اسلام کا آفاقی پیغام پہونچانے کا وقت

نقطۂ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم

عروج وزوال ، افراتفری ، ہنگامہ بے چینی اور بے بسی جیسے حالات کا سامنا ہرزمانے میں کرنا پڑتا ہے اور یہی موقع ہوتا ہے انسانی صبر اور قوت برداشت کو آزمانے کا ۔ دوسری طرف اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ پوری دنیا اس کے سامنے بے بس اور ناکارہ نظر آتی ہے اور ہر کوئی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کوئی ایسی ذات ہے جس کے قبضہ قدرت میں پورا نظام ہے ۔ اسی کے اشارے پر ہر کام انجام پاتا ہے ۔ انسان بے بس ، لاچار اور مجبور محض ہے ۔ یہ اسی وقت تک مفید ، طاقتور اور کار آمد ہے جب تک اسے اس قابل سمجھا جاتا ہے ۔ انسان کی یہ خوبیاں ، اس کی حکومت ، طاقت اور دولت اپنی نہیں بلکہ کسی کی عطا کردہ ہے اور وہ عطا کرنے والا جب چاہتا ہے اسے لے لیتا ہے اور انسان اس کے سامنے خود کو بے بس ، لاچار اور کمزور محسوس کرنے لگتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں ہندوستان کے جو حالات ہیں وہ عملی طور پر اسی کی عکاسی کررہے ہیں کہ دنیا کے حکمران اور اپنی طاقتور پر غرور کرنے والے بے بس ہیں ۔ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ اصل مالک اور حکمراں کوئی اور ہے اور اسی کے مرضی سے پورے عالم کا نظام چلتا ہے اور ایسے واقعات انسانی اعتماد کو خالق کائنات پر مزید مضبوط اور مستحکم بناتے ہیں ۔

تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ کئی لوگوں نے خود کو اس دنیا کا سب سے بڑا حکمران سمجھا ، خود کو کائنات کا سب سے بڑا سپر پاور سمجھ لیا پھر انہیں کے لوگوں نے ان کا بدترین انجام بھی دیکھا ۔ دنیا کی دستیاب تاریخ میں کئی ایک نامور حکمرانوں اور بادشاہوں کی طاقت ، دبدبہ اور پھر ان کے بدترین انجام کا تذکرہ ملتا ہے ۔ اسی کرۂ ارض پر کبھی نمردو کی حکومت تھی جس نے طاقت اور غرور کے نشہ میں خود کو خدا سمجھ لیا تھا لیکن اس کی خدائی لمحوں میں ختم ہوگئی اور دنیا آج تک اس کو اس کے بدترین انجام کیلئے جانتی ہے ۔ اسی دنیا میں کبھی شداد کی بادشاہت تھی جس نے یہ دعویٰ کردیا کہ وہ خدا ہے ، وہی سب سے طاقتور ہے ۔ اس کے سامنے کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، سبھی انسان اس کے غلام ہیں اور پھر دنیا نے اس کا بھی بدترین حشر دیکھا ، جو خود کو سب سے طاقتور ، سب سے سپرور پاور سمجھ رہا تھا ایک مچھر سے بھی نجات حاصل نہیں کرسکا اور بدترین انجام کا شکار ہوا۔ اس دنیا میں فرعون ، ہامان اور قارون کا انجام بھی سبھی کیلئے درسِ عبرت ہونا چاہیئے ۔ طاقت، عقل اور دولت کے نشہ میں فرعون اور اس کے ساتھیوں نے خود کو خدااور کائنات کا خالق سمجھ لیا تھا ۔ اقتدار کا نشہ سوار ہونے کے بعد رعایا اور عوام پر ظلم وستم ڈھانا شروع کردیا تھا کا اس کا دعوی تھا کہ وہی خدا ہے ، اس سے بڑی کو ئی اور طاقت ہے نہیں ۔ اللہ تعالی کے وجود کا انکار کرکے خود کو خدا سمجھ لیا لیکن پھر اس کا انجام بھی دنیا کیلئے عبرت بن گیا اور اپنی رعایا کے ساتھ دریانیل میں غرق ہوگیا ۔ اس کی لاش آج بھی پوری دنیا خاص کر ظالم حکمرانوں کیلئے درس عبرت ہے جسے نہ تو زمین نے قبول کیا اور نہ آسمان نے اور جس نے اسے بتایا کہ تم خدا نہیں ہو ، تمہاری کوئی اوقات نہیں ہے ، خدا کی ذات کوئی اور ہے تم اس کے غلام ہو اس کی پرورش و پرداخت اسی کے گھر میں ہوئی اور اسے اس کا احساس تک نہیں ہوسکا ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیر امت کا لقب دیاہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ ” تم بہترین امت ہوں کیوں کہ تم لوگوں کو اچھی بات کو حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو “ ۔ آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو خیر امت کا لقب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وجہ سے دیا ہے اور یہ کام مسلمانوں کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ دنیائے انسانیت کو اسلام کی دعوت دیں ۔ ایمان کی طرف راغب کریں ۔ انہیں راہ راست اور صراط مستقیم پر لانے کیلئے منصوبہ بندی کریں اور انہیں گمراہی اور ضلالت سے نکالیں، تاریکی اور جہالت کے راستوں سے انہیں روکیں، شرک و بدعت سے انہیں دور رکھیں ۔ حالیہ دنوں میں جو حالات ہیں یہ اسلام کی تبلیغ کیلئے بہت اہم ہیں ۔ ہمارا ملی ، دینی اور سماجی فریضہ ہے کہ ہم لوگوں کو اچھائی کی طرف بلائیں ۔ دین اسلام کی دعوت دیں ۔ اپنے ایمان ، اخلاق اور کیرکٹر سے اسلام کی تبلیغ کریں ۔ اپنے اندر خوف اور تقوی پیدا کریں ۔ صبر کرنے کا مزاج بنائیں ۔ شکر بجالانے کی عادت ڈالیں تبھی ہمیں ہمارے مقصد میں کامیابی ملے گی ۔ ہمارا مشن پورا ہوگا ۔

اسلام کی تعلیمات میں انسانیت ، فلاح و بہبود ، اقوام کی خیر خواہی کا جذبہ پنہاں ہے ۔ اسلام نے پوری دنیا اور تمام انسانوں کیلئے یکساں حقوق کی بات کی ہے ۔ اسلام ہر ایک انسان کو انصاف ، آزادی اور مساوات فراہم کرنے کی تلقین کرتاہے ۔ اسلام اس بات کے شدید خلاف ہے کہ کسی کو غلام بنایا جائے ،کسی کو کمتر اور حقیر سمجھا جائے ، اسلام مساوات کا علمبردار رہا ہے اور یہی اسلام کی خصوصیت ہے لیکن آج کی تاریخ میں بھی ایک انسانوں کو غلام بنا رکھا جارہا ہے ۔ انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محرو م کردیا گیا ہے ۔ انسانوں کو آزادی ، انصاف اور مساوات فراہم نہیں کیا جارہا ہے ۔ امت مسلمہ کے خیر خواہوں ، علماء، قائدین اور دنشوران کی ذمہ داری ہے کہ وہ سبھی تک اسلام کا یہ میسیج پہونچائیں ۔ ہر کونے تک یہ بات پہونچائیں کہ اسلام سبھی کے یکساں حقوق کا قائل ہے۔ اسلام ہر ایک کو برابری کا درجہ دینے کی بات کرتا ہے ۔ اسلام حق و انصاف کی دعوت دیتا ہے ۔ اسلام سکون ، امن و سلامتی اور شانتی کا پیامبر ہے ۔ مشکلوں ، پریشانیوں اور گھبراہٹوں میں اسلام امید اور آس دیتا ہے ۔ یہی موقع ہے کہ ہم دنیا کو اسلام کے آفاقی پیغام سے روشناس کرائیں ۔ ان تک اسلامی تعلیمات پہونچائیں ۔ اسلامی ہدایات سے انہیں رو برا کرائیں ۔ قرآن کریم کی تعلیمات سے آگاہ کریں ۔ اکرامِ انسانیت اور تعظیم انسانیت کے بارے میں بتائیں کہ تمام بنی نوع انسان برابر، یکساں حقوق کے حقدار ،مکرم اور لائق احترام ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے جس کا مفہوم ہے کہ ہم نے تمام بنی نوع آدم کو مکرم اور قابل احترام بنایا ہے ۔ قرآن کریم کی یہ آیت اسلام کا آفاقی کا پیغام ہے جس میں انسانیت کا مقام و مرتبہ بتایا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ بطور انسان سبھی برابر اور لائق تعظیم ہیں ۔ انہیں کمتر جاننا ، حقیر سمجھنا ، غلام بنانا انسانیت کے اصولوں کے خلاف ہیں ۔ انسانیت کی توہین اور تذلیل ہے ۔ ذات برادری ، حسب و نسب ، علاقہ اور خطہ کی بنیاد پر کسی کو بھی فخر اور غرور کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ سبھی اولاد آدم ہیں اور ان کے حقوق ایک جیسے ہیں ۔ ان کی حیثیت ایک جیسی ہے ۔ کسی کو غلام ، کمزور اور حقیر نہیں بنایا جاسکتا ہے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں