مولانا ندیم الواجدی
اسلامی ملکوں میں سعودی عرب کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ وہاں حرمین شریفین ہیں، جن سے دنیا کا ہر مسلمان عقیدت ومحبت رکھتاہے، وہاں کے فرماں رواؤں کو عزت و توقیر کی نظر سے دیکھا جاتاہے کیوں کہ وہ ان دونوں مقدس مقامات کے نگہبان ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان سعودی عرب کے ہر اقدام کی تائید کرتے ہیں، اس کی انگلی میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ اپنے دل میں اس کی ٹیس محسوس کرتے ہیں، یمن کی آئینی حکومت کے تحفظ کی خاطر حوثی باغیوں کی سرکوبی کے لیے سعودی فوجی اتحاد کے جنگی جہاز جب تک یمن کی فضاؤں میں محو پرواز رہے تمام مسلمانوں کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے رہے، سعودی حکومت نے ایران سے اپنے دو طرفہ تعلقات منقطع کئے تو ہر مسلمان نے خوشی کے شادیانے بجائے، پاکستان کے ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پینتس اسلامی ملکوں کا عظیم تر فوجی اتحاد بنایا گیا تو شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہوگا جس نے سعودی حکومت کے اس فیصلے کا استقبال نہ کیا ہو اور اسے شاہ سلمان کی دانش مندی اور بصیرت سے تعبیر نہ کیا ہو، امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلم دشمنی عالم آشکارا ہے، اس کے باوجود سعودی عرب کی راجدھانی ریاض میں ان کا پرجوش استقبال کیا گیا، ان کی ضیافت پر ملینوں ڈالر خرچ کردئے گئے اور ان سے اربوں ڈالرز کے سودے کر لیے گئے، مسلمانان عالم نے اسے بھی سعودی عرب کی ڈپلویسی پر محمول کیا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سعودی عرب کے ہر اقدام کی تائید و تحسین کی جائے خواہ وہ امت مسلمہ کے مفاد میں ہو یا نہ ہو، دودن پہلے سعودی عرب نے اچانک ہی اپنے پڑوسی ملک قطر سے اپنے تمام سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کردیا، یہاں تک کہ اس نے قطر سے ملنے والی اپنی زمینی اور آبی سرحدیں بھی بند کردیں خاص بات یہ ہے کہ قطر کی زمینی سرحد صرف سعودی عرب سے ملتی ہے، اس اعلان کے چند منٹ بعد ہی بحرین، متحدہ عرب امارات، یمن اور مصر نے بھی قطر سے اپنے تعلقات ختم کرلئے، شام ہوتے ہوتے مالدیپ بھی تعلقات توڑنے والے ملکوں کی صف میں آکر کھڑا ہوگیا اور اب مشرقی لیبیا کی حکومت بھی اسی راہ پر گامزن ہے، خبر آئی ہے کہ موریطانیہ بھی اس فہرست میں شامل ہوچکا ہے، امریکہ کے تلوے چاٹنے والے مسلم ملکوں کی یہ فہرست ابھی اور لمبی ہوسکتی ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا شمار قطر کے اہم تجارتی شراکت داروں میں ہوتا ہے، سال گزشتہ کے اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ قطر کے کل تجارتی تبادلے کی مجموعی مالیت پینتالیس ارب قطری ریال رہی، اس میں سینتس ارب قطری ریال کی تجارت صرف خلیجی ملکوں بالخصوص سعودی عرب اور عرب امارات سے ہوئی، بائیکاٹ کے اس فیصلے سے یقینی طور پر قطر کو بڑا نقصان ہونے والا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس چھوٹے سے ملک میں جس کا کُل رقبہ گیارہ ہزار چار سو پینتس مربع کلو میٹر ہے اور جس کی کُل آبادی ستائیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے غذائی بحران کا شکار ہوجائے، خبر ہے کہ قطر کے شہریوں نے غذائی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی ہے، اس سے ملک میں غذائی اشیاء کی قلت کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے ، یقینی طور پر ملک میں افراط زر کی شرح بھی بڑھے گی اور شہریوں میں خوف و ہراس بھی پیدا ہوگا، سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا مقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قطر میں اقتصادی اور غذائی بحران پیدا کیا جائے اور وہاں کے شہریوں کو قطر کے موجودہ حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر اترنے کے لیے مجبور کیا جائے، قطر کی گھیرا بندی اتنی مکمل ہے کہ ان تمام ملکوں نے اس کے لیے اپنی فضائی حدود تک بند کردی ہیں، یعنی قطر کے مسافر طیارے نہ ان ملکوں میں سے کسی ملک کے ایئر پورٹ پر اترسکیں گے اور نہ کسی ملک کی فضائی حدود عبور کرکے دوسرے ملکوں تک رسائی حاصل کرپائیں گے، کہا جارہا ہے کہ قطری حکومت شاید یہ جھٹکا برداشت نہ کرسکے، کیوں کہ قطر ایئر ویزا ان ملکوں کی فضائی حدود عبور کئے بغیر ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ تک نہیں پہنچ سکتی، اگر وہ دوسرا کوئی متبادل راستہ اختیار کرتی ہے تو اس کے لیے منزل تک پہنچنے میں وقت بھی زیادہ درکار ہوگا اور ایندھن بھی زیادہ خرچ ہوگا، اور اب یہ مسافروں کے صواب دید پر منحصر ہوگا کہ وہ سفر کا فاصلہ کم وقت میں طے کرنا پسند کرتے ہیں یا زیادہ وقت میں طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، بہ ہر حال اس فیصلے سے قطر کا بہت کچھ داؤ پر لگ چکا ہے، اگر یہ بائیکاٹ برقرار رہتا ہے تو قطر کی رفتار ترقی کو بریک بھی لگ سکتا ہے، مصر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ایک لاکھ اسی ہزار افراد کو قطر سے واپس بلا رہا ہے، یہ لوگ قطر میں انجینئرنگ، تعمیرات، طب اور قانون کے شعبوں سے وابستہ ہیں اور وہاں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں، ایک دم اتنے لوگوں کے انخلاء سے تمام سرگرمیاں ٹھپ پڑسکتی ہیں، اور کاروبار زندگی متأثر ہوسکتا ہے، ۲۰۲۲ء میں فٹبال کا ورلڈکپ قطر میں ہونا ہے، اس کی تیاری زور وشور سے جاری ہے، اس صورت حال میں قطر ورلڈکپ کی میزبانی سے بھی ہاتھ دھوسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس چھوٹے سے ملک قطر سے کیا غلطی سرزد ہوگئی جو اس کو اتنی بڑی سزا دی گئی ہے، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جو ممالک آج تک اپنے ازلی دشمن اسرائیل کا بائیکاٹ نہ کرسکے وہ قطر جیسے چھوٹے سے ملک کے بائیکاٹ پر کس طرح متفق ہوگئے، بعض لوگ تو یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ سعودی عرب ایران کو اپنا دشمن سمجھتا ہے، اور قطر کے بائیکاٹ کے پیچھے ایران کے لئے قطری حکومت کے نرم رویّے کو بھی منجملہ اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا جارہا ہے، سب سے پہلے تو ایران کا مکمل بائیکاٹ ہونا چاہئے تھا، آخر اسے کیوں چھوڑا جارہا ہے، اور ایران کی طرف جھکاؤ کا الزام لگا کر قطر کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے،حالاں کہ ایران کے لیے نرم رویّہ تو کویت اور سلطنت عمان کا بھی ہے، آخر ان کو کیوں بخشا گیا، سعودی عرب کے خبر رساں ادارے نے 5 جون کو اپنی خبر میں بتلایا ہے کہ سعودی حکومت نے اپنے اتحادی قطر کے ساتھ دہشت گردوں کی مبینہ معاونت کے باعث سفارتی تعلقات ختم کرلئے ہیں، کیا واقعی قطر دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے، ابھی تک سعودی عرب سمیت کسی بھی ملک نے اس حوالے سے کوئی مستند دستاویز جاری نہیں کی ہے، اور جاری ہو بھی نہیں سکتی، کیوں کہ کسی کے پاس بھی قطر کے خلاف اس طرح کا کوئی ثبوت موجود ہی نہیں ہے کہ وہ دہشت گردوں کی مالی یا اخلاقی مدد کرتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ قطر کے امیر شیخ تمیم الثانی اپنی تقریروں میں ایران کے خلاف امریکی دھمکیوں پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں، حالاں کہ انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ ایران کے ساتھ ہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ یمن کے حوثی قبائل کے خلاف مسلح جدو جہد میں سعودی عرب کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیںجن کی پشت پناہی ایران کررہا ہے، اب قطر کو اس اتحاد سے بھی باہر کردیا گیا ہے، اور پینتس اسلامی ملکوں کے عسکری اتحاد سے بھی اس کو الگ کردیا گیا ہے، صدر ٹرمپ ریاض آئے اور انھوں نے پچاس اسلامی ملکوں کی نمائندہ ہستیوں سے خطاب کیا، اس موقع پر صدر ٹرمپ، سعودی شاہ سلمان اور مصر کے ڈکٹیٹر جنرل سیسی کی باہمی ملاقات سے لوگوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ مشرق وسطی میں کوئی نیا شگوفہ کھلنے والا ہے، اس ملاقات کو دو ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ شگوفہ سامنے آگیا، صدر ٹرمپ نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کے دباؤ سے عرب اقوام نے انسداد دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے خلیجی ریاست قطر کو تنہا کیا ہے، کیوں کہ انتہا پسندی کی عملی حمایت کے تمام اشارے قطر کی جانب ہیں‘‘ حقیقت یہ ہے کہ جنرل سیسی کو ساری پریشانی اخوان المسلمین سے ہے، یہ وہ جماعت ہے جس نے ساٹھ سال تک مصر میں آمریت کے خلاف جدو جہد کی اور۲۰۱۳ء میں وہ انتخابات کے ذریعے عوامی مینڈیٹ حاصل کرکے ایوان اقتدار میں پہنچی: مگر مغربی ملکوں اور اسلام دشمن طاقتوں کو ان اسلام پسندوں سے خطرہ نظر آیا تو انہیں فوجی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار سے محروم کردیا، اس کے رد عمل میں مظاہرے کئے گئے تو چھ ہزار پر امن مظاہرین کو شہید کردیا گیا اور پانچ سو انتیس افراد کو سزائے موت سنادی گئی، قطر واحد ایسا ملک تھا جس نے اخوان المسلمین کو اخلاقی مدذد فراہم کی اور دنیا کے سامنے اپنا موقف رکھنے کے لئے اسے پلیٹ فارم مہیا کیا، بس قطر کی یہی بات جنرل سیسی کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے،سعودی فرماں روا شاہ سلمان کی پریشانی قطر کا آزاد میڈیا ہے جو اکثر وبیشتر سعودی عرب سمیت خلیجی ملکوں کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتاہے، ایران تو ایک بہانہ ہے، قطر کی حماس دوستی اور فلسطینی کاز کے لیے اس کی حمایت بھی ڈھکی چھپی چیز نہیں، قطر ۱۹۶۷سے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے،، حقیقت میں تو یہ لوگ قطر کے کندھے پر بندوق رکھ کر اخوان کو دنیا سے ختم کرنا چاہتے ہیں،اور اس میڈیا کا گلا گھونٹنا چاہتے ہیںجو خلیجی ملکوں کے فرماں رواؤں کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے، اگر قطر نے اس سلسلے میں پس وپیش کیا تو بہت ممکن ہے اس کا حشر بھی عراق، لیبیا اور شام جیسا ہو، شاہ سلمان اور جنرل سیسی کی ٹرمپ دوستی سے اب ترکی کو بھی ہوشیار رہنا ہوگاکیوں کہ اگلا نمبر اسی کا ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com