مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
انسان اپنی تمام ضروریات اپنے آپ پوری نہیں کرسکتا ، اسے اپنی خواہش ، اپنی ضرورت اور اپنا مدعا دوسروں تک پہنچنانا پڑتا ہے ، پہنچانے کے عمل کو ’ ابلاغ ‘ کہتے ہیں ، ابلاغ کے لئے انسان کو دو قدرتی ذرائع مہیا کئے گئے ہیں ، ایک : زبان ، جس کے ذریعہ آپ قریب کے لوگوں تک اپنی بات پہنچاسکتے ہیں ، دوسرے : قلم ، جس کے ذریعہ آپ کوئی بات لکھ سکتے ہیں اور اسے کسی ذریعہ سے دوسروں تک پہنچاسکتے ہیں ، ابلاغ کے یہ دو ذرائع شروع سے استعمال ہوتے رہے ہیں ، قرآن مجید میں انبیاء کی دعوت کا ذکر آیا ہے ، وہ قوم کو اپنی بات سمجھانے کے لئے زبانی تخاطب کا طریقہ استعمال کیا کرتے تھے ، تحریر کے ذریعہ دور تک اپنی بات پہنچانے کی مثال بھی قرآن مجید میں موجود ہے ؛ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا بلقیس کو خط ہی کے ذریعہ اپنا پیغام پہنچایا تھا اور ایک پرندہ نے نامہ بر کا فریضہ انجام دیا تھا ۔ ( النحل : ۲۹)
جب کوئی عمومی دعوت و مشن ہو تو اس کے لئے ایسا ذریعہ استعمال کرنا جو ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جائے ، رسول اللہ ا کی سنت ہے ، مکہ میں پہلے سے یہ طریقہ آرہا تھا کہ جب بیک وقت تمام اہل مکہ کو کوئی اہم خبر پہنچانی ہوتی تو صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر اعلان کیا جاتا ، تمام لوگ پہاڑی کے دامن میں جمع ہوجاتے اور کہنے والا اپنی بات کہتا ، رسول اللہ اجب نبوت سے سرفراز کئے گئے ، تو آپ نے اہل مکہ تک دعوت توحید پہنچانے کے لئے اسی قدیم ذریعہ ابلاغ کو اختیار کیا ؛ البتہ اس میں جو بعض غیر اخلاقی طریقے شامل کرلئے جاتے تھے ، جیسے : شدت مصیبت کے اظہار کے لئے سروں پر خاک اڑانا ، یا بے لباس ہوجانا ، آپ انے اس سے اجتناب فرمایا ۔
پورے جزیرۃ العرب تک اپنی بات پہنچانے کا ذریعہ مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات میں منعقد ہونے والے حج اور تجارتی اجتماعات تھے ، حج میں تو پورے عرب سے لوگ کھنچ کھنچ کے آتے ہی تھے ، اس کے علاوہ عکاظ اور ذوالمجاز وغیرہ کے میلے بھی لگتے تھے ، ان اجتماعات میں جو بات کہی جاتی ، جو تقریریں کی جاتیں اور جو اشعار پیش کئے جاتے ، پورے عرب میں اس کی گونج سنی جاتی اور لوگوں میں اس کا خوب چرچا ہوتا ، پوری سرزمین عرب تک اپنی بات پہنچانے کا اس سے مؤثر کوئی اور ذریعہ نہیں تھا ؛ حالاں کہ ان میلوں میں یہاں تک کہ حج میں بھی بہت سی منکرات شامل ہوا کرتی تھیں ؛ لیکن آپ انے مفاسد سے بچتے ہوئے دعوت اسلام کو عرب کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے اس موقع کا بھرپور استعمال فرمایا ، یہی چیز حضرت ابوذر غفاریؓ وغیرہ کے دامن اسلام میں آنے کا ذریعہ بنا ، اور یہیں سے اسلام کی کرن مدینہ کی سرزمین تک پہنچی اورایک آفتاب عالم تاب بن کر پورے عالم پر درخشاں ہوئی ۔
لیکن ابھی عرب سے باہر اسلام کو پہنچانے کا مرحلہ باقی تھا اور اس کے لئے خط و کتابت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا ؛ چنانچہ ہجرت کے چھٹے سال جب اہل مکہ سے صلح ہوگئی ، جو ’ صلح حدیبیہ ‘ کے نام سے جانی جاتی ہے اور اہل مکہ کی یلغارِ مسلسل سے مسلمانوں کو کچھ اطمینان ہوا تو آپ انے پہلا کام یہی کیا کہ عرب کے گرد و پیش موجود بڑی طاقتوں اور اس وقت کی معلوم دنیا کے حکمرانوں تک دعوتی خطوط بھیجے ، حدیث کی متداول کتابوں میں تو چھ فرماں رواؤں کے نام خطوط کا ذکر ملتا ہے ؛ لیکن دنیائے تحقیق کے تاجدار ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحبؒ کے بقول ان کی تعداد بہت زیادہ تھی ، یہاں تک کہ چین تک یہ دعوت پہنچائی گئی ، گویا آپ انے دور دراز علاقوں تک پیغام حق پہنچانے کے لئے پوری وسعت کے ساتھ اس ذریعۂ ابلاغ کا استعمال فرمایا ۔
کائنات میں ارتقاء کا عمل جاری ہے ، ہر صبح جب طلوع ہوتی ہے تو اپنے جلو میں ترقی کا ایک نیا پیغام لے کر آتی ہے اور ہر شب جب کائنات کی فضاء پر چھاتی ہے تو وہ کسی نئی حقیقت سے پردہ اُٹھانے کا مژدہ سناتی ہے ، ترقی کا یہ سفر جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری ہے ، اسی طرح ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی پوری قوت اور تیز گامی کے ساتھ جاری و ساری ہے ؛ بلکہ اس میدان میں ٹکنالوجی کی ترقی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے مقابلہ زیادہ تیز ہے ، ہم لوگوں نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ اس وقت ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈ ہی بہت بڑی چیز تھی اور فون وٹیلی گرام کو حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ؛ لیکن آج اگر کوئی شخص ان ایجادات کو حیرت و رشک کی نظر سے دیکھے تو بچے بھی اس پر ہنسیں گے ؛ چنانچہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے دُور دُور تک اپنی بات پہنچانے کو آسان کردیا اور اس کی رفتار ہوا کی رفتار سے بھی بڑھ گئی ، افسوس کہ مسلمان ان تمام مرحلوں میں مسلسل پسماندگی کا شکار رہے ، ہم ترقی کے قافلہ کا سالار بننے کی بجائے اس قافلہ میں شامل آخری فرد بھی نہ بن سکے اور گرد کارواں بننے ہی کو اپنے لئے بڑی نعمت سمجھا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر عالمی اعتبار سے یہودی حاوی ہوگئے وطن عزیز ہندوستان میں فرقہ پرستوں کا بول بالا ہوگیا ، اور میڈیا کے ہتھیار سے ہمارے ملی مفادات ، تہذیبی اقدار ، قومی وقار اور دینی افکار کا اس طرح قتل کیا گیا کہ شاید توپ اور ٹینک کے گولوں اور فائیٹر جہازوں کی طرف سے ہونے والی آگ کی برسات بھی ہمیں اس درجہ نقصان نہیں پہنچا پاتی : ’’ فیا اسفاہ ویا عجباہ‘‘ !
ادھر بیس سے پچیس سال کے درمیان ابلاغ کے ایسے ذرائع عام ہوئے ، جن کو ’ سوشل میڈیا ‘ کہا جاتا ہے ، اس کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس پر اب تک حکومت یا کسی خاص گروہ کی اجارہ داری نہیں ہے ، خدا کرے یہ صورت حال باقی رہے ، اس میں خاصا تنوع بھی ہے ، جس میں واٹس اپ ، فیس بک ، یوٹیوب ، ٹیوٹر ، اسکائپ وغیرہ شامل ہیں ؛ لیکن یہ ایک بہتا ہوا سمندر ہے ، جس میں ہیرے اور موتی بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور خس و خاشاک بھی ، اس میں صاف شفاف پانی بھی اُنڈیلا جاسکتا ہے اور گندہ بدبودار فُضلہ بھی ، اس سے دینی ، اخلاقی اور تعلیمی نقطۂ نظر سے مفید چیزیں بھی پہنچائی جاسکتی ہیں اور انسانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والی چیزیں بھی ، دوسری طرف اس کا اثر اتنا وسیع ہوچکا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا نفوذ اس درجہ کا ہے کہ اس کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے ؛ اس لئے اگرچہ بہت سے لوگوں نے خلوص اور بہتر جذبہ کے ساتھ اس کو روکنے کی کوشش کی ؛ لیکن بالآخر انھیں اس کی سرکش موجوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑا ؛ اس لئے اب ہمیں اس ذریعہ ابلاغ کے مثبت اور منفی اور مفید و نقصاندہ پہلو کا تجزیہ کرنا چاہئے اور اس سلسلہ میں تمام مسلمانوں اور خاص کر ملت کی نوجوان نسل کی رہنمائی کرنی چاہئے ۔
* سوشل میڈیا کے جو منفی اور نقصاندہ پہلو ہیں،وہ یہ ہیں :
(۱) یہ جھوٹی خبریں پھیلانے کا ایک بڑا نیٹ ورک بن گیا ہے اور اکثر بہت سی باتیں کسی تحقیق کے بغیر اس میں ڈال دی جاتی ہیں ؛ کیوں کہ اس پر حکومت یا کسی ذمہ دار ادارہ کی گرفت نہیں ہے ،جب کہ اسلام نے ہمیں جھوٹ تو جھوٹ ؛ ہر سنی ہوئی بات نقل کردینے اور بلا تحقیق کسی بات کو آگے بڑھانے سے بھی منع کیا ہے ۔ ( حجرات : ۶)
(۲) عام جھوٹی خبروں کے علاوہ یہ لوگوں کی غیبت کرنے ، ان کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنے ، یہاں تک کہ لوگوں پر بہتان تراشی اورتہمت اندازی کے لئے بھی وسیلہ بن گیا ہے اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب کسی اچھے آدمی کے بارے میں کوئی بُری بات کہی جائے ، خواہ وہ بات کتنی ہی ناقابل اعتبار ہو تو لوگ اس کا آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں ، جس کی کھلی مثال رسول اللہ اکے زمانہ میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر تہمت کا واقعہ ہے ، جو خود عہد نبوی میں پیش آیا اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی منافقین کے اس سازشی پروپیگنڈہ سے متاثر ہوگئے ۔
(۳) اس ذریعہ ابلاغ کو نفرت کی آگ لگانے اور تفرقہ پیدا کرنے کے لئے بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے ، فرقہ پرست عناصر تو یہ حرکت کرتے ہی ہیں ؛ لیکن خود مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات کو بڑھاوا دینے میں اس کا بڑا اہم رول رہا ہے ، اس میڈیا پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانیت دشمن جذباتی مقررین کی تقریریں بھی موجود ہیں اور مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان مناظروں کی شرمناک محفلیں بھی ، جو بہت تیزی سے باہمی نفرت کو جنم دیتی اور فساد کی آگ بھڑکاتی ہیں ۔
(۴) اس میڈیا کا دہشت گردی اور تشدد کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے اور استعمال کرنے والوں میں مختلف مذاہب کے خود ساختہ نمائندے شامل ہیں ، جنھوں نے لوگوں کی نگاہوں میں دُھول جھونکنے کے لئے مذہب کا مقدس لباس پہن رکھا ہے ۔
(۵) اس ذریعہ ابلاغ کا سب سے منفی پہلو ’ فحشاء ‘ کی اشاعت اور بے حیائی کی تبلیغ ہے ، جو چیز انسان کو اپنے خلوت کدہ میں گوارہ نہیں ہوسکتی ، وہ یہاں ہر عام و خاص کے سامنے ہے ، یہ اخلاقی اقدار کے لئے تباہ کن اور شرم و حیاء کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں ، اور افسوس کہ حکومتیں ایسی سائٹوں کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتیں ، ورنہ سماج بے حیائی کے اس سیلاب بلاخیز سے بچ سکتا تھا ۔
* ان منفی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کے بہت سے مثبت اور مفید پہلو بھی ہیں اور اس کا صحیح استعمال کرکے اسلامی اور انسانی نقطۂ نظر سے بہت سے اچھے کام کئے جاسکتے ہیں ، جن کا تذکرہ مناسب ہوگا :
(۱) بچوں ، جوانوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور عام مسلمانوں میں ان کی ضرورت کے لحاظ سے دین کی تعلیم واشاعت اور اخلاقی تربیت کے لئے اس کو آسانی کے ساتھ بہت مؤثر طریقہ پر استعمال کیا جاسکتا ۔
(۲) اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں اور زیادہ تر اسی راستہ سے کی جاتی ہیں ، اسی میڈیا سے ان کا مؤثر طورپر رد کیا جاسکتا ہے ۔
(۳) تعلیم کے لئے اب یہ ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے اور جیسے ایک طالب علم کلاس روم میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتا ہے ، یا اپنے ٹیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کلاس روم کی کمی کو پورا کرتا ہے ؛ اسی طرح وہ اس ذریعہ ابلاغ سے بھی علم حاصل کرسکتا اور اپنی صلاحیت کو پروان چڑھاسکتا ہے ، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کو ردہ دیہات میں بیٹھے ہوئے طالب علم کے لئے بھی اس کے ذریعہ مشرق و مغرب کے ماہر ترین اساتذہ سے کسبِ فیض کرنا ممکن ہے ، ایسے تعلیمی مفادات کے لئے اس ذریعہ سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
(۴) صحت و علاج کے شعبہ میں بھی اس سے مدد لی جاسکتی ہے ؛ بلکہ لی جارہی ہے ، اس کے ذریعہ ماہر ترین معالجین سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ، یہاں تک کہ ہندوستان میں ایک ڈاکٹر آپریشن کرتے ہوئے امریکہ کے کسی ڈاکٹر کے مشورہ سے مستفید ہوسکتا ہے ۔
(۵) موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا نیز نیشنل اور انٹر نیشنل الیکٹرانک میڈیا جھوٹی خبریں بنانے اور پھیلانے ، نیز سچی خبروں کو دبانے اور چھُپانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں لگا ہوا ہے اور نہایت مہارت کے ساتھ مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بناکر پیش کررہا ہے ، ان حالات میں سوشل میڈیا کے ذریعہ سچائی کو پیش کرنے اور جھوٹ کی قلعی کھولنے کی اہم خدمت انجام دی جاسکتی ہے ؛ چنانچہ عالمی وملکی سطح پر کئی واقعات ایسے ہیں، جن میں سوشل میڈیا کی حقیقت بیانی نے ظالموں اور دروغ گویوں کو شرمندہ کیا ہے ۔
* ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کا اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کی مضرتوں سے نئی نسل کو بچایا جائے ؛ کیوں کہ جن چیزوں میں نفع اور نقصان دونوں پہلو ہوں ، اور اس ذریعہ کو بالکل ختم کردینا ممکن نہ ہو تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے لئے یہی حکم ہے کہ اس کو مفید طریقہ پر استعمال کیا جائے اور نقصاندہ پہلوؤں سے بچا جائے ، جس چاقو سے کسی جانور کو حلال طریقہ پر ذبح کیا جاسکتا ہے اور کسی بیمار کو نشتر لگایا جاسکتا ہے ، وہی چاقو کسی بے قصور کے سینہ میں پیوست بھی کیا جاسکتا ہے ، تو ہمارے لئے یہی راستہ ہے کہ ہم چاقو کے صحیح استعمال کی تربیت کریں۔
اس پہلو سے سوشل میڈیا میں جن باتوں سے نئی نسل کو بچانے کی ضرورت ہے ، ان میں چند اہم نکات یہ ہیں :
(۱) چھوٹے بچوں کو جہاں تک ممکن ہو ، اس سے دُور رکھا جائے ؛ تاکہ ان کی پہنچ ایسی تصویروں تک نہ ہوجائے ، جو ان کے ذہن کو پراگندہ کردے ، یا قتل و ظلم کے مناظر دیکھ کر ان میں مجرمانہ سوچ پیدا ہوجائے ۔
(۲) طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو تعلیمی اور تعمیری مقاصد کے لئے ایک مختصر وقت ان ذرائع سے استفادہ کے لئے مخصوص کرلینا چاہئے ؛ کیوں کہ اس کا بہت زیادہ استعمال انسان کو وقت ضائع کرنے کا عادی بنادیتا ہے اور پیغامات کی تسلسل کی وجہ سے وہ بعض اچھی چیزوں کو بھی اتنی دیر تک دیکھنے کا خوگر ہوجاتا ہے کہ اصل کام سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے ، یہ بھی ایک طرح کا لہو و لعب ہے جس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ صحت کے نقطۂ نظر سے بھی نہایت نقصاندہ ہے ۔
(۳) جو عمل عام حالات میں جائز نہیں ہے ، وہ ان ذرائع کے ذریعہ بھی جائز نہیں ہے ، جیسے : جھوٹ ، بہتان تراشی ، لوگوں کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنا ، مذاق اُڑانا ، سب و شتم کے الفاظ لکھنا یا کہنا ، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان سے بچنا شرعی فریضہ ہے ۔
(۴) ایسی خبریں لکھنا یا ان کو آگے بڑھانا جن سے اختلاف بڑھ سکتا ہے ، جائز نہیں ہے ، اگرچہ کہ وہ سچائی پر مبنی ہوں ؛ اس لئے کہ جو سچ مسلمانوں کے دلوں کو پارہ پارہ کرتا ہو اور انسان اور انسان کے درمیان نفرت کی بیج بوتا ہو ، اس سے وہ جھوٹ بہتر ہے ، جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور اختلاف کو اتحاد سے بدلنے کا کردار ادا کرسکے ۔
(۵) ایسی چیزیں دیکھنا ، دِکھانا ، لکھنا اور پڑھنا ، سب کا سب حرام ہے ، جو فحشاء اور بے حیائی کے دائرہ میں آتا ہو ، خواہ وہ تصویر کی شکل میں ہو یا آواز کی ، تحریر کی شکل میں ہو یا کارٹون کی ، شعر کی شکل میں ہو یا لطیفہ کی ، ان سے اپنی حفاظت کرنا اس دور میں نوجوانوں کے لئے بہت بڑا جہاد اور ایک عظیم عبادت ہے ۔
(۶) سوشل میڈیا پر اسلام اور پیغمبر اسلام ، مسلمانوں کی تاریخ اور مقدس مقامات وشخصیات کے بارے میں ایسی نازیبا باتیں بھی آجاتی ہیں ، جو بجا طورپر نوجوان تو کیا ہر مسلمان کے خون کو گرمادینے اور دل کو کَھولادینے کے لئے کافی ہیں ؛ لیکن اس کے باوجود ہمیں صبر ، سنجیدگی اورمتانت سے کام لینا چاہئے اور ایسے جذباتی ردعمل کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ، جو نفرت کو بڑھانے والا ہو ، اگر ناشائستہ باتو ں پر اس طرح کے کومنٹ(Comment) کئے گئے تو جو لوگ اسلام ، امن اور انسانیت کے دشمن ہیں ، ان کا مقصد پورا ہوجائے گا ، اس کی بجائے علم کی روشنی میں مدلل اور سنجیدہ طریقہ پر ان کا جواب دینا اور ان کی بات پر ریمارک کرنا چاہئے؛ کیوں کہ جذبات و اشتعال سے وہ لوگ کام لیتے ہیں ، جن کے پاس دلیل کی قوت نہیں ہوتی ، جن کے پاس دلیل کا ہتھیار موجود ہو ، ان کو بے برداشت ہونے کی ضرورت نہیں ۔
(۷) نہایت قابل توجہ بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو ایسی سائٹوں سے دُور رہنا چاہئے ، جن کا تعلق دہشت گردوں جیسے ’’ داعش ‘‘ وغیرہ سے ہے ، ان کے قریب بھی جانے سے بچنا چاہئے ؛ کیوں کہ یہ چیز غلط راستہ پر لے جاتی ہے ، یا کم سے کم شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے ؛ اس لئے نوجوانوں کو تہمت کے ان مواقع سے دُور رہنا چاہئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے ، جو ان کو غلط راستہ پر ڈال دے ، یا ان کے بارے میں شکوک و شبہات کا راستہ کھول دے ؛ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی بھی قسم کی اقدامی یا جوابی دہشت گردی کو پسند نہیں کرتا ؛ کیوں کہ اس میں بے قصور لوگوں کی موت ہوجاتی ہے ، اسلام تو امن و انسانیت ، عفو و درگذر اور محبت و بھائی چارہ کا پیغامبر ہے نہ کہ نفرت اور ظلم کا سوداگر :
میرا پیغام ، محبت ہے جہاں تک پہنچے !