سروں میں گولی مار دی جاتی۔ بے ضرر اور کمزور خواتین ظالم حکمرانوں سے آزادی کے خلاف نعرے لگاتیں تو فورسز کے مرد اہلکار ان کی چھاتیاں اور بال پکڑ کر گھسیٹتے۔ بہت چھوٹے چھوٹے گروہ سڑکوں پر آکر تبدیلی کی خواہش کا محض ایک نعرہ لگاتے مگر اس نعرہ کی کم سے کم سزا گولی تھی۔
احتجاج کی ہوا 29 لاکھ کی آبادی والے شامی شہر حمص سے چلی تھی۔ یہ وہی شہر ہے جہاں 80 کی دہائی میں اخوان المسلمون نے شہریوں کے ساتھ ناانصافی اور حافظ الاسد کی آمریت کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات کی تھی۔ فرائڈمین جیسا نامور اور جہاندیدہ صحافی ایک نوعمر رپورٹر کے طور پر خود اس وقت حمص میں موجود تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ’ حافظ الاسد نے اس شہرکی بستیوں کے 60 ہزار مکینوں کو قتل کردیا تھا اور ان کا نام و نشان مٹانے کے لئے ان کے گھروں پر بلڈوزر چلاکر پارک بنادئے تھے۔ شاید عرب دنیا میں یہ اپنی نوعیت کا سب سے بھیانک ظلم تھا‘۔ آج حافظ الاسد کا بیٹا بھی جدید انداز میں وہی کارنامہ انجام دے رہا ہے۔دوسرے ملکوں کے’ ہم خیال اور ہم مشرب‘ صحافیوں کو بلاکر دکھایا گیا کہ بغاوت کی آگ صرف انہی روایتی باغی شہروں سے اٹھ رہی ہے اور باقی پورا ملک پرسکون ہے۔ اس الزام کو درست ثابت کرنے کے لئے دارالسلطنت دمشق کی جامع مسجد کے صدر دروازہ پر ‘ ہر جمعہ کو مظاہرہ کرنے والوں پر گولیاں چلائی جاتی رہیں۔حمص‘حلب ‘ ادلب اور درعہ کے مکینوں کو 80 کی دہائی کے انہی ’دہشت گردوں‘ کی باقیات قرار دیا گیا جنہیں حافظ الاسد نے صحراؤں میں کاٹ کر بودیا تھا۔
شستہ عربی زبان کے لئے مشہور شام کوئی غریب یا وسائل سے خالی ملک نہیں ہے۔ اس کے باوجود 2013 کی رپورٹ کے مطابق مواقع اور وسائل کی غیر منصفانہ فراہمی کا حال یہ تھا کہ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے ملک میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کے 37 لاکھ کنکشن تھے۔ ٹیلی ویزن سات فیصد اور ریڈیو 27 فیصد لوگوں کے پاس تھا۔ محنت کش بڑی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے مگر وسائل پر کم تعداد کی شہری آبادیوں کا تصرف ہے۔ شرح خواندگی 84 فیصد ہے مگر سیاسی آزادی نہ ہونے کے سبب لوگ اپنے حقوق سے باخبر نہیں۔ قانونی طور پر صرف ایک ہی (بددین) سیاسی جماعت ہے۔ صدر کو سات سال کے لئے ریفرینڈم کے ذریعہ منتخب کیا جاتا ہے۔ سنیوں کی تعداد 74 فیصد ہے ‘12 فیصد علوی ‘10 فیصد عیسائی اور چار فیصد دریز ہیں۔ حکمراں خاندان کا تعلق ’علویوں‘ سے ہے جو عرب اور نصیری ہونے کے باوجود ایران سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں۔ 80 کی دہائی میں ہونے والی آٹھ سالہ ایران -عراق جنگ میں شام کے حکمراں خاندان نے ایران کا ساتھ دیا تھا۔ لہذا آج ایران شام کے نہتے شہریوں پر بشارالاسد کے مظالم میں اس کا ساتھ دے رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل اور شام کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی ثالث کوفی عنان 2013 میں اپنی امن مساعی سے مایوس ہوچکے تھے۔ انہوں نے جو امن فارمولہ پیش کیا تھا اس پر بشارالاسد نے خاموشی اختیار کرلی تھی۔ اس صورتحال سے دلبرداشتہ ہوکر عرب لیگ نے کہہ دیا تھا کہ بشارالاسد امن فارمولہ کے بہانے وقت گزاری کر رہے ہیں اور ان کی نیت میں کھوٹ ہے۔ خود اس وقت کے عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی نے بشارالاسد کی حرکتوں کے خلاف بہت سخت لب و لہجہ اختیار کیا تھا۔ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے بھی بشارالاسد سے فوری طور پر اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے تو شام کے دار السلطنت دمشق میں اپنا سفارت خانہ بھی بند کردیا تھا۔ کوفی عنان کے امن فارمولہ میں بشارالاسد سے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ کہا گیا تھا کہ فوری طور پر ’جنگ بندی‘ کی جائے جس کی نگرانی اقوام متحدہ کے مشاہدین کریں۔ اس کے بعد کسی تیسرے فریق کی مدد کے بغیر دونوں فریق یعنی حکومت اور باغی پر امن ماحول میں مذاکرات کریں اور راحت رساں ایجنسیوں اور بین الاقوامی نامہ نگاروں کو شام میں آنے کی اجازت دی جائے۔ پوری دنیا میں اور خاص طور پر عرب ممالک میں اس وقت جو حالات ہیں ان کی روشنی میں یہ فارمولہ بشارالاسد کے لئے سونے چاندی اور ہیرے موتیوں سے آراستہ برتن میں پیش کئے گئے آبِ حیات سے کم نہیں تھا۔ اس کے باوجود انسانیت کے قاتل نے فارمولہ تسلیم نہیں کیا۔ اب حلب کی تباہی میں ایران کی سفاکی کا جو چہرہ سامنے آیا ہے اس سے یقین ہوگیا ہے کہ بشارالاسد کو کوفی عنان کا فارمولہ ماننے سے ایران نے روکا تھا۔ اس یقین کی بنیاد یہ ہے کہ حلب کی تازہ تباہی سے پہلے شام ‘ روس اور متصادم گروہوں کے درمیان ’جنگ بندی‘ کا ایک معاہدہ ہوگیا تھا مگر ایران نے آخری وقت میں کھلے طور پر اس معاہدہ کو ماننے سے انکار کردیا اور روس اور ایران کی ملشیا نے حلب چھوڑ کر جانے کی تیاری کرنے والوں پر بمباری شروع کردی۔یعنی ایران ہر حال میں حلب کی متصادم اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ حلب کے لاکھوں امن پسند مگر جانباز شہریوں کو بھی کچلنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ جس علاقہ سے بغاوت کی اتنی زبردست آگ اٹھی ہے وہاں اب کوئی ایک معمولی سی چنگاری بھی باقی رہ جائے۔
ایران کے لئے یہ ایک سنہرا موقعہ تھا کیونکہ ضروری نہیں کہ روس جیسا بلیک میلر ملک نہتے عوام کو کچلنے کے لئے آگے بھی اپنا جارحانہ تعاون جاری رکھے۔ اگر ایران نے روس اور شام کو جنگ بندی کے معاہدہ پر عمل کرنے دیا ہوتا تو آج حلب کے نہتے شہریوں، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کی یہ عدیم المثال قتل وغارت گری نہ ہوتی۔اتنی بڑی تباہی کے بعد جب بچے کھچے لوگوں کو اپنا سامان لے کر حلب سے جانے دیا جارہا تھا تو ایران نواز دو شامی گاؤوں کی مسلح شیعہ آبادی نے خطرناک ہتھیاروں اور ٹینکوں سے ان کا راستہ روک دیا۔ معصوم بچوں اور بوڑھوں کو مارتے وقت لبیک یا حسین کی صدائیں بلند کی گئیں۔ پوتن، روحانی اور بشارکی دہشت گرد فوج نے تو اس میاں بیوی تک کو نہیں بخشا جو گلوکوز کی ڈرپ لگے ہوئے ایک معصوم بچہ کو گود میں لے کر پناہ حاصل کرنے کے لئے حلب چھوڑ کر جارہے تھے۔ دور دور تک جلے کٹے انسان پڑے ہیں اور قطار اندر قطار عمارتیں منہدم پڑی ہیں۔ جو رپورٹیں آرہی ہیں ان کی رو سے برباد شدہ حلب کی کیفیت کو الفاظ کا جامہ پہنانا ممکن نہیں ہے۔زیر نظر سطور میں اس قضیہ سے متعلق بہت سے پہلوؤں کا احاطہ نہیں ہوسکا ہے۔ ان میں ایران، ترکی، روس، سعودی عرب، افغانستان، طالبان، حزب اللہ اور داعش جیسے کئی اہم پہلو بھی شامل ہیں۔ اگر حیات باقی رہی تو انشاء اللہ اگلے ہفتے ان پر گفتگو ہوگی لیکن ان سطور کو ختم کرنے سے پہلے ہمیں ایران کے سابق وزیر اعظم میر حسین موسوی کے بھائی محمد موسوی کا العربیہ کے اخبارالشرق کو دیا گیا یہ بیان ضرور پڑھ لینا چاہئے: ” ایران اور اس کے ملشیا کے ذریعہ شام میں جو قتل و غارت گری مچائی گئی ہے اس کے نتائج بہت خراب ہوں گے، اور ایران نے جو بویا ہے وہی کاٹے گا۔ تین لاکھ لوگوں کے قتل اور ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کی دربدری کے بعد شام میں رہ جانے والے ایک کروڑ لوگ نفرت اور تشدد کے درمیان زندگی بسر کریں گے۔ حلب کی تباہی کی خوشی محض دو دن کی ہے لیکن اس کے سبب ایران اگلے تیں سالوں کے لئے معرض خطر میں پڑگیا ہے ‘‘ ———

 (ملت ٹائمز)

SHARE