کمتر برائی کا انتخاب

مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
ملک کے بعض علاقوں میں الیکشن کا بگل بج چکا ہے اور معرکۂ انتخاب پوری طرح گرم ہو چکا ہے ، سیاسی جماعتیں سنہرے خواب اور سبز باغ دکھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں ، وعدوں کی بہتات بھی ہے اور اپنی خدمات کے بارے میں ادّعات اور دعووں کی فراوانی بھی ۔۔۔ ہندوستان کے اکثر علاقے آج بھی روشنی سے محروم ہیں ، ہزاروں دیہات اور قریہ جات کا سڑکوں سے رابطہ نہیں ، بے روزگاری میں روز افزوں اضافہ ہے ، جرائم کی کثرت ہے ، ملک کے بڑے بڑے قائدین اور سیاسی رہنماؤں کے بارے میں رشوتوں اور جرائم کے اسکامس بارش کی طرح منظر عام پر آئے ہیں اور آتے جارہے ہیں ، اور کیوں نہ ہو کہ پارلیمنٹ میں بھی اور مختلف ریاستوں کی اسمبلیوں میں بھی پولیس کے نامزد مجرم بڑی تعداد میں موجود ہیں ، ایسے لوگوں سے اس کے سوا اور کیا توقع رکھی جاسکتی ہے ؟ لیکن جب کسی چیز کی کثرت ہو جاتی ہے تو آہستہ آہستہ دل و دماغ اسے قبول کر نے لگتا ہے ، اور اس کی شناعت کا احساس کم ہوتا جاتا ہے ، یہی کیفیت اس وقت جرائم پیشہ سیاست دانوں کے سلسلہ میں پیدا ہو چکی ہے ۔
اپنی کمزوریوں پر پردہ رکھنے اور لوگوں کی بھیڑ جمع کر نے کے لئے آج کل ایک نیا سلسلہ سیاست کے افق پر فلمی ستاروں کی بارات سجانے کا شروع ہوا ہے اور قومی علاقائی جماعتیں ایک سے ایک فلمی اداکار اور اداکارہ کو اپنے اسٹیج پر لارہی ہیں ؛ تاکہ عوام کو بہتر تماشہ دیکھا سکیں اورنوجوانوں کا شوقِ دید بھی پورا ہو ، یہ یقیناًسیاسی قیادت کی سطحیت اور گراوٹ کی بات ہے اور اس انحطاط پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے ، اگر آئندہ سیاسی جلسوں میں رقاصاؤں سے رقص کرایا جائے اور گلوکاروں سے گیت سنوائی جائے تو تعجب نہ کرنا چاہئے ؛ کیوں کہ جب مقصود سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنانا ہے اور کسی نہ کسی طرح عوام کی بھیڑ اکھٹا کرنا ہے ، تو پھر کھیل تماشہ کے ماہرین کا کوئی بھی گروہ سیاست کی بساط پر اتر سکتا ہے اور اپنے کرشموں سے ایک ازدحام جمع کر سکتا ہے۔
مسلمانوں کے لئے موجودہ الیکشن بہت ہی نازک حالات لے کر آیا ہے ، فرقہ پرستی اور فاشنرم بامِ اقتدار پر چڑھ چکی ہے اور سر توڑ کوشش کررہی ہے کہ اپنے تختِ اقتدار کو مضبوط سے مضبوط تر کرلے ، پوری طرح قوت فیصلہ حاصل کرلے اور اپنے اقتدار کو طویل سے طویل تر کرلے ، بہت سی وہ جماعتیں جو سیکولرزم کا نقاب اب تک اوڑھے ہوئی ہیں اور جن کا سیکولرزم حکومت کے فرقہ پرستانہ ایجنڈے کے خلاف مزاحمت کی تحریک بھی پیدا نہیں کر پارہا ہے ، اقتدار کی حرص و ہوس نے ان کو اپنے نظریاتی دشمنوں کے ساتھ ایک کشتی کا سوار بنادیا ہے ، بلکہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کو اپنا نا خدا تسلیم کر چکے ہیں ، دوسری طرف وہ جماعتیں ہیں،جو اپنے آپ کو جمہوریت کا نمائندہ قرار دیتی ہیں ، لیکن ان کا ماضی کچھ کم داغ دار نہیں ، ان کا حال یہ ہے کہ جماعتی سیاست ان کو ان نظریاتی مقاصد سے زیادہ عزیز ہے،جس کا وہ اپنی زبان سے اور اپنے منشور میں اظہار کرتے ہیں ، یہ امنگ اورحوصلہ سے عاری ہیں ، ان کی مثال ایسی فوج کی ہے جو نیم دلی کے ساتھ کسی فوج کے مقابلہ کے لئے لے جائی جاتی ہے ، نہ اس کے دوست متعین ہیں اور نہ دشمن ، یہ دو طرفہ آگ ہے ، جس کی حرارت انگیزی میں کم و بیش کا فرق تو ہو سکتا ہے ، لیکن کوئی اساسی اور بنیادی فرق ان کے طرزِ عمل میں نہیں ہے ، اسی لئے بعض حضرات نے اس صورتِ حال کو ’’ نرم ہندو توا ‘‘ بہ مقابلہ ’’ سخت ہندو توا ‘‘ کا نام دیا ہے ، انتخاب کی راہیں محدود ہیں اور کوئی ایسی قوت موجود نہیں،جس کے بارے میں یہ توقع کی جا سکے کہ وہ ملک کے اقتدار کی باگ اپنے ہاتھ میں لے سکے گی ۔
آخر مسلمان ان حالات میں کیا کریں ؟ ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم الیکشن سے اپنے آپ کو الگ کرلیں ، یہ بڑی عاقبت نا اندیشی کی بات ہوگی اور جو تھوڑا بہت لوگ الیکشن کے وقت مسلمانوں کا آنسو پونچھنے اور کچھ جھوٹے سچے وعدے کر نے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ بھی ختم ہوجائے گا ، پھر مسلمان اس ملک میں ایک ذلیل و مقہور گروہ رہ جائیں گے اور سنگھ پریواراوروی ، ایچ ،پی جس کے منصوبوں میں پہلے سے یہ بات داخل ہے کہ اقلیتوں کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا جائے ، یہ عملاً ان کے منصوبہ کو کامیاب کرنے کے مترادف ہو گا ، اس لئے الیکشن میں حصہ لینا ایک بہت بڑی ضرورت ہے ، اور ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ووٹ کا حق ضرور ہی استعمال کرے اور یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسلمانوں کے ووٹ کو متحد کر نے کی کوشش کریں ، ہمارے بکھرے ہوئے ووٹ کی سیاست کے ترازو میں کوئی قیمت نہیں ہو گی ، ہمارے متحد ووٹ سے ہی ہم ملک کی سیاست میں اپنا وزن قائم کر سکتے ہیں ۔
اس وقت لوک سبھا کی ۵۴۵ سیٹیں ہیں ، جن میں سے ۲۰ سیٹیں پارلیمنٹ پُرکرتی ہے ، اگر مسلمانوں کی آبادی بیس کڑور مانی جائے تو ۵۴۵ میں سے ۱۱۹ سیٹیں مسلمان کی ہو نی چاہئیں جب کہ اب تک مسلمان ممبروں کی تعداد چوبیس سے اڑ تالیس تک رہی ہے ، اور وہ بھی مسلمانوں کے نمائندے کم اور جس سیاسی جماعت کے واسطے سے منتخب ہوئے ہیں ، ان کے نمائندہ زیادہ رہے ہیں ، جنوبی ریاستیں آندھرا ، تمل ناڈ ، کرناٹک اورکیرالہ کی ۱۲۹ سیٹوں میں سے ۶۰ سیٹوں میں مسلمان ووٹرس کی تعداد ۲۰ فیصد سے زیادہ ہے ، ملک کے چودہ اضلاع میں مسلمان ووٹرس کا تناسب ۳۳ فیصد سے زیادہ ہے ، یوپی میں مسلمان ووٹرس کا تناسب ۹۳ ء ۱۵ فیصد اور بہار میں ۱۳ ء ۱۴ فیصد ہے ، بہار کے ضلع پورنیہ میں مسلم آبادی ۵۴ ء ۱۴ ، کٹیہار میں ۱۰ ء ۳۶ اور در بھنگہ شہر میں ۵۴ فیصد ہے ، یوپی کے ضلع رام پور میں ۱۲ ء ۴۷ ، بجنور میں ۴۵ ء ۳۹، مراد آباد میں ۶۰ء ۳۸ ، سہارنپور میں ۵۶ ء ۳۱ ء مظفر نگر میں ۷۳ ء ۲۵ اور بہرائچ میں ۲۵ فیصد ہے ، لیکن افسوس کہ ان میں سے بہت سے مقامات و ہ ہیں ، جہاں مسلم ووٹ کے بکھراؤ کی وجہ سے فرقہ پرست جماعتیں الیکشن جیت جاتی ہیں ، کم و بیش پارلیمنٹ کے ۷۴ حلقوں میں مسلم ووٹرس کا تناسب ۲۰ فیصد سے زیادہ ہے ، اگر ان پارٹیوں اور پارٹی کے امیدواروں کے ووٹ کا تناسب دیکھا جائے جو فتح یاب ہوتی رہی ہیں ، تو صاف اندازہ ہوگا کہ اگر مسلمان دانشمندی سے کام لیں او رمتحدہ طور پر کسی پارٹی کے حق میں ووٹنگ کریں ، تو وہ زیادہ تعداد میں مسلمان یا مسلمان دوست اُمیدواروں کو کامیاب کر سکتے ہیں اور اگر بادشاہ کا نہیں ، تو کم از کم بادشاہ گر کا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
سیدنا حضرت عمر فاروق صنے ایک صاحب سے سوال کیا کہ علم کسے کہتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا : شر کے مقابلہ میں خیر کو جاننا ’’معرفۃ الخیر من الشر‘‘ حضرت عمر ص نے فرمایا : یہ تو کوئی خاص بات نہیں ہوئی ، کیوں کہ ظاہر ہے کہ جب ایک طرف شر اور دوسری طرف خیر ہو تو خیر کا انتخاب کیا جائے گا اور شر کو چھوڑ دیا جائے گا ، پھر فرمایا کہ علم نام ہے دو شر میں سے ایسی چیز کے جاننے کا جو نسبتاً بہتر ہو ’’ معرفۃ خیر الشرین‘‘ ۔۔۔ یہ نہایت اہم قاعدہ ہے ، جو کتاب و سنت کے مختلف احکام سے ثابت ہے ، برائی کو روکنا واجب ہے ؛ لیکن حضور ا نے فرمایا کہ طاقت سے روکنے پرقادر نہ ہو تو زبان سے ٹوکنے پر اکتفا کرے اور زبان سے ٹوکنا بھی دشوار ہو تو دل سے برا سمجھنے پر اکتفا کرے ، اس کا مقصد یہی ہے کہ بعض دفعہ کسی برائی کو روکنے میں انتشار اور اختلاف کا اندیشہ رہتا ہے ، تو مسلمانوں کی اجتماعیت کو بر قرار رکھنے کے لئے ایسے موقع پر خاموشی اختیار کرلینا بہتر ہے ، چنانچہ حضرت ابو ذر غفاری ص سے آپ ا نے دریافت کیا کہ میرے بعد تم ایسے حکمرانوں کو دیکھو گے جو تم سے اپنے حقوق کو وصول کریں گے ، لیکن تمہارے حقوق ادا نہیں کریں گے ، ایسی صورت میں تم کیا کرو گے ؟ حضرت ابو ذر غفاری ص نے جواب دیا کہ ہم انھیں نوکِ شمشیر سے سیدھا کردیں گے ، آپ انے فرمایا : نہیں ، بلکہ صبر سے کام لینا ، تاآنکہ وہ بھی اللہ کے دربار میں آجائیں اور تم بھی ۔
آپ ا کے اس ارشاد کا منشاء یہی ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت کو بر قرار رکھنا حکمرانوں کی بے راہ روی سے زیادہ اہم ہے ، اس لئے اسے متأثر نہ ہونے دیا جائے ، اسی طرح آپ انے ارشاد فرمایا : ’’ صلوا خلف کل برّ و فاجر‘‘ ( اچھے اور برے امام کے پیچھے نماز ادا کرلو ) اس ارشاد کا منشاء بھی یہی ہے کہ آپ ا نے امام کو مقتدی کی نماز کا ضامن قرار دیا ہے ، اس لئے امام کو بہتر سے بہتر ہونا چاہئے ، آپ ا نے فرمایا کہ سب سے بہتر قرآن پڑھنے والے ،سنت سے سب سے زیادہ واقف و آگاہ اور سب سے زیادہ ورع و تقویٰ رکھنے والے کو امام ہونا چاہئے ؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ انے فاجر کی اقتداء کو بھی جائز قرار دیا اور صحابہ ث نے حجاج بن یوسف جیسے لوگوں کی اقتداء میں بھی نماز ادا فرمائی ، اس کا منشاء بھی وہی ہے کہُ امت کو انتشار اور بکھراؤ سے بچایا جائے ، کیوں کہ بعض دفعہ ایسے لوگ امامت پر فائز ہو جاتے ہیں جو کردار و عمل کے اعتبار سے مجروح ہوتے ہیں ، لیکن اگر انھیں ہٹانے کی کوشش کی جائے تو فتنہ و انتشار کا اندیشہ رہتا ہے ، ایسی صورت میں امت کو انتشار سے بچانا زیادہ اہم ہے۔
اسلامی قانون کے ماہرین نے اسی بنیاد پر چند قواعد مقرر کیے ہیں ، یہاں ان کا ذکر کرنا مناسب ہوگا :
یتحمل الضرر الخاص لدفع الضرر العام ۔
عمومی نقصان کو دور کرنے کے لئے خصوصی اور شخصی نقصان کو گوارہ کیا جائے گا۔
جیسے کوئی جاہل شخص ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کر لے تو اس سے اس کو روکا جائے گا ، اگر تاجر گراں فروشی شروع کردے تو اشیاء کا نرخ متعین کیا جا سکتا ہے ؛ تاکہ اس اجتماعی نقصان کو دور کیا جاسکے :
إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمہما ضرراً بارتکاب أخفہما۔
جب دو برائیاں در پیش ہوں تو کمتر برائی کو گوارہ کر کے بڑی برائی کو روکا جائے گا۔
اس اُصول کو فقہاء نے مختلف الفاظ اور تعبیرات میں بیان کیا ہے ، مثلا یہ کہ ’’ دو شر میں سے کمتر کو اور دو ضرر میں سے ہلکے ضرر کو گوارہ کیا جائے گا ‘‘ یا یہ کہ ’’ جہاں دو نقصان در پیش ہوں تو کمتر نقصان کو گوارہ کر کے بڑے نقصان سے بچا جائے گا ‘‘ ۔
درأ المفاسد أولی من جلب المصالح۔
مصلحت اور منفعت کو حاصل کر نے سے زیادہ اہم مفاسد کو دور کرنا ہے۔
یعنی اگر ایک طرف کسی فائدہ کا حصول ہو ؛ لیکن اس میں دوسرا پہلو نقصان کا ہو ، تو نقصان کے دور کر نے کو ترجیح حاصل ہو گی۔
غور کیجئے ! فقہاء کے اجتہادات ان ہی اصولوں پرمبنی ہیں ، اور ایک ایسے وقت میں جب کہ سیاست کے حمام میں تمام لوگ بے لباس ہیں اور مسلمان دو مقابل قوتوں کی ضرر رسانی اور تیشہ زنی کا تجربہ کر چکے ہیں ، ضروری ہے کہ وہ دانشمندی سے کام لیں اور زیادہ اور کمتر نقصان کا صحیح تجزیہ کر کے لائحۂ عمل بنائیں ، کہ ان حالات میں ہماری ذمہ داری یہی ہے کہ فراستِ ایمانی سے کام لیتے ہوئے دو ناگزیر برائیوں میں سے کمتر برائی کو گوارہ کریں۔
ان حالات میں سب سے اولیت اس بات کو حاصل ہے کہ کونسا اُمیدوار فرقہ پرست تنظیم کو شکست دے سکتا ہے ، اس کو ترجیح دی جائے ، خواہ وہ اُمیدوار مسلمان ہو یا غیر مسلم ، دلت ہو یا اونچی ذات کا ہو ، اقلیتی پارٹی کی نمائندگی کرتا ہو یا قومی پارٹی کی ، اگر ہم نے لازمی طور پر کسی مسلمان اُمیدوار یا ایک متعین پارٹی ہی کو ووٹ دیا تو ہمارا ووٹ ضائع ہوجائے گا اور ہمارے ووٹوں کی تقسیم سے فرقہ پرست عناصر کو فائدہ پہنچ جائے گا؛اس لئے بہت ہی سمجھداری و دانشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے ، ہمیں ماضی کے ریکارڈ کو بھی سامنے رکھنا چاہئے ، بعض سیاسی جماعتیں سیکولرزم کے نام پر ووٹ حاصل کرتی ہیں اور الیکشن کے بعد اقتدار کے لئے فرقہ پرستوں سے جاملتی ہیں ، کہیں ہم پھر اس دھوکہ کا شکار نہ ہوجائیں ، مسلمانوں میں اتنی فراست ہونی چاہئے کہ وہ ایک ہی سوراخ سے بار بار نہ ڈسے جائیں ۔

SHARE