آسٹریلیا نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا لیا فیصلہ، ملک کے اہم علاقوں پر طالبان کا کنٹرول، ستمبر کے اوائل تک امریکی فوج کا انخلا یقینی

 آسٹریلیا نے امریکی افواج کے انخلا کے مد نظر کابل کا اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر حالات نے اجازت دی تو اسے پھر کھول دیا جائے گا۔
افغانستان سے امریکا سمیت تمام بیرونی فورسز کے انخلا کے پس منظر میں آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے 25 مئی منگل کے روز اعلان کیا کہ کابل میں آسٹریلوی سفات خانہ آئندہ تین روز کے اندر بند کر دیا جائے گا۔ اس اعلان کے مطابق اس ہفتے 28 مئی بروز جمعہ افغانستان میں آسٹریلیا کا سفارت خانہ اپنا کام کاج بند کر دے گا۔
وزیر خارجہ میریز پیئنے کے ساتھ ایک مشترکہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے موریسن نے کہا، ”افغانستان سے فوری طور پر بین الاقوامی فوجی انخلا کی روشنی میں، آسٹریلیا عبوری اقدام کے تحت افغانستان میں سفارتی نمائندگی کے لیے اس وزیٹنگ ایکریڈیشن طریقہ کار کی جانب واپس ہو گا جس کا اس نے سن 1969 میں سفارت کاری کے آغاز سے لیکر سن 2006 تک استعمال کیا تھا۔”
اس بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ان اقدام کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ”افغانستان اور اس کی عوام کے لیے اس کا جو عزم ہے اس سے وہ منحرف ہو رہا ہے۔” آسٹریلوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جب، ”حالات اجازت دیں گے” تو سفارت خانے کو دوبارہ کھولا جائے گا۔

  امریکا ستمبر تک افغانستان سے نکل جائے گا

امریکا نے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے جس منصوبے کا اعلان کیا تھا اس پر عمل جاری ہے اور وہ رواں سال گیارہ ستمبر تک افغانستان سے پوری طرح سے نکل جائے گا۔  اسی تاریخ کو شدت پسند تنظیم القاعدہ نے نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز اور پینٹاگون پر حملہ کیا تھا۔
اس وقت افغانستان میں امریکا اور نیٹو کے تقریباً دس ہزار فوجی تعینات ہیں جس میں سے ڈھائی ہزار کے قریب امریکی فوجی ہیں جبکہ گیار سو کے قریبی جرمن ہیں۔ اور یہ سب جلد ہی اپنے ملکوں کو واپس لوٹ جائیں گے۔
افغانستان کی جنگ میں آسٹریلیا کے بھی اربوں ڈالر خرچ ہوئے اور اس نے بھی اپنے ہزاروں فوجی افغانستان بھیجے تاہم اس وقت نیٹو کے ایک اتحادی کی حیثیت سے اس کے صرف 80 فوجی ہی وہاں موجود ہیں۔
ایک ایسے وقت جب تمام بیرونی فورسز کی واپسی کا عمل جاری ہے آسٹریلیا کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں، ”سکیورٹی کا ماحول غیر یقینی ہے۔ آسٹریلیا کو توقع ہے کہ یہ اقدام عارضی ہیں اور جب بھی صورت حال اجازت دے گی ہم کابل میں اپنی مستقل موجودگی بحال کریں گے۔”

افغانستان کا غیر یقینی مستقبل

افغانستان میں امریکا اور دیگر بیرونی ممالک نے منتخب حکومت اور اس کے فورسز کی صلاحیتوں اور اس کی وسعتوں میں اضافے کی بہت کوششیں کیں تاہم ملک میں اس کا اثر و رسوخ اب بھی بہت کمزور ہے۔  بہت سے افراد کا خیال ہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد اور اس کی حمایت کے بغیر حکومت کا کنٹرول تقریباً ختم ہو جائے گا۔
افغانستان پر امریکی حملے کے تقریباً بیس برس کے دوران اکثر پر تشدد واقعات ہوتے رہے اور حالات کبھی بھی پوری طرح سے مستحکم نہیں ہو پائے۔ اس ماہ کو اوائل میں ہی ایک اسکول میں ہونے والے دھماکے میں تقریباً 90 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد پل عالم میں ہونے والے ایک اور دھماکے میں بھی ایک درجن سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان کئی مقامات پر لڑائیاں اور جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جس میں کئی مقامات پر طالبان نے فورسز کر پیچھے دھکیل دیا اور بعض کلیدی علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
بیرونی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی جس بڑے پیمانے پر تشدد میں اضافہ ہوا ہے اس سے لگتا ہے کہ طالبان ملک کے اہم علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔