شام میں اسلام کا مستقبل

پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی

شام انبیاء کرام کی سرزمین کہلاتی ہے، قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مختلف حوالوں سے ملک شام کا تذکرہ موجود ہے ،اسے بابرکت، مقدس ،عظیم اور پرامن خطہ قرار دیا گیا ہے، حضرت ابراہیم اور لوط علیہما السلام نے اس ملک کی جانب ہجرت کی تھی، احادیث نبویہ میں بھی جگہ جگہ مختلف امور کے تحت ملک شام کا تذکرہ اور اس کے فضائل ومناقب کو بیان کیا گیاہے ۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اخیر زمانے میں حضر موت سے تم پر ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکھٹا کرے گی، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول!ایسے وقت میں آپ کا ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:شام کا رخ کرنا۔ (رواہ الترمذی وصححہ الألبانی) اور ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن حوالہؓ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تمہارے لشکر الگ الگ ہوجائیں گے۔ ایک لشکر شام میں ہوگا تو ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابن حوالہ نے کہا : یارسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں اس وقت کو پاؤں تو فرمائیے میں کس لشکر میں جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام اﷲتعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ ﷲ تعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا اگر تجھے یہ منظور نہ ہو تو پھر یمن کو اختیار کرنا اور اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا۔ ﷲ تعالیٰ نے میری خاطر ملک شام کی اور اہل شام کی کفالت فرمائی ہے۔ (أبوداود، رقم 2483) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شام سے متعلق وصیت فرماتے ہوئے فرمایا: تم سرزمین شام کو ( سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام ﷲ تعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ اﷲتعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا (رواہ أبو داود وأحمد، بسند صحیح) ایک اورحدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا ، جو اپنے دشمن پر غالب رہے گا، حتی کہ ان میں سے آخری شخص مسیح الدجال سے لڑائی کریگا۔ شام کی فضیلت وعظمت کے بارے میں اس طرح کی متعدد احادیث موجود ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل شام سے متعلق اس طرح فرمانا ان میں دائمی کثرت وقوت کے ہونے کی دلیل ہے، اہل شام کے علاوہ اسلام کی کسی زمین کے باشندوں میں یہ صفت بیان نہیں کی گئی، حالانکہ سرزمین حجاز ایمان کا اصل مرکز ہے، لیکن آخری زمانے میں وہاں بھی علم، ایمان، نصرت اور جہاد کم ہوجائے گا، یمن ، عراق اور مشرق میں بھی یہی صورتحال ہوگی،لیکن شام میں علم وایمان باقی رہے گا اور اس کے لیے لڑنے والوں کو ہر وقت تائید ونصرت حاصل رہے گی۔(مجموع الفتاوی (4/449)۔ اس ارض مقدس کے بارے میں واضح طور پر یہ فرمان خدا وندی بھی ہے کہ اس کے حقیقی وارث اہل اسلام اوراہل ایمان ہیں، اس پر حکومت کا حق مسلمانوں کا ہے ، قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے جس کا ترجمہ ہے ’’اور ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے۔ اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنا دیا، جس میں ہم نے برکت رکھی ہے‘‘۔
تاریخ میں جس خطے کو بلادِ شام کہا جاتا ہے حالیہ دنوں میں وہ چار حصوں میں تقسیم ہے سیریا، فلسطین، لبنان اور اردن۔ ساتویں صدی عیسوی سے قبل اس سرزمین پر رومیوں کی حکومت تھی پھر عیسائیوں کے زیر اقتدار یہ سرزمین آگئی، اہل فارس نے بھی بارہا حملہ کیا اور اسے اپنے زیر نگین کرکے قتل وغارت گری مچائی، طلوع اسلام کے بعد عالم اسلام کے مشہور جرنیل حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں اس سرزمین پر چڑھائی کی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں یہ معرکہ بہت تیز ہوگیا اور شام کے شہر یکے بعد دیگرے اسلامی خلافت کا حصہ بنتے گئے، یرموک کی آخری اور فیصلہ کن جنگ کے بعد مکمل طور پر یہ سرزمین اسلامی خلافت میں شامل ہوگئی جس میں حضرت ابو عبید بن جراحؓ چیف کمانڈر اور حضرت خالد بن ولیدؓ نائب کمانڈر تھے، اسلامی لشکر کے ہاتھوں یرموک کی فیصلہ کن شکست کے بعد سیزر ہریکولیس اپنا یہ تاریخی جملہ کہتا ہوا یہاں سے رخصت ہوا : ’’سلام تجھے اے ارض شام! اب کبھی تجھ سے ملاقات نہیں ہوسکے گی‘‘ ۔
اہل اسلام کو راثت میں دیا گیا یہ خطہ ایک مرتبہ پھر کافروں اور غیر مسلموں کے نرغے میں ہے ،دنیا کی دوبڑی طاقت اپنے مفاد کےلئے شام سمیت پورے مشرق وسطی میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کئے ہوئی ہے، شام کے تاریخی اور تجارتی شہر حلب سے ہزاروں باشندوں کو قتل، در بدر اور خواتین کی عصمت دری کرکے روس، ایران خوشیاں منارہے ہیں، عیسائی دنیا میں بھی سقوط حلب کے واقعہ کے بعد خوشیوں کے شادیانے بجائے جارہے ہیں، اس دوران حلب کی تباہی پر ہی نیو ایئر نائٹ منانے کیلئے شام جانے والا روس کا ایک فوجی طیارہ بحیرہ اسود میں گر کر تباہ ہوگیا ہے جس میں 64 فوجی ،9 صحافی سمیت 92 افراد ہلاک ہوگئے ، مسلمان اسے قدرت کی جانب سے خاموش انتقام کہ رہے ہیں۔
مشرق وسطی کے دیگر ملکوں میں امریکی بالادستی کو دیکھتے ہوئے روس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے شام پر تسلط قائم کرنے کی کوشش کی ہے ،لیکن روس اور امریکہ میں زیادہ فرق نہیں ہے، دونوں کا مشن اسلام مخالف اقدام ہے ،بشار الاسد کو 2011 میں عوامی احتجاج کے فوراً بعد ہی برخاست ہوجانا چاہئیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا، امریکہ نے لیبیا ،تیونس اور مصر پر توجہ دی، شام میں اقتدار کی تبدیلی کی کوئی فکر نہیں کی، بالآخر اب روس شام پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اس طرح ایک مرتبہ پھر وہ ملک اہل اسلام کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے جس کے حقیقی وارث مسلمان ہیں، جہاں حشر و نشر کا میدان قائم ہوگا، جہاں حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے۔ بشا را لاسد کے اقتدار کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے، روس او ر ایران کی کی مکمل حمایت حاصل رہے گی، امریکہ سے بھی کسی مداخلت کی توقع نہیں ہے کیوں کہ روسی صدر پیوٹن اور امریکی نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے آپسی قریبی تعلقات ہیں، ترکی بھی اس معاملے میں کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کرپائے گا کیوں کہ صدر اردگان کی اولین کوشش یہ ہوگی کہ امریکہ اور روس ’’ کردوں‘‘ کی امداد نہ کریں اور ان دونوں ممالک سے اس طرح کا تعاون لینے کیلئے وہ ان کے خلاف موقف اختیا کرکے بشار الاسد کے اقتدار کی تبدیلی کے حوالے سے کچھ نہیں کہ پائیں گے، سعودی عرب یمن کے مسائل میں خود بری طرح الجھا ہواہے، وہ باغیوں سے یمن کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے یہی بڑی کامیابی ہوگی، پاکستان، قطر، ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک اہل شام کی مالی امداد کرنے یا احتجاجی مظاہر ہ کرنے کے علاوہ کچھ اور کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں ،شام میں اسلام کی واپسی اور مسلم حکومت کے قیام کی جنگ لڑنا ان حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ہے ،، اقوام متحدہ دنیا کی سب سے بے بس اور کمزور تنظیم ہے، ٹرمپ کے بقول وہ وقت گزارنے کا ایک اچھا خاصا کلب ہے، شام میں موجود چھوٹی چھوٹی جہادی تنظیموں کی ہی جہد مسلسل اس سلسلے میں رنگ لائے گی جن کے بارے میں احادیث میں اشارے موجو د ہیں اور آج نہیں تو کل شام میں اسلام کی واپسی ہوگی،مسلمانوں کا غلبہ ہوگا (انشاء اللہ تعالی )
بہر حال روس کی مداخلت کے بعد شام پر بشارالاسد کا اقتدار مزید مستحکم ہوگیا ہے اور شیعہ حضرات اسے مسلکی جنگ سے جوڑتے ہوئے قتح مبین قرار دیکر دنیا بھر میں جشن منارہے ہیں لیکن دراصل یہ شام میں کافروں اور عیسائیوں کی فتح اور مسلمانوں کی شکست ہے، شیعہ۔ سنی جنگ کا نام دیکر بیرونی طاقتیں شام پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگئی ہیں، بقول ایک دانشور کے زمین شام کی استعمال ہوئی ہے، خون مسلمانوں کا بہا ہے، بدنامی اسلام کی ہوئی ہے او رفائدہ روس، امریکہ سمیت بیرونی طاقتوں کا ہواہے۔ (ملت ٹائمز)
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

 

SHARE