رفح پر صہیونی قابض افواج کے تابڑ توڑ حملے

خورشید عالم داؤد قاسمی

مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

رفح فلسطین کا ایک شہر ہے جو جنوبی غزہ کی پٹی میں واقع ہے۔ یہ شہر جنوب مغرب میں غزہ شہر سےتقریبا تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ رفح شہر مصر اور غزہ کی پٹی کے درمیان واحد کراسنگ پوائنٹ ہے جہاں سے فلسطینی مصر میں داخل ہوتے ہیں۔ مگر مصری حکومت عام طور پر اسے صہیونی قابض ریاست اسرائیل کے دباؤ اور اس سے غیر معقول معاہدے کی بنیاد پر بند کیے رہتی؛ تاکہ فلسطینی باشندے آسانی سے آمد ورفت اور نقل وحمل کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ سن 2017 ء میں اس شہر کی آبادی 171,889 افراد پر مشتمل تھی۔  صہیونی ریاست نے غزہ شہر میں، گذشتہ سال اکتوبر میں،  زمینی اور فضائی حملے شروع کیا جو تا ہنوز جاری ہے۔ ان حملے میں عام لوگ کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوا اور اب تک ہورہا ہے۔ لوگوں نے وہاں سے کوچ کرکے “رفح” شہر میں پناہ لی۔ ان پناہ لینے والے لوگوں کی تعداد پندرہ لاکھ کے قریب ہے۔ رفح سرحدی گذرگاہ کی فلسطین کے پریشان حال لوگوں کے لیے بڑی اہمیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رفح  واحد گذرگاہ تھی جو اسرائیل کے قبضے میں نہیں تھی۔ غزہ سے پوری دنیا کا رابطہ اسی سے ہورہا تھا۔ یہاں سے انسانی امداد کے داخلے کی اجازت دی گئی تھی۔ اسرائیلی حملے کے بعد، جب صحت کے شعبے غزہ میں بری طرح ختم کردیے گئے؛ تو مریضوں اور زخمیوں کو اسی راستے سے بیرون ملک علاج کے لیے منتقل کیا جارہا تھا۔ اسرائیلی فوج نے بروز: منگل سات مئی 2024 سےاسےقبضہ کرکے بند کردیا ہے۔ سن 2005 میں غزہ سے اسرائیل کے انخلاء کے بعد، رفح گذرگاہ پر اسرائیلی افواج کی یہ پہلی بار واپسی ہے۔

صہیونی قابض ریاست کا یہ دعوی ہے کہ رفح گذرگاہ  پر کچھ سرنگیں ہیں جن سے حماس والے ہتھیار اسمگلنگ کر رہے ہیں اور حماس کے مجاہدین رفح میں روپوش ہیں؛ لہذا جب تک وہ رفح پر حملے کرکے انھیں ختم نہیں کردیتی، ان کی فتح مکمل نہیں ہوگی۔ مصر جو اس تنازعے میں ایک ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے اور جس کا اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلق بھی ہے، نے اس حملے پر تنقید کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے کہ رفح میں ایسے سرنگ پائے جاتے ہیں، جہاں سے ہتھیار اسمگلنگ کیے جارہے ہیں۔ مصر نے کہا ہے کہ “اسرائیل ان الزامات کو فلسطینی شہر رفح پر اپنی کاروائی جاری رکھنے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جنگ کو طول دینے کی غرض سے استعمال کر رہا ہے۔”

قابض فوج نے جس طرح غزہ کی پٹی کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے،اسی طرح رفح کو بھی کھنڈرات میں تبدیل کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ سلسلہ رفح پر ہی نہیں رکے گا؛ بلکہ لگتا ہے کہ صہیونی ریاست مقبوضہ مغربی کنارے کو بھی کھنڈرات میں تبدیل کرے گی۔ صہیونی ریاست کے انتہائی دائیں بازو کے کابینی وزیر، جن کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان ہے،بیزالل اسمورتچ  کی تقریرکی ایک کلپ کسی صارف نے  31/ مئی کو”ایکس” پرشیئر کی ہے۔ اس کلپ میں وہ مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ قصبوں کو ذکر کرکے کھنڈر میں تبدیل کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ وہ کہتا ہے: “ہم تمھارے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیں گے، جیسا کہ ہم نے غزہ کی پٹی میں کیا ہے۔” صہیونی ریاست چاہتی ہے کہ آج جن بچے کھچے خطے پر فلسطین بولا جارہا ہے، وہ انھیں تہس نہس کردے، تاکہ فلسطینی عوام ناامید اور شکستہ خاطر ہوکر، اپنی مزاحمت ترک کردیں۔  نہیں تو کیا وجہ ہے کہ صہیونی ریاست اور قابض افواج نے پہلے لوگوں کو رفح شہر میں منتقلی کا مشورہ دی، جب تقریبا ڈیڑھ ملین لوگ وہاں منتقل ہوچکے ہیں؛ تو رفح شہر پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے۔صہیونی  ریاست نے عوام کو وہاں منتقل ہونے کا مشورہ دے کر، دھوکہ دیا ہے؛ کیوں کہ اس کا ارادہ پہلے سے ہی رفح کراسنگ پر قبضہ کرکے، وہاں کے باشندوں اور پناہ گزینوں پر بم برسانے کا تھا؛ تاکہ وہ اس کراسنگ کو کسی طرح بند کرکے لوگوں کو خوراک، پانی ، صحت وغیرہ کے حوالے جو مختصر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، انھیں بھی ختم کردے۔

ٹائمز آف اسرائیل کی 29/ مارچ 2024 کی ایک رپورٹ میں ہے کہ بنجامن نیتن یاہو نے غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال فوجیوں کے اہل خانہ کو مطلع کیا تھا کہ اسرائیل رفح میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس وقت امریکہ اور عالمی برادری نے رفح پر حملے سے باز رہنے کی تنبیہ کی؛ مگر اس کے باوجود نیتن یاہو اپنی ضد پر قائم رہا اوررفح پر حملے کی منصوبہ بندی جاری رکھا۔ جب امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک نے یہ محسوس کیا کہ یہ شخص اس کی بات نہیں ماننے والا ہے؛ تو انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ رفح میں پناہ گزینوں کی زندگیوں کی حفاظت کو یقینی بنائے بغیر کوئی بھی فوجی کارروائی نہ کی جائے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر صہیونی ریاست کے حکمراں اتنا انسانیت نواز اور دوسرے کی باتوں کو خاطر میں لانے والا ہوجائے؛ تو پھر وہ اپنی فوقیت دیگر انسانوں پر کیسے منوا پائے گا جو اس کا عقیدہ ہے۔ چناں چہ اس نے حماس کے کمانڈوز کی موجودگی کا بہانہ بناکر، رفح پر تابڑ توڑ حملے شروع کروادیا۔ قابض فوج اوائل اپریل سے رفح پر حملہ کر رہی ہے۔ ایک تو رفح شہر کی گنجان آبادی، پھر شمالی وجنوبی غزہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس جگہ کو محفوظ مقام سمجھ کر، پناہ لے رکھی ہے۔ وہاں پر بمباری کی جاتی ہے جس سے درجنوں لوگ شہید ہو رہے ہیں۔  اسرائیلی فوج نے حماس کے جنگجوؤں کے خفیہ ٹھکانے کو نشانہ بنانے کا بہانہ بنا کر، 18/ اپریل کو، ایک عمارت کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں، گیارہ افراد شہید اور درجن سے زائد زخمی ہوگئے۔ پھر 20/  اپریل  کو رفح میں فضائی حملہ کیا گیا، جس میں چھ بچے اور دو خواتین سمیت نو فلسطینی شہید ہوئے۔ بروز:  اتوار 28 / اپریل کو رات میں، تین رہائشی عمارتوں پر اسرائیلی فضائیہ نے حملے کیے جس میں تقریبا پندرہ فلسطینی شہید ہوئے۔

جب قابض فوج نے اپریل کے مہینے میں رفح شہر پر کئی حملے کیا، جن کے نتیجے میں درجنوں لوگ شہید ہوئے اور وہ حملے سے باز نہیں آرہی تھی، اس وقت اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری انتونیو گوتریس نے 30/ اپریل کو اپنا بیان جاری کیا کہ “اسرائیل کے ذریعہ رفح پر فوجی حملہ ہمارے لیے ایک اور ناقابل برداشت اضافہ ہو گا، جس سے ہزاروں شہریوں کی مزید ہلاکتیں ہوں گی، جہاں پہلے ہی بہت بڑی تعداد میں لوگ مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں کو ایک بار پھر نقل مکانی پر مجبور کیا جائے گا۔” ان کا یہ بیان اس وقت آیا جب صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نے رفح حملے کے بارے میں، پوری قطعیت کے ساتھ کہہ دیا ہے کہ “حماس کے ساتھ یرغمالوں کی رہائی کا معاہدہ ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر، رفح پر اسرائیل حملہ کرے گا۔”

امریکی صدر جو بائیڈن کی نیتن یاہو کی حمایت کی وجہہ سے ڈیموکریٹک ووٹروں میں، عدم اطمینان پایا جارہا ہے۔ اس سے کچھ امریکی ڈیموکریٹس بھی خوف زدہ ہیں کہ اس کا اثر انتخابات میں ظاہر ہوگا؛ چناں چہ یکم مئی 2024 کو رفح میں اسرائیلی حملے روکنے کے لیے ستاون امریکی ڈیموکریٹس نے ایک کھلے خط پر دستخط کرکے بائیڈن سے مطالبہ کیا کہ وہ رفح پر حملے کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے۔ اگر اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہیں کرتا ہے؛ تو امریکہ کو معصوم زندگیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ انھوں نے موجودہ قوانین اور پالیسیوں کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو فوجی امداد فوری طور پر بند کرنے کے مطالبہ بھی کیا۔ مگر اس خط کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ بائيڈن یہ حملہ رکوانے میں ناکام رہا۔ رہا  امداد کا مسئلہ؛ تو جس طرح اسرائیل کو سالانہ امداد دی جارہی تھی وہ جاری ہے؛ بلکہ امریکی ایوان نے 26 ارب ڈالر کا ہنگامی امداد کا بل بھی منظور کیا ہے۔

نیتن یاہو میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ رفح شہر پر حملہ کرکے رفح کراسنگ، جو انسانی بنیادوں پر کارروائیوں کا مرکز ہے، اسے ختم کردیا جائے۔ خوراک، پانی، صحت اور صفائی کی جو قدرے سہولیات میسر ہے، انھیں بھی ختم کردی جائے۔ تقریبا پندرہ لاکھ لوگ جو وہاں پناہ لیے ہوئے ہیں، وہ ایک بار پھر ادھر ادھر بھٹکیں اورپریشان ہوں۔ یاہو کی چاہت پوری ہورہی ہے۔ اب لوگوں کو مناسب طبی امداد نہیں ملے گی، بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوگا، خوراک کی قلت ہوگی اور مزید جانیں ضائع ہوں گی۔ سوچنے کا مقام ہے کہ جنگ بندی کی جو تجاویز مصر اور قطری ثالثوں کی طرف سے پیش کی گئی تھیں، انھیں حماس نے قبول کرلیا تھا، مگر آئندہ دن یعنی سات مئی کو رات میں اسرائیلی ٹینکوں نے پیش قدمی کرکے، رفح سرحدی گذرگاہ پر قبضہ کرلیا، اسے دونوں جانب سے گزرنے اور مصنوعات کے داخلے کے لیے بند کردیا اور صہیونی قابض افواج نے طیاروں سے کارپٹ بمباری کر دی، جس کے نتیجے میں بیس سے زائد فلسطینی شہید ہو ئے اور مشرقی رفح میں بمباری سے دس سے زائد مکانوں کو تباہ کردیا گیا۔

صہیونی ریاست تمام بین الاقوامی اور عدالتی قراردادوں کی بے توقیری کر رہی ہے اور غزہ کی پٹی پر نسل کشی کی مجرمانہ جنگ کو روکنے کے مطالبات کو کھلم کھلا نظرانداز کرکے، اپنے جنگی جرائم کو وسعت دے رہی؛ کیوں کہ اسے کچھ بڑی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے غزہ میں جنگ بندی پر عمل درآمد کے حوالے سے جنوبی افریقہ کی درخواست پر، بروز: جمعہ 24/ مئی 2024 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے میں یہ احکامات جاری کیے گئے کہ “اسرائل فوری طور پر رفح میں فوجی آپریشن روکے۔ اسرائیل ایک ماہ کے دوران غزہ کی پٹی میں صورتحال بہتر بنانے کے اقدامات کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کرے۔ مصر کی جانب سے رفح کی اہم راہداری کو انسانی امداد کی فراہمی کے لیے کھولے۔ غزہ میں حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے تفتیش کاروں کو مکمل رسائی فراہم کرے۔” ان احکامات کے آنے کے اگلے ہی دن: 25/ مئی کو صہیونی افواج نے رفح شہر سمیت غزہ کی پٹی میں کئی مقامات پر بمباری کی۔ عالمی عدالت کی حکم عدولی کرتے ہوئے غزہ کے رفح کیمپ میں، اپنی جارحیت بھی جاری رکھی اور بروز: اتوار 26/ مئی کی شام کو اقوام متحدہ کی جانب سے محفوظ قرار دیے گئے کیمپ پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں 75 سے زائد فلسطینی زندہ جل کر شہید ہوگئے اور درجنوں جھلس کر زخمی ہو گئے۔ اس حملے سے ناراض، فلسطین میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ: فرانسسکا البانی نے رفح میں، خیمے پر اسرائیل کے حملے کو خوفناک قرار دیتے ہوئے اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ ظلم، بین الاقوامی قانون اور نظام کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، یہ ناقابل قبول ہے۔

صہیونی افواج کے رفح پر تابڑ توڑ حملے سے عالمی برادری میں ایک طرح کی بے چینی پائی جارہی ہے؛ مگر وہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں؛ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ صہیونی افواج نے 26/ مئی کی شام جو حملے کیے، اس کی ہر طرف سے مذمت جاری ہی تھی کہ اس نے بروز: منگل، 28/مئی کو رفح کے مغرب میں، فلسطینی پناہ گزینوں کے ایک کیمپ پر ٹینک سے گولے برسائے، جس میں کم از کم اکیس افراد شہید ہوگئے۔ ٹینک کے چار گولے المواسی میں نصب خیموں کے درمیان گرے؛ جب کہ یہ وہ ساحلی علاقہ ہے جہاں صہیونی ریاست نے شہریوں کو محفوظ رہنے کے لیے منتقل ہونے کا مشورہ دیا تھا۔

اس دوران ایک اہم خبر مغربی یورپ سے آئی ہے۔ وہاں کے تین ممالک: اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے بروز: منگل، 28/ مئی کو فلسطینی ریاست کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان ملکوں نے یہ فیصلہ اسرائیل پر عالمی برادری کا دباؤ بڑھانے کی غرض سے کیا ہے؛ تاکہ حماس کے پچھلے سال سات اکتوبر کو کیے گئے حملے کے جواب میں، حد سے بڑھے ہوئے اور تباہ کن اسرائیلی حملے اور طویل جنگ کو روکنے میں کردار ادا کر سکیں۔ ان ممالک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، یورپی ملک سلووینیا کے وزیر اعظم روبرٹ گولوب نے بھی 31/ مئی کو فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فلسطین کو اب تک 140 سے زیادہ ممالک تسلیم کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود فلسطین کو ابھی تک اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت نہیں ملی؛ جب کہ صہیونی ریاست کو1947 میں ہی مستقل رکنیت مل گئی تھی۔

آج صہیونی قابض ریاست اپنے جنگی جرائم کو آگے بڑھانے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ شہری آبادی کو ویران  کرکے، وہاں کے مکینوں سے انتقام لینے کی مذموم کوشش کر رہی ہے۔ غزہ کے معصوم لوگوں کے خلاف انتہائی ہولناک قتل عام کررہی ہے۔ ماضی قریب میں، غزہ میں جو مکانات، اسپتال، مساجد، عبادت گاہ، تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے، وہ سب کے سب کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب تک 36 ہزار سے زائد معصوم بچے، خواتین اور بزرگ صہیونی حملے کا نشانہ بن کر، ابدی نیند سو چکے ہیں اور 82 ہزار سے زائد لوگ زخمی  ہیں۔ مگر فلسطینی عوام کی استقامت، ثابت قدمی اور بہادرانہ مزاحمت کے سامنے صہیونی افواج کے سارے بم اور میزائل ناکام ہیں۔ اگر عالمی برادری چاہتی ہے کہ فلسطینیوں پر حملے بند کیے جائیں اوران کو ان کا جائز حق ملے؛ تو صہیونی ریاست پر پابندیاں عائد کرنی چاہیے اور جن ممالک کا بھی اس کے ساتھ سرمایہ کاری کا معاہدہ ہے، اسے فورا معطل کردینا چاہیے۔

●●●●

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com