پردہ ، مسلم خواتین اور کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ

نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم

 خواتین کو حقوق فراہم کرنا ، ان کی آزادی کو یقینی بنانا، مساوات اور ہر طرح کا تحفظ دینا ہر معاشرہ کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ اسلام اور قرآن کریم نے اس پر خصوصی توجہ دی ہے اور خواتین سے متعلق تمام طرح کے حقوق بیان کئے گئے ہیں ، مذہب اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب اور معاشرہ میں بھی خواتین کے حقوق ، ان کی آزادی اور عصمت وعفت کے تحفظ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ، حالاں کہ کئے سارے معاشرے ایسے بھی ہیں جہاں آج تک خواتین کو عزت و تحفظ حاصل نہیں ہے ، مساوات اور آزادی کے نام پر ان کا استحصال کیا جاتا ہے تاہم اسلام کے ساتھ کچھ اور معاشرہ میں بھی خواتین کو اہمیت دی گئی ہے جس میں بھارتیہ سنسکرتی بھی شامل ہے ۔ ہندوستان میں خواتین کی آزادی ، تحفظ ، مساوات اور بنیادی حقوق کی فراہمی کو ہمیشہ ضروری سمجھا گیا ہے ۔ آئین ہند میں بھی اس کا التزام موجود ہے کہ خواتین کو مکمل آزادی حاصل ہوگی ، انہیں برابری کا درجہ دیا جائے گا ، ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا ، انہیں ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا جائے گا یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں خواتین کے لئے علاحدہ کالجز اور اسکول قائم کئے جاتے ہیں ، لڑکیوں کے ہاسٹل اور لڑکوں کے ہاسٹل علاحدہ ہوتے ہیں ، چیک پوسٹ پر خواتین کیلئے پردہ کا اہتمام ہوتا ہے ، ٹرینوں، بسوں اور میٹرو میں خواتین کیلئے سیٹں ریزرو ہوتی ہیں ۔ اس طرح کے بہت سارے امور ہیں ۔ خواتین کے حقوق میں پردہ بھی شروع سے شامل ہے ۔ ہندوستان کی خواتین میں بنیادی طور پر پردہ پایا جاتا ہے ۔ خواہ وہ گھونگھٹ کی شکل میں یا آنچل کی شکل میں ۔ یہ دونوں بھارتیہ سنسکرتی کا حصہ ہیں ، خواتین اسے اپنی مرضی کے ساتھ اپناتی ہیں اور ہمارا آئین مکمل طور پر اس کی آزادی دیتا ہے ۔ یہاں کی صدیوں پرانی تہذیب بھی یہی بتاتی ہے کہ خواتین کو مکمل آزادی حاصل رہنی چاہیئے ۔ مسلم خواتین حجاب کا استعمال کرتی ہیں ۔ حجاب بھی ایک پردہ ہے لیکن مسلم خواتین کے پردہ اور دوسروں کے پردہ میں بنیادی طور پر فرق یہ ہے کہ مسلم خواتین کو ان کی شریعت نے پردہ کا حکم دیا ہے ۔ قرآن کریم میں مسلم خواتین کو لازمی طور پر پردہ اختیار کرنے کیلئے کہا گیا ہے ۔ پردہ مختلف قوموں اور علاقوں کی تہذیب کے ساتھ مسلم خواتین کیلئے حکم شریعت اور شعائر اسلام ہے جس کی اطاعت لازمی اور ضروری ہے ۔ ایک مسلم خاتون کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ پردہ اختیار کرے ، حجاب کا استعمال کرنا لازم اور ضروری ہے کیوں کہ یہ شعائر اسلام میں ہے ۔ اگر کوئی مسلمان خاتون حجاب استعمال نہیں کرتی ہے تو یقینی طور پر دیگر اعمال کی طرح اس معاملے میں بھی یوم آخرت میں ان سے مواخذہ ہوگا۔ بے پردگی پر سوال ہوگا لیکن کسی مسلم خاتون کا حجاب استعمال نہیں کرنا اس بات کیلئے نظیر نہیں بن سکتا ہے کہ حجاب اسلام کا بنیادی حصہ نہیں ہے ۔

کسی بھی مذہب میں کسی امر کے لازم اور ضرروی ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کام بندہ پر فرض ، واجب اور ضروری ہے جس کے کرنے پر ثواب ہوگا، نہیں کرنے پر مواخذہ ہوگا اور یہ ثواب اور مواخذہ کسی دنیا کے حکمرا ں کے سپرد نہیں ہے بلکہ خالق کائنات اللہ تعالی خود آخرت میں اس کا فیصلہ کریں گے، ہر کسی کو اس کے اعمال حسنہ اور اعمال سیہ کے مطابق جزاء اور سزا دیں گے ۔ دنیا میں کوئی کسی سے اس کے اعمال کے برابر میں باز پرس نہیں ہوگا ۔ یہ اسلامی عقیدہ ہے اور اسی کے مطابق پوری دنیا کے مسلمان عمل کرتے ہیں ۔ جس طرح نماز پڑھنا فرض ہے ، ایک مسلمان ہونے کا مطابق نماز کی ادائیگی ضروری ہے لیکن اگر کوئی مسلمان نماز نہیں پڑھتا ہے تو کل اس کے اس عمل کے مطابق اللہ تعالی کے یہاں سوال و جواب ہوگا کہ اس نے نماز کیوں نہیں پڑھی لیکن جو مسلمان نماز نہیں پڑھتے ہیں ان کے اس عمل کو نظیر نہیں بنایا جاسکتا کہ مسلمان نماز نہیں پڑھتے ہیں اس لئے اسے فرض اور لازمی حصہ نہیں مانا جاسکتا ہے ۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہ کسی مذہب کیلئے لازم ، ضروری اور فرض کی حیثیت کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ خود اس کے سماج میں بھی لازم ، ضروری اور فرض جیسی کوئی چیز ہو ۔ ہندوستان کے سماج میں لازم ، فرض جیسا کوئی تصور نہیں ہے ۔ ہندو سماج میں جو بھگوان کو مانتا ہے وہ بھی ہندو ہے جو نہیں مانتا ہے وہ بھی ہندو ہے ، جورام کو مانتاہے وہ بھی ہندو ہے جو رام کی جگہ کسی اور کو مانتا ہے وہ بھی ہندو ہے ۔ جو خاتون گھونگھٹ کرتی ہے وہ بھی ہندو ہے جو نہیں کرتی ہے اس سے بھی کوئی سوال نہیں ہوگا کہ اس نے ایسا کیوں نہیں کیا ۔ جو خاتون گھونگھٹ استعمال کرتی ہے وہ محض اس لئے کہ انہیں اچھا لگتا ہے، سماج کے لوگ اسے تہذیب اور شائستگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے ذہن میں ایسا نہیں ہوتا ہے کہ یہ بھگوان کا حکم ہے ، کرنے پر ثواب ہوگا نہیں کرنے پر گناہ ہوگا کوئی باز پرس کرے گا۔ لیکن ایک مسلمان خاتون پردہ کو ثواب اور دین کا ضروری حصہ سمجھ کرتی ہیں ۔ یہ بات ان کے یہاں ذہن نشیں ہوتی ہے کہ پردہ اسلامی کا لازمی امر ہے ۔ اس کا التزا م باعث اجر و ثواب ہے، جو مسلمان خواتین پردہ نہیں کرتی ہیں انہیں بھی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہمارا عمل اسلامی تعلیمات اور مذہبی احکامات کے خلاف ہے ، وہ پردہ کے لزوم کا انکار بھی نہیں کرتی ہیں اور یہی دلیل ہے کہ پردہ اسلامی کا لازمی بنیادی مذہبی حصہ ہے جس کی اجازت ہر مسلمان لڑکی اور خاتون کو ہر جگہ ہونی چاہیے ۔ کوئی مسلمان لڑکی حجاب استعمال کرنا چاہتی ہے تو اسے روکا نہیں جانا چاہیے ۔

بھارت کے آئین میں بھی مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے ۔ آئین کی دفعہ 15 میں یہ صراحت موجود ہے کہ تمام مذاہب کو ان کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی ۔ پردہ بھی اسلام کا مذہبی معاملہ ہے یہ کسی تہذیب اور سنسکرتی کا معاملہ نہیں ہے ۔ اس لئے ہر مسلمان خاتون کو پردہ کرنے ، حجاب استعمال کرنے اور برقع پہننے کی اجازت حاصل ہونی چاہیے ۔ کہیں پر بھی حجاب پر پابندی کا مطلب مذہبی آزادی کو روکنا ہے اور یہ آئین کی روح کے خلاف ہے ۔ خواتین کی آزادی کے بھی خلاف ہے ۔ ایک خاتون خود فیصلہ کرے گی کہ اسے کیا پہننا ہے اور کیا نہیں پہننا ہے ۔ آج کے دور میں آزادی نسواں کی تحریک چلائی جار ہی ہے کہ خواتین کو اپنی مرضی کا لباس پہننے دیا جائے ، اس پر کچھ تھوپا نہیں جاسکتا ہے اس کیلئے لباس طے نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کیسا کیا اور کون سا لباس پہنے ۔ جب بات خواتین کی آزادی اور اپنی مرضی کا لباس پہننے کی ہے تو ایک خاتون کو جہاں یہ حق حاصل ہے کہ وہ چھوٹا لباس پہنے ، مغربی ڈریس استعمال کرے وہیں یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ حجاب استعمال کرے ، برقع پہنے ۔ خواتین کی مرضی ہے جو چاہے پہنے لیکن یہاں مغربی لباس پہننے کو ہی صرف خواتین کی آزادی اور مرضی سمجھا جاتا ہے جو در اصل آزادی کے نام پر تنگ نظری اور مخصوص کلچر مسلط کرنے کی سازش ہے ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ اب عدالت شادی کے موقع پر لال رنگ کا جوڑا پہننے پر بھی دلہن کیلئے ممنوع قرار دیدے اور دلیل پیش کرتے ہوئے بتائے کہ کہیں سے بھی شادی کے موقع پر دلہن کیلئے لال رنگ کا جوڑا پہننا ضروری ثابت نہیں ہوتا ہے ، دوسرے رنگ کا لباس پہننے سے بھی شادی ہوجائے گی اس لئے لال رنگ کا جوڑا پہننے پر پابندی عائد کی جاتی ہے ۔

مذکورہ تفصیلات کے تناظر میں کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ مکمل طور پر بے بنیاد اور غلط ہے ، آئین کے خلاف ہے ، مذہبی آزای پر قد غن لگانے والا ہے ، خواتین کی آزادی سلب کرنے والا ہے اور کسی کے مذہب میں مداخلت ہے ۔ عدلیہ کی ذمہ داری فیصلہ سنانا اور مظلوموں کو انصاف فراہم کرناہے ۔ کسی کے مذہب کی تشریح نہیں ہے اور نہ ہی بتانے کا حق حاصل ہے کہ کون سی چیز مذہب میں ضروری ہے اور کون سی چیز نہیں ہے ۔ اسلام ایک جامع اور کامل مذہب اور مکمل دین ہے ۔ تمام امور طے شدہ ہیں کہ کیا لازم ہے اور کیا نہیں ہے ۔ اسلام ایک دائمی مذہب ہے جو ہمیشہ کیلئے ہے ،اس لئے عدلیہ کی حجاب کے تعلق سے تشریح سراسر غلط ہے اور صرف ہندوستان نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو تکلیف پہونچانے والا ہے ۔کرناٹک ہائی کورٹ کی شبیہ بھی خراب ہورہی ہے اور عدلیہ پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں ۔ کیرالا ہائی کورٹ کا فیصلہ سال 2016 میں حجاب کے حق میں ہے ۔ اس لئے کرناٹک ہائی کورٹ کو چاہیے کہ وہ از خود اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرکے صحیح فیصلہ سنائے اور اسلام کا لازمی حصہ ہے یا نہیں اس بحث کو فیصلہ سے حذف کرے کیوں کہ حجاب مذہب اسلامی کا لازمی امر ہے ۔ چودہ سو سالوں سے لگاتار عالم اسلام اور دنیا بھر کی خواتین حجاب استعمال کرتی ہوئی آرہی ہیں ، حجاب میں خواتین کو عزت و عصمت کا تحفظ بھی محسوس ہوتا ہے ، ماضی بعید سے لیکر آج کے جدید دور میں بھی باحجاب خواتین دنیا کے ہر میدان میں کامیابی کا علم بھی لہرا رہی ہیں ۔ باحجاب خواتین کسی بھی شعبہ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ حجاب کی وجہ سے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے جذبات بھی مجروح نہیں ہوتے ہیں ، ملک کی ترقی میں بھی کسی طرح کی روکاٹ نہیں ہے ، بھارتیہ سنسکرتی کے بھی موافق ہے ۔ مذہب اسلام کا لازمی حکم اور باعث ثواب ہے ان سب کے باوجود مسلم لڑکیوں کو حجاب سے روکنے اور پردہ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیسے اور کیوں درست ہوسکتا ہے؟ ۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com