جرمن وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ طالبان کو باقاعدہ تسلیم کرنے پر غور کرنے کے بجائے موجودہ مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم قطر کا کہنا ہے کہ طالبان کو الگ تھلگ رکھنے سے افغانستان کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
قطر میں اپنے منصب سے ملاقات کے ساتھ ہی جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا افغانستان کے پڑوسی ممالک کا چار روزہ دورہ مکمل ہو گيا ہے۔ دوحہ میں جرمن وزیر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر، “سیاسی سطح پر ممکن ہو اور سکیورٹی کی صورت حال اس کی اجازت دے”، تو جرمنی کابل میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کو بھی تیار ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے منگل کی شام کو دوحہ میں تھے۔ قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبد الرحمان بن جاسم الثانی کے ساتھ بات چیت کے بعد انہوں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔
قطر کا موقف
اس موقع پر قطر کے وزیر خارجہ نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو الگ تھلگ رکھنے سے افغانستان کے مزید غیر مستحکم ہونے کا خطرہ ہے اس لیے سکیورٹی امور اور سماجی معاملات پر تشویش کے حوالے سے اس کے ساتھ بات چیت کرنا ضروری ہے۔
وزیر خارجہ محمد بن عبد الرحمان بن جاسم الثانی نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا، ” اگر ہم شرائط رکھنا شروع کریں گے اور ا ن کے ساتھ مذاکرات کو روک رہے ہیں تو پھر، ہم ایک خلا چھوڑنے والے ہیں اور سوال یہ ہے کہ پھر اس خلا کو پُر کون کرے گا؟”
امریکا کے اتحادی خلیجی ملک قطر نے طالبان کے ساتھ بات چيت اور انخلا کے معاہدے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ سن 2013 سے ہی دوحہ میں طالبان کا دفتر بھی ہے چنانچہ اس معاملے میں وہ ایک بڑا ثالث بن کر ابھرا ہے۔
طالبان نے 15 اگست کو ہی افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا اور اب تمام بیرونی افواج بھی ملک چھڑ کر جا چکی ہیں۔ تاہم دنیا کے کسی بھی ملک نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ بیشتر مغربی ممالک نے طالبان پر ایک مخلوط حکومت تشکیل دینے اور انسانی حقوق کا احترام کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔
قطری وویر خارجہ کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت تسلیم کرنا کوئی ترجیح نہیں ہے تاہم، “ہم سمجھتے ہیں کہ بات چیت کے بغیر ۔۔۔۔۔ سیکورٹی، سماجی اور معاشی محاذ پر کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔”
جرمنی کا موقف
اس کے جواب میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے قدر مبہم سے بیان میں کہا کہ انہیں طالبان سے بات چیت کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ تاہم انہوں نے بعض شرائط کے ساتھ بات چیت کرنے کی طرف اشارہ بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا، “ذاتی طور پر میرا یقین یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔۔۔۔۔ ہم کسی بھی طرح سے افغانستان میں عدم استحکام کے متحمل بھی نہیں ہو سکتے۔”
انہوں نے بعض شرائط کے ساتھ طالبان کے ساتھ بات چيت کی بھی بات کی اور کہا، “طالبان جو چاہیں مطالبہ کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے تقاضے بھی واضح ہیں کہ انسانی حقوق کے تحفظ، جو لوگ نکلنا چاہتے ہیں ان کے انخلا کی اجازت اور کسی بھی دہشت گرد گروہ کو افغانستان میں پناہ نہیں دیے جانے کی ضمانت ہونی چاہیے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، “ہم رسمی طور پر تسلیم کرنے سوالات کو نہیں دیکھ رہے، تاہم ہم افغانستان کے لوگوں، جرمن شہریوں اور مقامی عملے کے حوالے سے جو افراد ملک چھوڑنا چاہتے ہیں، ان موجودہ مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔”
اس سے قبل جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ کابل ایئر پورٹ کو کھلا رکھنا سب سے اہم بات ہے۔ مغربی ممالک ایسے مزید افغان شہریوں کو ملک سے باہر نکالنا چاہتے ہیں، جو ان کے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔
کابل ایئر پورٹ کون سنبھالے گا
اس دوران یہ کوششیں بھی جاری ہیں کہ فی الوقت کابل کا نظم نسق سنبھالنے کی ذمہ درای کس ملک کو سونپی جائے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کابل کا حامد کرزئی ایئر پورٹ کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اس لیے ایئر پورٹ کی حالت کافی خستہ ہے۔
طالبان نے اس سے قبل ترکی سے کہا تھا کہ وہ خود ایئر پورٹ کی سکیورٹی سنبھالیں گے جبکہ لوجیسٹک ترکی سنبھال سکتا ہے۔ تاہم ترک صدر طیب ایردوآن نے اس تجویز پر سر مہری کا اظہار کیا ہے۔ (ڈی ڈبلیو)