غلاموں کی تقدیر نہیں آقا بدلتے ہیں

قاسم سید
جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں، تعداد اہمیت رکھتی ہے لیاقت نہیں۔ جھوٹ جیت جاتا ہے سچائی چھپ جاتی ہے۔ جس کے پاس ووٹ کی طاقت ہوتی ہے اس کو ارباب اقتدار ہوں یا حزب اختلاف جھک کر سلام کرتے ہیں، آگے پیچھے گھومتے ہیں، کورنش بجا لاتے ہیں اور اس کے تمام نخرے برداشت کرتے ہیں۔ مٹھی خالی ہو تو آواز میں بھی تمکنت نظر نہیں آتی۔ جمہوریت بنیادی طور پر ووٹوں کا کھیل ہے جو یہ کھیلنا جانتے ہیں وہ انتخابات سے پہلے اور اس کے بعد بھی سیاست و اقتدار کے فواکہات و ثمرات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ ان کی خوشی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جاتا کہ وہ ناراض ہوں۔ ہندوستان میں سیاست کا مطلب ذات پات کا اعداد و شمار اور مذہبی شناخت ہے۔ بھلے ہی الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق کچھ بھی کہے، سپریم کورٹ کی ہدایت کچھ بھی ہوں پر نالہ وہیں گرتا ہے حتیٰ کہ ٹکٹ دیتے وقت بھی اس کا خاص پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے اور باضابطہ تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ مختلف ذاتوں کی بڑی مضبوط سیاسی پارٹیاں موجود ہیں، مثلاً یادو کے مفادات کی محافظ سماجوادی پارٹی اور آر جے ڈی جب بھی اقتدار میں آتی ہیں یادو کا دبدبہ اور غلبہ صاف نظر آتا ہے۔ آر ایل ڈی کا لبادہ کوئی ہو مگر وہ جاٹوں کے نمائندے کی شناخت رکھتی ہے۔ کانگریس اور بی جے پی قومی سطح کی پارٹیاں ہیں، مگر اعلیٰ ذاتوں کا تحفظ اور ہندوتو کا فروغ ان کا بنیادی مقصد ہے۔ کانگریس روڈمیپ تیار کرتی ہے اور بی جے پی اس پر عمل کرتی ہے۔ مختلف صوبوں میں موجود علاقائی پارٹیاں وہاں کی زبان و تہذیب کا تحفظ کرتی ہیں، مثلاً تامل ناڈو کی اناڈی ایم کے اور ڈی ایم کے یہ موقع بموقع اقتدار میں حصہ دار رہی ہیں یا کلی اختیارات کی مالک۔
اس پورے کھیل میں سب سے زیادہ خسارہ میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمان رہتی ہے، اس کی دو وجوہات ہیں۔ اس نے آزادی کے بعد کانگریس کو اپنا ملجا و ماویٰ اور قسمت کا مالک بنادیا۔ اپنی ڈور ہاتھ میں تھمادی۔ انھوں نے جو بہتر سمجھا کیا۔ اسی دوران ایک ایسی لیڈرشپ تخلیق کی جس نے ملت سے زیادہ پارٹی کی وفاداری، غلامی کو ترجیح دی، وہیں مسلم جماعتوں نے بھی اس میں عافیت سمجھی کہ اپنے لئے اس سائبان میں ایک گوشہ تلاش کرکے ان کی سلامتی کی دعائیں کریں۔ سیکولر پارٹیوں کی تعداد بڑھتی گئی مگر وہ اس ’سیاسی گنگوتری‘ سے نکلی ہیں، اس لئے کانگریس کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ مسلمانوں کا ہنکاکر اس باڑے سے اس باڑے میں پہنچایا جاتا رہا، چنانچہ پورے ملک میں مشکل سے سو ایسے لیڈر ہوں گے جو مسلمانوں کے مفادات اور ان کے حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کرتے دکھائی دیے مگر ان کی ڈور کانگریس یا کسی اور سیکولر کہی جانے والی پارٹی سے بندھی رہی، بعض جاں نثاران ملت بھی دکھائی دیتے رہے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی کھپادی۔ کیرالہ کی سیاست میں مسلم عنصر کو نہ کانگریس نظر انداز کرسکی اور نہ ہی لیفٹ، دونوں ’فرقہ پرستوں‘ سے ہاتھ ملاتے رہے، کیونکہ سیاسی مجبوری تھی۔ اترپردیش میں ڈاکٹر فریدی مرحوم نے مخلوط سیاست کا تجربہ دہرایا اور کامیابی و ناکامی دونوں حصہ میں آئیں۔ حیدرآباد میں مجلس اتحاد المسلمین نے اقتدار میں شراکت کی، کیونکہ اس کی مٹھی میں چند فیصد ووٹ تھے۔ اترپردیش میں کسی زمانہ میں نیشنل لوک تانترک پارٹی سے بی ایس پی انتخابی اتحاد پر مجبور ہوئی اور پیس پارٹی کا سماجوادی پارٹی سے ہوا۔ قومی ایکتادل کا حال ہی میں بی ایس پی سے ہوا، یعنی جب بھی مسلمانوں کے ووٹوں کا چند فیصلہ بھی لیڈرشپ کے ہاتھ میں نظر آیا، نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے ٹھوڑی میں ہاتھ ڈال کر سمجھوتہ کیا۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ جنتا پارٹی کی پیدائش نے سیاست کے آداب بدل دیے۔ پہلی بار سیکولر اور کمیونل کی باریک لکیر بھی مٹادی گئی اور بھارتیہ جن سنگھ اس کا ناگزیر حصہ بن گئی۔ یہی غلطی وی پی سنگھ کے عہد میں دہرائی گئی جب جنتادل نے راجیو گاندھی کو ہٹانے کے لئے بی جے پی سے ہاتھ ملایا۔ ملک نے یہ بھی نظارہ دیکھا کہ وی پی سنگھ سرکار کا ایک پایہ لیفٹ اور دوسرا رائٹ سنبھالے ہوئے تھا اور پھر سب سیکولر رہے۔ رفتہ رفتہ بی جے پی کی رفتار بڑھتی گئی اور وہ دو سے 280 پر پہنچ گئی۔ یہ سب ایسے دور میں ہوا جب مسلم قیادت کے ہاتھ میں ٹیکٹیکل ووٹنگ کے نام کا طوطا آگیا۔ اس کی معروف تشریح یہ ہے کہ جو بی جے پی کو ہرائے اس کو ووٹ دو۔ گزشتہ تین دہائیوں سے مسلم قیادت اور مسلم جماعتوں نے خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، یہ تعویذ گلے میں ڈال لیا اور اسے حرز جان بنالیا۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اسی کا ورد ہونے لگا۔ جب بھی الیکشن آتا ٹیکٹیکل ووٹنگ کی چیخ و پکار سنائی دینے لگتی ہے۔ پانچ سال تک سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے والے انتخابات سے عین قبل یہ راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں۔ گستاخی کی معافی کے ساتھ کیا ہمیں یہ معلوم نہیں کرنا چاہئے کہ حضور عالی مقام آپ کا سیاسی تدبر اور گراں قدر حکمت عملی سر آنکھوں پر، مسلمانوں نے کبھی سوال نہیں کیا، کیونکہ انھیں لگا کہ یہ دافع شر ہے اور بی جے پی اڑن چھو ہوجائے گی، لیکن ہوا اس کے برعکس، یعنی بی جے پی کو ہرانے کا نعرہ مستانہ کچھ اثر نہیں دکھا سکا۔ بی جے پی کا دائرہ بڑھتا گیا، وہ ریاستوں پر قابض ہوتی گئی اور لوک سبھا میں ممبران کا ہر الیکشن کے بعد اضافہ ہوتا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب پانچ سال تک سیکولر پارٹیاں برسراقتدار رہتی ہیں تو وہ ان پانچ سالوں میں آخر کرتی کیا ہیں کہ پھر پانچ سال بعد فرقہ پرستی کی بڑھتی طاقت کا خوف دلایا جاتا ہے۔ کیا ان کی پالیسیاں غیرمؤثر رہتی ہیں یا پھر وہ اندرون ہاتھ ملائے رہتے ہیں۔ آخر بار بار یہ خوف سر پر کیوں سوار کردیا جاتا ہے۔ جب ملک کے اندر کم وبیش 60 سال تک زیادہ تر ریاستوں اور مرکز میں سیکولر پارٹیاں اقتدار میں رہی ہیں تو آرایس ایس اور اس کے قبیلہ کو کس طرح اور کیوںکر طاقت ملتی گئی۔ ٹیکٹیکل ووٹنگ کے مطلوبہ نتائج کیوں برآمد نہیں ہوئے؟ تو کیا اس پر نظرثانی نہیں کرنی چاہئے۔ آخر منفی ووٹنگ کیوں کرائی جاتی ہے؟ کسی کو ہرانے کی بجائے جتانے کا نعرہ کیوں نہیں لگایا جاسکتا۔ اگر واقعی سیکولر پارٹیاں بی جے پی کو خطرہ سمجھتی ہیں تو ایک پلیٹ فارم پر کیوں نہیں آجاتیں، کیوں ایک نشان سے الیکشن نہیں لڑتیں۔ کیا سب سے بڑے بے وقوف مسلمان ہی لگتے ہیں۔ کیا ان کے سینگ نکلے ہوئے ہیں اور پھر مسلم قیادت کیوں دھڑوں میں تقسیم ہے، وہ متحدہ طور پر ایک آواز میں کسی پارٹی کے پلڑے میں ووٹ کا فیصلہ نہیں کرتی۔
اس کی وجہ صاف ہے مسلم قیادت بھی خانوں میں تقسیم ہے۔ اگر کوئی بھتیجا اپنے چچا کا وجود برداشت نہیں کرسکتا اور اپنے باپ سے بھی لڑجاتا ہے تو یہی حال ادھر بھی ہے۔ کسی کی وفاداریاں سماجوادی پارٹی کے ساتھ ہیں تو کسی نے رشتہ وفاداری کانگریس سے باندھ رکھی ہے۔ کسی کے دل میں بی ایس پی کے لئے پیار امڈا جاتا ہے تو کوئی بائیں بازو کے لئے مرنے مٹنے کو تیار ہے۔ سب کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں، حالانکہ لوک سبھا الیکشن میں مسلم ووٹوں کو بے حیثیت کردیا گیا، اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اترپردیش جیسے بڑے صوبہ سے جہاں مسلمانوں کا ووٹ فیصد کم و بیش 20 فیصد ہے، ایک بھی مسلم ممبر پارلیمنٹ نہیں ہے۔ کیا یہ ہماری حکمت عملی کی بدترین ناکامی نہیں ہے۔ کبھی اس پر بھی غور کیا کہ آخر یوپی میں اس وقت صرف سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کانگریس سے اور سماجوادی پارٹی کے پانچ ممبران ملائم پریوار کے ہی کیوں جیت سکے، یہ کیسا اتفاق ہے؟ اور اب ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے والے باہم شیر و شکر ہونے کا مظاہرہ کررہے ہیں تو کیا اب ان کی ساری مخالفتیں واقعی ختم ہوگئی ہیں یا اپنی چمڑی بچانے کے لئے ایک جگہ آنے پر مجبور ہیں، جیسے لالو اور نتیش بدترین دشمنی کو بھلاکر اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ایک دوسرے کے دوست بن گئے اور جیسے ہی مفادات کا ٹکرائو ہوگا نتیش پھر بی جے پی کے پالے میں چلے جائیں گے۔ ملائم سنگھ اپنے بیٹے کو مسلم مخالف کہہ کر ہندو ووٹروں میں ان کی امیج بہتر بنانا چاہتے ہیں، وہیں اپنے بھائی رام گوپال کو بی جے پی کا ایجنٹ بتاتے نہیں تھکتے اور امت شاہ سے خفیہ ملاقاتوں کا انکشاف کرتے ہیں، پھر بھی ہمارے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ سیکولرازم اور فرقہ پرستی کے نعرے صرف ڈھونگ ہیں، سیاسی ضرورتوں کے تحت دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں۔ جس کو جب جس کی ضرورت ہوئی اس کے ساتھ ہولیا۔ اب کوئی یہ زبان کھولنے کو تیار نہیں کہ پانچ سال کا حساب تو لے لیجئے۔ مظفرنگر، بجنور، دادری پر سوال کرلیجئے۔ گزشتہ انتخابی منشور میں مسلمانوں کو ریزرویشن دینے اور اردو میڈیم اسکول کھولنےکے وعدے کے بارے میں دریافت کرلیجئے۔ کیا یہ سوالات پوچھنا بھی بی جے پی کی مدد کرنا ہوگا۔ کیا وضاحتیں طلب کرنے سے بھی بی جے پی مضبوط ہوجائے گی؟ کیا ملائم سنگھ کے رام گوپال پر دیے بیانات کا بھی حقیقت معلوم کرنا بی جے پی کا ساتھ دینا ہوگا۔ یہ کون سی سیاست ہے، یہ کیسی ذہنیت ہے، یہ کون سا نظریہ ہے؟ یہ غلامانہ سوچ کا کون سا پہلو ہے؟ اگر غیرمشروط طور پر کسی کے پلو سے باندھنا ہے تو پھر مظفرنگر اور ہاشم پورہ کی شکایت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، کیونکہ ہم واقعی ایسی جامد سوچ کی سزا کے مستحق ہیں، پھر شور مچانے کا حق نہیں، آنکھوں پر پٹی باندھیں، اپنی انگلی تھمائیں اور جہاں کہا جائے ٹھپہ لگا آئیں۔ رہے نام اللہ کا۔

qasimsyed2008@gmail.com