پاؤں تو رگڑئیے، چشمہ ضرور پھوٹے گا

قاسم سید

سیاست میں کچھ جملے ایسے ہیں جو ہرقسم کے سیاستداں کی زبان پر رہتے ہیں اور ضرورت کے مطابق ان کا استعمال ہوتاہے مثلاً سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔ ’قومی تقاضوں‘ کو ذہن میں رکھ کر ان کی تشریح کی جاتی رہی ہے جیسے ’قومی تقاضوں‘ کی مانگ پر ملائم سنگھ نے ساکشی مہاراج کو ممبر پارلیمنٹ بنایا اور بابری مسجد شہادت کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کی بےحرمتی میں ایک دن جیل کی سزا بھگت چکے کلیان سنگھ کی پارٹی سے اتحاد کیا اور ان کے بیٹے کو کابینہ میں لیا۔ کانگریس نے نظریاتی حریف لیفٹ سے عوام کی خواہش کے احترام میں دوستی کی اور مغربی بنگال میں ایک ساتھ الیکشن لڑا۔ وی پی سنگھ کی قیادت میں کانگریس کے خلاف بی جے پی اور لیفٹ مل گئے دونوں نے بیک وقت وی پی سنگھ سرکار کی حمایت کی جنتادل نے بی جے پی کو انتخابی اتحادی بنایا۔ قومی مفاد سے مجبور ہوکر ملائم سنگھ اور مایاوتی نے یوپی اے سرکار کو کاندھا لگایا۔ اور اب قومی تقاضوں کےآگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے بابری مسجد گرانے کی سازش کرنے والے اور بابری مسجد تحفظ کی خاطر سرکار قربان کرنے کا دعویٰ کرنے والے باہم شیروشکر ہونے کے امکانات تلاش کر رہے ہیں ۔ کانگریس کوزندگی بھر منھ بھر کر گالیاں دینے والے اور گالیاں کھانے والے دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی کا ثبوت دینے کی خاطر کڑواہٹ کو بھلاکر ایک دوسرے کے گلے میں باہیں ڈالنے کے لیے بےقرار ہیں یعنی ہندوستانی سیاست کی چمڑی بہت موٹی ہے۔ اصول، قانون ، روایت ،شرم وحیا، غیرت و خودداری، نظریات جیسے شریفانہ عناصر کہیں اس کے خمیر میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے دلتوں کے سابق مسیحا پاسوان سیکولرزم کی دہائی کے ساتھ واجپئی سرکار چھوڑدیتے ہیں اور ’قومی مفاد‘ میں مودی کادامن تھام لیتے ہیں۔ نتیش کمار سرکار چلانے کے لئے 17سال تک بی جے پی کا ہم پیالہ ہم نوالہ بن جاتے ہیں اور مودی سے ذاتی ٹکرائو کوسیکولرزم کاجامہ پہنا کر اپنے کٹرترین سیاسی حریف لالو کی لالٹین پکڑنے میں ذراسی بھی دیر نہیں کرتے پھراچانک ان پر انکشاف ہوتا ہےکہ بی جے پی توفرقہ پرست ہے اور جب لالو اپنا رنگ دکھاتے ہیں توپھر بی جے پی کے ساتھ گل بہیاں شروع ہوجاتی ہیں یعنی سیاسی ملائی کھانے اور اس ہانڈی پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے کوئی بھی چولاپہننے سے گریزنہیں ۔ ہر قیمت ادا کرنے کےلئے تیار اور نظریاتی ڈھکوسلوں کو الوداع کہنے کے لئے بے شرمی کی سرحد سے گزرنے کا حوصلہ۔ ایک اور لفظ ہے جس نے ہندوستانی سیاست کو بے توقیر اور مسخر ابنایا وہ ہے سیکولرزم سیاستداں، درزیوں کی طرح ہر ناپ کا لباس رکھتے ہیں اور کسی کوبھی پہنا دیا جاتا ہے لالو کے برادر نسبتی سادھو یادو نے ایک بار کہا تھا کہ ہندوستان میں سیکولرزم نام کی کوئی چڑیا نہیں ہے ۔ یہ دراصل سیاسی ضرورتوں کےنقد لین دین کے کام آتا ہے کل جو شخص فرقہ پرست تھا ضرورت ہوئی تو اس میں سیکولر ہونے کا ہر جوہر ڈھونڈ لیاجاتاہے اس لفظ کا جتنا مذاق اڑایا گیا ہے اور استحصال کیاہے اس نے اپنی شناخت کھودی ہے یہ صرف آئین کی کتاب میں محفوظ ہے لیکن عملی سیاست میں اس کی کوئی لکشمن ریکھا نہیں اسی لیے کانگریس اور بی جے پی نظریاتی حریف ہونے کے باوجود اپنے لیڈروں کو ادھرسے ادھر بھیجتی رہتی ہیں تاکہ پارٹی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایاجاسکے ۔ سنجے نروپم کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ ہوتے ہیں اور جگدمبیکاپال بی جے پی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑکر لوک سبھا پہنچتے ہیں ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں ورنہ نرسمہا راؤ اس بات کو یقینی کیسے بناتے کہ گیارہ بجے سے پانچ بجے تک بابری مسجد کی اینٹیں نکالی جاتی رہیں اور انتظامیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے۔ ملائی کھانے والوں میں اس بات پر غیر تحریر شدہ مفاہمت ہے کہ مظلوم طبقات اور اقلیتوں کو پیروں کی جوتی بناکر رکھا جائے۔ انہیں اقتدار میں شراکت دارانہ بنایا جائے البتہ وقتاً فوقتاً خیرات و مراعات کے ٹکڑے ضرور ڈالے جاتے ہیں تاکہ بے اطمینانی کی چنگاری انقلاب کی آگ میں تبدیل نہ ہوجائے لیکن ان کی گردنوں میں وفاداری پر استوار غلامی کا خود ضرور ڈال کر رکھا جائے۔ جس طرح انتخابی پارٹیوں میں پاسوان، اٹھاولے، ادت راج ،پونیا میرا کمار اور پرجاپتی وغیرہ جیسی علامتوں کو جگہ دے کر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ مظلوم طبقات کے نگہبان ہیں اسی طرح نمائشی مسلم چہروں کو آگے رکھ کر اس بات کامظاہرہ ہوتا ہے کہ آپ کا پورا خیال رکھاجارہا ہے ان کانام لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ علامتی چہرے پیادوں کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کی ہرپارٹی کی قیادت اعلیٰ طبقات کے ہاتھ میں ہے اور علاقائی جماعتوں کی زمام کار ذات پات کی سیاست کے فنکاروں نے سنبھال رکھی ہے۔ مظلوم طبقات کو ان کی حیثیت یاد دلانے کےلئے مظفرنگر، دادری اور اونا جیسے واقعات کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر کےاحساس دلایاجاتا ہے کہ اگر سر اٹھایا تو اس سے بھی برا انجام ہوگا۔ نچلی سطح پر بھی ایسی قیادت فریم کی جاتی ہے جو ان کےباڑے میں ہنکاکر لے جاتی ہے اور گلہ نگہبانی کا مقدس فریضہ انجام دینے والے اس کا محنتانہ وصول کرتے ہیں۔
اس بے درد، خود غرض ،بے اصول، بے رحم سیاست کاسب سے زیادہ اثر مسلمانوں پر پڑا سچرکمیٹی کی رپورٹ اس کی شاہد ہے اور آگے بھی یہ سلسلہ چلتا رہے گا اگر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے اور اپنی ضرورتوں کے مطابق سیاسی حکمت عملی نہیں بناتے ، فی الحال دور دور تک ایسے آثار نظر نہیں آتے کہ مسلمانوں یا ان کی بزرگ قابل احترام قیادت کو بے وزنی ،بے وقعتی اور رسیاسی طور پر صفر ہوجانے کا احساس ہو اور وہ اس کے لیے جرأت مندانہ قدم اٹھانے کے بارے میں سوچتے ہوں وہ صرف جائے پناہ ڈھونڈتے ہیں وحشی ہرن کی طرح ادھر سے ادھر قلانپچیں بھرتے ہیں مگر جاں بخشی پھر بھی نہیںہوتی۔ ہندوستانی سیاست نے ہمیں ناانصافی کے اتنے الیکٹرک شاک دیے ہیں کہ اب کچھ کر گزرنے اور اقتدار میں باعزت شراکت کے تصور سے بھی خوف کھاتے ہیں اور معاملہ صرف جاں بخشی تک آگیا ہے۔ یعنی جو جاں بخشی کاوعدہ کرے اسی کے ساتھ ہولیے جس نے نظر التفات ڈالی جان ودل ہار بیٹھے جس نے مسکرا کر دیکھا اس کی انگلی پکڑلی جس نے سبز خواب دکھائے اس کا دامن تھام لیا۔ اب پانچ ریاستوں میں انتخابات کا اعلان ہوگیا ہے ان میں اترپردیش سب سے اہم ہے کیونکہ یہاں مسلمانوں کی قابل ذکرآبادی ہے۔ مگر اس کی اکثریت اس الیکشن کی تاریخی اہمیت سے واقف نہیں ۔ البتہ خیر خواہان ملت نے فیلڈنگ سجانی شروع کردی ہے اور انہیں سماجوادی پارٹی میں باپ بیٹے کی لڑائی کا بڑا دکھ ہے ۔ ان کا بس چلے تو دونوں کو ایک جگہ بٹھاکر صلح کرادیں ایسا لگتا ہے کہ اگر ان میںاتحاد نہیں ہوا تو ملک وملت کا عظیم نقصان ہوگا۔ مسلمانوں کی لٹیا ڈوب جائے گی۔ ایک لیڈر اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ دھرنے پر بیٹھنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئےکہاجب تک دونوں کا ملن نہیں ہوگا وہ اٹھیں گے نہیں، یہ جذبہ قابل قدرہے اور اس وقت اور قابل قدر ہوتا جب مسلم مذہبی جماعتوں کے دھڑوں کو ایک کرنے کے لیے یہ عزم ظاہر کیاجاتا یہ جھگڑا اصولوں کا نہیں یا اقتدار کی بندر بانٹ کاہے۔ سماجوادی پارٹی بھی کیا کانگریس کلچر کی اسیر نہیں ہوگئی اور مسلمانوں کے تعلق سے صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلاتی ہے۔ کئی مسلم تنظیموں نے مظفرنگر فساد کے موقع پر بھی اس کاساتھ نہیں چھوڑا تھا مگراب وہ بھی کھل کر حمایت سے گریز کررہی ہیں۔ لیکن یہ مقام عبرت ہےکہ یاد و کم وبیش آٹھ فیصد اور سب کچھ ان کے پاس اور مسلمان 20فیصد ہے پھر بھی وہ حاشیہ پر ہے ۔ سماجوادی پارٹی کی سیاست نے یادو طبقہ کو اترپردیش کے طاقتور ترین سیاسی گروہ میں تبدیل کردیاہے اور یہ کوئی بری بات نہیں مگر یہ مسلمانوں کی قیمت پر ہوا ہمارے لیے دووعدے زندگی وموت کا سوال تھے۔ دہشت گردی کے الزام میں فرضی طریقہ سے گرفتار کئےگئے نوجوانوں کی باعزت رہائی کےاقدامات کے دوسرے تعلیم و ملازمت میں پسماندگی کی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزرویشن ،آج سماجوادی پارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے یہ تمام وعدے پورے کردیے کیا حامیان سماجوادی پارٹی میںاتنی جرأت ہے کہ وہ ان دونوں سوالوں کا جواب لیں۔ یقین جانیے اب بھی یہی پیغام آئے گا کہ بی جے پی کو ہرانے کے لئے سیکولر فورسز کو ووٹ دیجئے ہمارے اندر یہ طاقت نہیں کہ بی جے پی کو ہرا سکیں ایسا ہوتا تو وہ مرکز میں نہیں ہوتی ان سے یہ سوال کیوں نہیں کیا جاتا کہ اگر آپ واقعی بی جے پی کو ہرانا چاہتے ہیں تو باپ بیٹے ایک کیوں نہیں ہوجاتے ۔ سماجوادی پارٹی ، بی ایس پی اور کانگریس ایک پلیٹ فارم پر کیوںنہیں آجاتیں۔ یہ متحدہ امیدوار کیوں نہیں اتارتیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کو ہرانے کا نعرہ صرف ایک ڈھکوسلہ ہے اور کیاآپ میں اتنا دم ہے کہ ان تینوں کو ایک جگہ آنے کی وارننگ دیں۔ توبی جے پی کے لیے کارپٹ تو یہی پارٹیاں بچھاتی ہیں جو سیکولرزم کی مالا ہاتھ میں لیے رہتی ہیں ۔ہم ان کے منافقانہ جال میں پھنس کر گوانتا ناموبے کی تصویر بن جاتے ہیں۔ کبھی اپنے بارے میں بھی سوچیئے اور دل ٹٹول کر دیکھئےکہ اترپردیش کی اتنی بڑی آبادی کا ایک نمائندہ بھی لوک سبھاکیوں نہیں پہنچ سکا۔ ہم دینے والے کیسے بن سکتے ہیں۔ خود کو ہروقت مظلوم سمجھنے اور سمجھانے کی روش کوچھوڑ کر پراعتماد بننا ہوگا اور پھر جہاں پیر رگڑدیں گے چشمہ وہیں سے پھوٹے گا ۔
qasimsyed2008@gmail.com

SHARE