2016 میڈیا کی منفی رپورٹنگ کا سال

سہیل انجم

ہنگاموں سے بھرپور سال ۲۰۱۶ رخصت پذیر ہے۔ اس سال قومی و بین الاقوامی سطح پر جتنے ہنگامے رونما ہوئے ان کی مثالیں گزرے ہوئے سالوں میں مشکل سے ملیں گی۔ عہد حاضر میں ہنگاموں اور میڈیا کا آپس میں چولی دامن کا رشتہ ہے۔ میڈیا اپنی خصوصی توجہ سے کسی معمولی واقعہ کو بھی بہت بڑا بنا سکتا ہے اور اگر چاہے تو کسی بہت بڑے واقعہ کو بے توجہی کا نشانہ بنا کر اپنی موت آپ مرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ میڈیا کا کام کسی بھی واقعہ کو جوں کا توں قارئین و ناظرین کے سامنے پیش کر دینا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا یا اپنے مخصوص مفادات کے تحت کسی بھی معاملے میں رنگ آمیزی کرتا ہے تو وہ اپنے فرض منصبی سے ناانصافی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اگر ہم اس رخصت پذیر سال میں پیش آنے والے واقعات اور ان کے حوالے سے ہندوستانی میڈیا کے رویے کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ میڈیا نے بار بار اپنے فرائض سے روگردانی کی ہے۔ جمہوریت میں میڈیا کو ایک باوقار مقام حاصل ہے۔ اسے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے اس مقام کو بچائے رکھے اور اس پر عوام کا جو اعتبار ہے اس کو مجروح نہ ہونے دے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوا تو یہ بات نہ صرف میڈیا کے لیے بلکہ جمہوری اقدار کے لیے بھی انتہائی نقصاندہ ہوگی۔
اس سال کئی معاملات ایسے رہے جو قومی سطح پر چھائے رہے۔ جن میں گؤ رکشا کے نام پر ایک مخصوص طبقے کی غنڈہ گردی، دلتوں اور مسلمانوں پر مظالم کی وارداتیں، حیدرآباد یونیورسٹی کے ایک طالب علم روہت ویمولہ کی خودکشی، جے این یو میں طلبہ کے ایک پورگرام کے دوران مبینہ طور پر ہند مخالف یا آزادی کے حق میں نعرہ بازی، کشمیر میں نوجوانوں اور سیکورٹی فورسز کے مابین تصادم اور حالیہ دنوں میں نوٹ بندی کا معاملہ قابل ذکر واقعات رہے۔ اب ان واقعات کی ذرا تفصیل دیکھ لیتے ہیں۔ نام نہاد گؤ رکشکوں کے ذریعے دلتوں اور مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم اور خاص طور پر اونا میں چار دلتوں کی پٹائی اور جھارکھنڈ کے ایک گاؤں میں جانوروں کی تجارت کرنے والے دو مسلمانوں کو ہلاک کرکے ان کی لاشوں کو ایک درخت سے لٹکا دینے اور ہریانہ میں گؤ رکشکوں کے ذریعے بعض نوجوانوں کو گوبر کھانے اور گائے کا پیشاب پینے پر مجبور کرنے جیسے کئی واقعات رونما ہوئے اور ایسے بیشتر واقعات میں میڈیا کی رپورٹنگ کا انداز گؤ رکشکوں کی حمایت اور تائید والا رہا۔ میڈیا رپورٹوں سے یہی تاثر ملتا رہا کہ مسلمان اور دلت گائیں ذبح کرتے ہیں اور اس طرح ہندووں کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں۔ البتہ جب کوئی معاملہ بہت زیادہ اچھل جاتا تو رپورٹنگ کا انداز بدل جاتا۔ روہت ویمولہ کی خودکشی کے معاملے میں بیشتر نیوز چینل وہی کچھ دکھانے کی کوشش کرتے رہے جو اس وقت کی انسانی وسائل کی وزیر اسمرتی ایرانی چاہتی رہی ہیں۔ یہاں تک کہ نیوز چینل اس کھوج میں بھی لگے رہے کہ روہت ویمولہ دلت تھا یا نہیں۔ اس کی ماں کے بارے میں بھی ہتک آمیز رپورٹنگ کی جاتی رہی۔ جے این یو میں طلبہ کے ایک گروپ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے معاملے پر ایک پروگرام کیا جس میں آزادی کے حق میں نعرے لگائے گئے۔ لیکن آزادی کے یہ نعرے ہندوستان سے آزادی کے لیے نہیں بلکہ ظلم و زیادتی اور ناانصافی سے آزادی کے لیے لگائے گئے۔ ملک سے آزادی کا نعرہ تو اے بی وی پی والوں نے لگایا تھا۔ چونکہ اس معاملے میں حکومت کا رویہ طلبہ کے ساتھ دشمنی جیسا رہا اس لیے بعض نیوز چینل حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ایک چینل نے تو ایک فرضی ویڈیو چلا دیا۔ بعد میں وہ چینل بے نقاب ہوا لیکن اس نے اپنی اس حرکت پر معافی نہیں مانگی۔ طلبہ یونین کے صدر کنھیا کمار کی گرفتاری اور اس کے ساتھ عدالت میں مار پیٹ جیسے معاملوں میں بھی میڈیا کا رویہ یکطرفہ رہا۔ جے این یو کے ایک طالب علم نجیب کی پراسرار گمشدگی کے معاملے میں بھی میڈیا کا رویہ ہمدردانہ نہیں ہے۔ وہ اس معاملے کو اس طرح نہیں اٹھا رہا ہے جیسے کہ اسے اٹھانا چاہیے۔ حالانکہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور دہلی پولیس کی کئی ٹیمیں نجیب کی تلاش میں ہیں۔ وہ ابھی تک نہیں ملا ہے اور میڈیا اس معاملے پر کسی قدر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر گمشدہ طالب علم کا تعلق اے بی وی پی سے رہا ہوتا تو کیا اس وقت بھی میڈیا کا یہی رویہ ہوتا۔ اسی درمیان کشمیر میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا اور وہاں کے نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کا پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم ہوتا رہا اور کئی مہینے تک وہاں کرفیو نافذ رہا۔ ایک سو سے زائد ہلاک ہوئے۔ پیلٹ گنوں سے سیکڑوں نوجوان زخمی ہوئے اور بینائی سے محروم ہو گئے۔ دس ہزار سے زائد افراد کو چوٹیں آئیں جن میں سیکورٹی فورس کے جوان بھی شامل ہیں۔ اس دوران نیوز چینلوں کا رویہ بالکل یکطرفہ رہا۔ کچھ چینل حقائق کو پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن بیشتر منفی پورٹنگ کے جرم کا ارتکاب کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ وادی میں اپنے نمائندوں کو مجبور کرتے رہے کہ وہ کشمیری نوجوانوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کی خبریں دینے کے بجائے زخمی پولیس یا فوجی جوان کی رپورٹنگ کریں۔ میڈیا کی یکطرفہ رپورٹنگ نے وادی میں حالات کو خراب کرنے میں مدد دی۔ یہاں تک کہ رپورٹروں کا باہر نکلنا مشکل ہو گیا۔ صرف رپورٹروں کا نہیں بلکہ آئی اے ایس ٹاپر شاہ فیصل کا باہر نکلنا بھی مشکل ہو گیا۔ انھوں نے اخبار انڈین ایکسپریس میں اس حوالے سے ایک مضمون لکھا اور کئی چینلوں کے نام لے کر بتایا کہ وہ کیسے اپنی منفی رپورٹنگ سے آگ میں گھی ڈال رہے ہیں۔ وہ اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ ملازمت سے استعفیٰ دینے کی بات کرنے لگے۔
لیکن اس تاریکی میں روشنی کی کچھ کرنیں بھی نظر آئیں۔ جن میں سرفہرست این ڈی ٹی وی کے رویش کمار ہیں۔ جنھوں نے ایک مخصوص طبقے کے جبر کے آگے جھکنے اور حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کر دیا۔ وہ اپنی برادری کے رویے سے اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بھی نہیں بخشا اور اپنے ایک پروگرام کے دوران اپنے ٹی وی کا اسکرین سیاہ کرکے بتایا کہ آج میڈیا کی یہی صورت ہے۔ انھوں نے جس طرح حکومت اور اس کے حامیوں کو اپنے پروگراموں کے ذریعے بے نقاب کیا اس سے ان پر گھبراہٹ طاری ہو گئی اور بزور طاقت ان کی آواز دبانے کی کوشش کی جانے لگی۔ حکومت نے این ڈی ٹی وی کی نشریات پر ایک دن کے لیے پابندی عائد کر دی۔ لیکن این ڈی ٹی وی بھی نہیں جھکا۔ اس نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور بالآخر حکومت کو اپنا فیصلہ ملتوی کرنا پڑا۔ رویش کمار کی مانند وشو دیپک نے بھی صحافت کے وقار کو بچانے کی کوشش کی۔ انھوں نے زی نیوز سے اس لیے استعفیٰ دے دیا کہ ان پر فرضی اسٹوری کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا رہا۔ صرف یہی دونوں صحافی صحافت کا وقار بچانے کی کوشش میں مصروف نہیں رہے بلکہ اور بھی رہے ہیں جن میں کشمیر کے ایک صحافی نصیر احمد بھی شامل ہیں۔ وہ گزشتہ دو برسوں سے کشمیر میں آئی بی این سیون میں بیورو چیف رہے ہیں لیکن جب ان پر ایڈیٹروں کی جانب سے فرضی خبریں چلانے کا دباؤ ڈالا جانے لگا تو انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ انھوں نے اپنے استعفیٰ میں یہ بھی بتایا کہ ان کی کون کون سی رپورٹیں روک لی گئیں۔ نصیر احمد آئی بی این سیون میں آنے سے قبل ۱۶ برسوں تک زی نیوز کے بیورو چیف رہے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ ایماندارانہ صحافت کی تھی۔ حالیہ دنوں میں نوٹ بندی کے معاملے کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا کا ایک طبقہ یہ بتانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا فیصلہ کتنا صحیح ہے اور عوام کس طرح بڑھ چڑھ کر اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ طبقہ عوام کی مشکلات سے صرف نظر کرنے کے رویے پر گامزن ہے اور یکطرفہ رپورٹنگ کے ذریعے اپنے فرائض سے روگردانی کر رہا ہے۔ البتہ جب رویش کمار جیسے لوگ عوامی مشکلات کو سامنے لانے کے لیے میدان میں آگئے تو ان کو دھمکیاں دی جانے لگیں اور ان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ نام نہاد قوم پرستی کی مخالفت کرنے والے صحافیوں کو بعض صحافیوں کی جانب سے ہی ملک دشمن اور پاکستانی قرار دے کر ان کی ساکھ کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ بہر حال میڈیا کو چاہیے کہ وہ خود احتسابی کرے اور اپنے اندر مثبت تبدیلی پیدا کرے۔
sanjumdelhi@gmail.com

SHARE