سعودی عرب نے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال محدود کیا۔ اذان واقامت کے علاوہ امور پر عائد کی پابندی

وزیر برائے اسلامی امور شیخ ڈاکٹر عبداللطیف الشیخ نے کہا کہ ’’جو لوگ نماز پڑھنا چاہتے ہیں انھیں امام کی آواز کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں پہلے ہی مسجد پہنچنا چاہیے۔‘‘
مساجد کے باہر لگے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی تیز آواز سے تکلیف پہنچنے اور ذہنی انتشار پیدا ہونے کی شکایت پر مبنی خبریں ہندوستان کی کئی ریاستوں سے سامنے آ چکی ہیں، اور کئی مسجدوں کی کمیٹی کو اس سلسلے میں مقامی انتظامیہ کے ذریعہ متنبہ بھی کیا گیا اور لاؤڈاسپیکر ہٹانے تک کی کارروائی ہوئی۔ اب سعودی عرب میں مساجد کے باہری حصے میں لگے لاؤڈاسپیکر پر پابندی عائد کیے جانے کی خبر سے پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئی ہے۔ سعودی عرب میں بھی سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے سعودی حکومت کے اس فیصلے کی تنقید کی ہے۔
دراصل گزشتہ ہفتہ سعودی عرب کے اسلامی امور کی وزارت نے ایک سرکلر جاری کرتے ہوئے مساجد کے باہر لگے لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر کچھ معاملوں میں مکمل پابندی لگا دی، جب کہ کچھ معاملوں میں اس کی آواز ایک تہائی درجہ کم کرنے کو کہا گیا ہے۔ سرکلر میں کہا گیا ہے کہ مسجدوں کو صرف اذان اور اقامت کے لیے ہی لاؤڈاسپیکر کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ ایسا نہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی بات کی گئی۔ جب اس تعلق سے سوشل میڈیا پر ہنگامہ شروع ہوا تو اسلامی امور کے وزیر شیخ ڈاکٹر عبداللطیف الشیخ نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’کچھ لوگوں کی شکایت کے بعد مسجدوں میں لاؤڈاسپیکر کی آواز کم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لوگوں کی شکایت تھی کہ مساجد میں بجنے والے لاؤڈاسپیکرس کی وجہ سے بزرگوں اور بچوں کی نیند خراب ہو جاتی ہے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’جو لوگ نماز پڑھنا چاہتے ہیں انھیں امام کی آواز کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں پہلے ہی مسجد پہنچنا چاہیے۔‘‘

بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی امور کی وزارت نے لاؤڈاسپیکر کے آزادانہ استعمال پر روک کا فیصلہ ایک شریعہ قانون اور شیخ محمد بن صالح العثائمین اور صالح بن فاضان الفاضان کے فتویٰ کو بنیاد بنا کر کیا ہے۔ اس ہدایت کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ لاؤڈاسپیکرس کی اونچی آواز کسی کے لیے تکلیف دہ یا پریشان کن نہ ہو۔
واضح رہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے عوامی زندگی میں مذہب کے کردار کو لے کر کئی طرح کے اصلاحات کیے ہیں۔ انھوں نے کچھ سخت سماجی پابندیوں میں بھی نرمی دی ہے اور اس کی وجہ سے پوری دنیا میں ان کی تعریف ہو رہی ہے۔ مثلاً اب سعودی میں خواتین گاڑیاں چلا سکتی ہیں اور اسٹیڈیم میں تنہا جا کر فٹ بال کا میچ بھی دیکھ سکتی ہیں۔ مسجدوں میں لاؤڈاسپیکرس کے کم استعمال کے حکم کو بھی ایک اصلاحی قدم کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔