یوم مزدور کے موقع پر دنیا بھر کے محنت کشوں نے اپنی حکومتوں سے عدم اطمینان کا اظہار کرنے کے لیے ریلیوں کا اہتمام کیا۔ ترکی میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں، جبکہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں تشدد بھڑک اٹھا۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں یکم مئی اتوار کو ‘یوم مزدور کے موقع پر، زبردست احتجاجی مارچ کے دوران پر تشدد جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مظاہرین حال ہی میں دوبارہ منتخب ہونے والے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
زیادہ تر مظاہرین پرامن تھے، تاہم راستے میں دو مقامات پر تشدد پھوٹ پڑا۔ پولیس نے اس وقت مداخلت کی جب ”بلیک بلاک” نامی گروپ کے بعض انتشار پسندوں نے پیرس کے لا ریپبلک اسکوائر کے قریب رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی۔ اس ہنگامے میں مقامی دکانوں کی کھڑکیاں ٹوٹنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
فرانس کے متعدد شہروں میں تقریباً 250 بڑی ریلیاں نکالی گئیں، جن میں للی، نانٹیس، ٹولوز اور مارسیل جیسے معروف شہر شامل ہیں۔ صدر میکرون کو اپنے بعض ان منصوبوں کے خلاف سخت مزاحمت کا سامنا ہے، جسے بائیں بازو کے کچھ مخالفین مزدوروں کے خلاف اور تاجروں کی حمایت میں قرار دیتے ہیں۔
صدر کی تازہ پالیسیوں میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو 65 برس تک بڑھا دینا بھی شامل ہے، جس کا ایک بڑا طبقہ مخالف ہے۔ زندگی کی لاگت اور یومیہ اخراجات کا بحران بھی اس احتجاج کا ایک بڑا موضوع تھا، جس میں وقت کے ساتھ بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ کے صدارتی انتخابی مہم کا بھی یہ ایک اہم موضوع تھا۔
فرانسیسی صدر نے گزشتہ اتوار کو ہونے والے رن آف ووٹ میں انتہائی دائیں بازو کی مقبول ترین حریف مارین لی پین کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی اور پانچ برس کی نئی مدت کے لیے صدر منتخب ہوئے۔
استنبول میں متعدد افراد کی گرفتاریاں
یوم مزدور کے موقع پر ترکی میں بھی ریلیوں کا اہتمام کیا گیا، جہاں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور تقریباً 160 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ بعض تصاویر میں مظاہرین کو زمین پر پٹکنے اور ریلی سے دور گھسیٹتے ہوئے لے جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
استنبول کے گورنر کے دفتر نے ان مظاہروں پر پابندی کا فرمان جاری کیا تھا تاہم اس کے باوجود بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مارچ میں شریک ہجوم کی طرف سے ”یوم مئی زندہ باد” اور ”مزدور اور آزادی” زندہ باد جیسے نعرے بلند کیے جا رہے تھے۔
تاہم جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب مظاہرین نے مرکزی ‘تقسیم اسکوائر’ تک جب پہنچنے کی کوشش کی۔
تقسیم اسکوائر نامی چوک ترکی کے یوم مئی کی ریلیوں میں خاص طور پر اہم ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سن 1977 میں سنائپرز نے تقریباً پانچ لاکھ افراد پر مشتمل ایک مارچ پر فائرنگ کی تھی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس حملے کے پیچھے کون تھا، جس میں 34 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
یونان سے سری لنکا تک احتجاجی مظاہرے
ترکی کے ہمسایہ ملک یونان میں بھی یوم مزدور کے موقع پر کارکنوں نے خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف ریلیاں نکالیں اور مظاہرہ کیا۔ اس کی وجہ سے میٹرو ٹرینیں رک گئیں
اور بحری جہاز بندرگاہوں پر ہی کھڑے رہے۔
پولیس حکام کے مطابق تقریباً 10,000 افراد نے مہنگائی کے خلاف بطور احتجاج ایتھنز کے وسط میں مارچ کیا۔
یونان ایک دہائی کے مالی بحران کے بعد 2018 میں پھر سے ابھرنا شروع ہوا تھا، تاہم دو سال بعد ہی اسے کورونا وائرس کی وبا کا سامنا کرنا پڑا۔ سفر اور دیگر پابندیوں نے ملک کی سیاحتی صنعت کو بری طرح متاثر کیا ہے، جو یونانی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔
ادھر سری لنکا میں یوم مئی کے موقع پر حزب اختلاف نے متحدہ طور پر احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیا اور صدر گوٹا بایا راجا پکسے پر زور دیا کہ وہ ملک کے بدترین معاشی بحران کی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔
اس موقع پر دارالحکومت کولمبو میں دسیوں ہزار افراد نے مارچ کیا، جہاں گزشتہ تین ہفتوں سے صدر راجا پکسے کی رہائش گاہ کے باہر ہونے والے مظاہروں کے سبب وہ اپنے گھر کے اندر ہی رہنے پر مجبور ہیں۔
سری لنکا کی معیشت کو کورونا کی وبا کے علاوہ حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں کٹوتیوں کی وجہ سے بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔ تقریباً سوا دو کروڑ کی آبادی والے ملک میں نقدی کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں اور ملک ایندھن، خوراک اور ادویات کی درآمدات کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
(بشکریہ قومی ڈی ڈبلیو)