سعودی عرب دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہے،کچھ اور نہ سمجھیں!

خاص مضمون :عادل الجبیر
ملت ٹائمز
جو لوگ سعودی عرب پر متشدد انتہا پسندی کی حمایت کا الزام عاید کرتے ہیں،وہ نہ صرف اس بات کا ادراک کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ سعودی قیادت دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف لڑرہی ہے بلکہ وہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ سعودی عرب تو اس لعنت کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہا ہے اور اس کے بارے میں اس سے کم سوچنا بالکل غیر منطقی اور غیر حقیقی ہے۔
مختلف کرداروں نے اپنے اپنے محرکات کی بنا پر سعودی عرب کو ہدف بنایا ہے۔انھوں نے مملکت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور سعودی عوام کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔لہٰذا یہ ہمارے قومی مفاد میں ہے کہ دہشت گردی کو شکست دی جائے اور یہ ہماری قومی ترجیح بھی ہے۔
یہ القاعدہ اور جنگجو گروپ دولت اسلامیہ (داعش) ایسے غیر ریاستی کردار ہوں یا ایران اور اس کے گماشتوں کی جانب سے ریاست کی سطح پر اسپانسر کی گئی انتہا پسندی ہو،تو سعودی عرب کی کسی بھی دوسرے ملک کی طرح یہ قومی سلامتی کے تحت ذمے داری ہے کہ وہ ان افراد ،رقوم اور اس ذہنی ساخت کو روکے جو دہشت گردی اور متشدد انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔
بعض نے سعودی عرب کو یہ حوالہ دے کر دوش دینے کی کوشش کی تھی کہ 9/11 حملے کرنے والے انیس میں سے پندرہ ہائی جیکر سعودی تھے۔ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ 9/11 حملوں کے ماسٹر ماءِنڈ خالد شیخ محمد نے امریکی تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ ابتدائی طور پر مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے بیس ہائی جیکروں کو امریکا پر حملوں کے لیے بھیجنے کا منصوبہ تھا لیکن بعد میں انھیں اسامہ بن لادن نے یہ ہدایت کی تھی کہ امریکا پر حملوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سعودی استعمال کیے جائیں تاکہ اس حملے کو سعودی چہرہ بنایا جاسکے۔
ممکنہ طور پر یہ منصوبہ سعودی عرب عرب اور امریکا کے درمیان دراڑ ڈالنے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔اگر یہ اسامہ بن لادن کا منصوبہ تھا تو پھر یہ کم وبیش کامیاب رہا تھا کیونکہ 9/11 کے بعد سعودی عرب ہی کو سب سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سنہ 2003ء میں سعودی دارالحکومت میں تین رہائشی کمپانڈوز میں بیک وقت خود کش بم دھماکے کیے گئے تھے۔ان بم دھماکوں میں تیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔مہلوکین میں سعودی ،لبنانی ،امریکی ،برطانوی اور آسٹریلوی شہری شامل تھے۔
اس کے بعد مزید بھی حملے کیے گئے تھے اور ان کا مقصد سعودی عرب کو عدم استحکام سے دوچار کرنا اور غیرملکی تارکین وطن کا اعتماد متزلزل کرنا تھا تاکہ وہ ملک چھوڑ کر واپس چلے جائیں، مگر یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا تھا۔القاعدہ کا سرکردہ منصوبہ ساز فارس الزہرانی جدہ میں امریکی قونصل خانے پر 2004ء میں ایک حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔اس حملے میں چار سکیورٹی محافظ اور قونصل خانے کے عملے کے پانچ ارکان ہلاک ہوگئے تھے۔القاعدہ کے اس منصوبہ ساز کو عدالتی سزا کے بعد حال ہی میں تہ تیغ کیا گیا ہے۔
داعش کے قاتلوں نے اپنے بیانات میں سعودی ریاست کو اپنا ہدف بنانے کی باتیں کی ہیں۔سال 2015ء کے دوران داعش کے جنگجوؤں نے الدمام ،قطیف ،ابھا اور نجران میں چار مساجد پر حملے کیے تھے۔ان میں اڑتیس افراد مارے گئے اور ایک سو اڑتالیس زخمی ہوئے تھے۔
اگست 2015ء میں سعودی حکام نے دہشت گردی کے ان حملوں کے الزام میں چار مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والے چار سو اکیس مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا۔ان کے علاوہ پندرہ مشتبہ افراد کو الریاض میں امریکی سفارت خانے پر خودکش حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔وہ بارود سے لدے ٹرک کے ذریعے سفارت خانے پر حملے کی سازش تیار کررہے تھے۔سعودی عرب میں داعش سے وابستہ افراد جیل سے دہشت گردوں کو رہا کرانے کی منصوبہ بندی کے الزام میں بھی پکڑے گئے تھے۔اس کے علاوہ انھوں نے سعودی نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کی تھی اور داعش کا پروپیگنڈا پھیلایا تھا�آایران 1979ء کے انقلاب کے بعد سے دہشت گردی کو اپنی خارجہ پالیسی میں ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔سعودی عرب ایک عرصے سے ایرانی گماشتوں کی دہشت گردی کی سازشوں کا شکار ہے۔1987ء میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ الحجاز نے سعودی عرب کے مشرق میں واقع راس تنورا میں تیل کی ایک تنصیب کو آگ لگا دی تھی۔اسی سال سعودی حکام نے ایرانی عازمین کی مملکت میں گولہ وبارود اسمگل کرنے کی سازش ناکام بنائی تھی۔1988ء میں حزب اللہ الحجاز نے جبیل میں ایک پیٹرو کیمیکل کمپنی کی تنصیب پر حملہ کیا تھا۔لیکن ان سب میں افسوسناک اور تباہ کن ایران کا 1996ء میں الخوبر بم دھماکوں میں ملوّث ہونا تھا۔ان حملوں میں انیس امریکیوں سمیت ایک سو بیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس طرح کے متنوع اور خطرناک دشمنوں کے مقابلے کے لیے سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔سعودی مملکت دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے اور جنگجو گروپوں کے سوتے خشک کرنے کے لیے
پُرعزم ہے۔
سعودی عرب نے اپنی سرحدوں کے اندر سے دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے،ان کے خلاف خصوصی عدالتوں میں مقدمے چلائے گئے ہیں اور ان عدالتوں نے ان مجرموں کو قصور وار قرار دے کر سزائیں سنائی ہیں۔سعودی عرب نے دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے لیے دنیا کا سخت ترین مالیاتی کنٹرول نظام نافذ کیا ہے۔
مساجد اور عوامی جگہوں کو عطیات دینے پر پابندی ہے۔سعودی خیراتی اداروں پر بھی ملک سے باہر رقوم منتقل کرنے پر پابندی ہے تا کہ خیراتی مقاصد کے لیے فنڈز متشدد انتہا پسندوں کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔سنہ 2005ء میں مملکت نے انتہا پسندی کے خلاف قومی سطح پر عوامی آگہی مہم شروع کی تھی۔یہ انتہا پسندانہ بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے آج بھی جاری ہے اور اس کے ذریعے عوام کو متشدد انتہا پسندی کے خطرات سے آگاہ کیا جارہا ہے۔2008ء میں اس نے عالمی سطح پر بین المذاہب مکالمے کا آغاز کیا تھا۔اس کا مقصد دنیا کے مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔اس مقصد کے لیے ویانا میں ایک عالمی مرکز قائم کیا گیا ہے اور اس نے اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
ان اقدامات کے علاوہ سعودی عرب دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر سفارتی اور عسکری سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔سعودی عرب نے اقوام متحدہ کو انسداد دہشت گردی مرکز کے قیام کے لیے گیارہ کروڑ ڈالرز کی گرانٹ دی تھی۔اس مرکز کے قیام کا مقصد انتہا پسندی کو پروان چڑھانے والی ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے کوششیں کرنا اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی دہشت گردی مخالف جنگ میں صلاحیت کار کو بہتر بنانا ہے۔
سعودی عرب نے ”فیوژن سیل” بھی قائم کررکھے ہیں جہاں سعودی عرب ،امریکا اور دوسرے شراکت دار ممالک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس حکام دہشت گردی کی سازشوں کا مقابلہ کرنے اور مالی امداد کو روکنے کے لیے تفتیش وتحقیق کرتے ہیں۔سعودی عرب کے طیاروں ہی نے سب سے پہلے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے تھے۔اس کے علاوہ سعودی عرب دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے لیے قائم اڑتیس ممالک کے اتحاد کی قیادت کررہا ہے۔
دہشت گردی ایک عالمی خطرہ ہے۔ بہت سے ممالک اس سے پہنچنے والے دکھ و درد کو جانتے ہیں۔اس بات کا تو کوئی جواز ہی نہیں بنتا ہے کہ سعودی عرب ان لوگوں کی حمایت کرے اور انھیں پناہ دے جو اسی کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔یہ ہماری اقدار ،ہمارے عقیدے اور ہمارے قومی کردار کے منافی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب دہشت گردی کے خلاف بھرپور قوت اور عزم کے ساتھ جنگ آزما ہے مگر سعودی عرب پر یہ الزام کہ وہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بھرپور اقدامات نہیں کررہا ہے اور وہ اس سے لڑنے کے بجائے اس کی مالی معاونت
کررہا ہے تو یہ نہ صرف بالکل غیر ذمے دارانہ بات ہے بلکہ یہ حقیقت سے مُنھ چُرانے کے بھی مترادف ہے۔(ملت ٹائمز)

(بشکریہ العربیہ ٹی وی)

SHARE