عورت گھر کی زینت ہے، نہ کہ احتجاج کی رونق

فضل الر حمان قاسمی الہ آبادی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھلا کس مسلمان کو محبت نہیں؛ اللہ تبارک و تعالی نے بھی قرآن مجید میں نبی سے محبت پر آمادہ کیا ہے، ادنی سے ادنی مسلمان بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور پاکیزہ شریعت پر ہفوات و بکواس کو ہرگز ہرگز برداشت نہیں کرسکتا، حال ہی میں جی نیوز چینل کے پروگرام ” فتح کا فتوی “جس میں اسلامی شریعت کی تقدس کو پامال کیا جارہا ہے، ملک کے مختلف علاقوں میں شدید مخالفت جاری ہے تمام مکتب فکر اور ہر شعبہ کے مسلمان اپنے اپنے انداز سے احتجاج بلند کر رہے ہیں اور شریعت سے اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ثبوت دے رہے ہیں ، ایشیا کی عظیم اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند کے طلباء نے اس احتجاج کا آغاز کیا اور اب طول و عرض میں یکے بعد دیگرے احتجاج ہورہے ہیں، لیکن ایسا احتجاج بھی نکالا گیا جو حیران کن ہے، وہ بھی مقدس زمین دیوبند سے نکالا گیا، خواتین کا احتجاج بھی طارق فتح کے خلاف نکالا گیا، حالانکہ دیوبند کی تاریخ میں پہلی بار ہے جب کسی احتجاج میں عورتیں سڑکوں پر آئیں ہوں، میں جب یہ سنا مجھے عجیب سا لگا، مذہب اسلام تو عورتوں کو گھر کی زینت قرار دیا ہے، قرآن کریم میں نبی کی بیویوں کو خطاب کرکے یہ حکم دیا جارہا ہے۔ اے نبی کی بیویوں! تم اپنے گھر کو لازم پکڑو اور جاہلیت کی طرح نہ پھرو۔
مذہب اسلام جب عورتوں کو نماز جیسی عظیم عبادت کے لئے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نیں دیتا اور عورت کی بہترین نماز گھر کی کوٹھری میں قرار دیا ہے، بھلا اس مذہب کی عورتوں کا سڑکوں پہ احتجاج کرنا قطعاً کسی بھی قیمت پر مناسب نہیں، میں اس کی سخت مخالفت کرتا ہوں، عورتوں کو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا حق ہے لیکن اس جدید دور میں بہت سارے ذرائع ہیں جس کے ذریعہ حکومت ہند تک اپنی بات پہونچائی جاسکتی ہے اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ شریعت سے محبت کا اظہار کیا جاسکتا ہے،
دیوبند کی زمین پر یہ پہلا موقع تھا جب خواتین سڑکوں پر احتجاج کے لئے آئیں، حالانکہ اس سے بڑے بڑے فتنہ کا ہندوستانی مسلمانوں نے اور ھمارے پاکیزہ نفوس علماء دیوبند نے مقابلہ کیا، پر کیا کبھی ہمارے اکابرین نے بھی اس طرح سے سڑکوں پر خواتین کو پر لایا؟ دیوبند جیسی مقدس زمین پر جس زمین سے علم کے سرچشمہ جاری ہوئے اور اس سے پوری دنیا سیراب ہوئی اور ہورہی ہے، اس زمین سے ایک غیر ضروری آغاز قطعاً مناسب نہیں، اسلامی شریعت کے منہج کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جذبات سے کوئی کام نہیں ہوتا، نام نمود سے ہٹ کر اخلاص کے دامن کو تھامتے ہوئے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور علماء دیوبند کے مسلک کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے۔
اسلامی شریعت کو بغور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ غیر ضروری امور سے کلی طور پر پرہیز کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات سے بھی ہمیں بچنا چاہیئے کہ ہماری وجہ سے کوئی نئی چیز کا آغاز ہو، آج اگر دیوبند کی سڑکوں پر خواتین پردہ کے اہتمام کے ساتھ احتجاج بلند کیا، کل وہ دن دور نہیں، جب بے پردہ ہوکر معمولی معمولی باتوں پر خواتین کے احتجاج کا آغاز ہوگا، اور اسلامی شریعت کا کھلا مذاق اڑے گا، ہر کام ظاہری بصارت سے نہیں، بصیرت سے کرنے کی ضرورت ہے، علماء دیوبند کی تاریخ کو اچھی طرح مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، یھی وہ پاکیزہ نفوس ذاتیں ہیں جنھوں نے ہندوستان میں ایسے وقت میں اسلام کی چراغ کو روشن کیا جب ہندوستان میں اسلام کا چراغ بجھنے کے قریب تھا، اکابر علماء دیوبند کے زمانے میں بھی ہر طرح سے فتنوں کا وجود ہوا اور اس سے بڑے بڑے فتنوں کا مقابلہ کیا تھا، کیا ہمارے اکابرین علماء دیوبند نے بھی عورتوں کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا تھا، شریعت کی مکمل پاسبانی کرتے ہوئے جن اسباب و ذرائع کے ذریعہ پاکیزہ نفوس علماء دیوبند نے فتنوں کا مقابلہ کیا تھا انہی پر ہمیں بھی عمل پیرا ہونا چاہیے، جدید آلات کا بھی سہارا بھی ضروری ہے لیکن ضروری شریعت محمدیہ کی مکمل پاسبانی کرتے ہوئے۔ اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ نصیب فرمائے … آمین …