…. کہ نیند شرط نہیں ہے خواب دیکھنے کے لیے

ڈاکٹر زین شمسی
مسلم ایم ایل اے کی طرف کیوں دیکھیں؟ کیوں انہیں بھی نتیش کی طرح غداری کرنے کے لیے اکسائیں۔
کیا ہم نے ٹھیکہ لے لیا ہے سیکولرازم کا، کیا سیکولرازم کا مطلب صرف مسلمان ہے۔
اچھوت تھی بی جے پی ، کوئی نہیں جانا چاہتا تھا اس کے ساتھ ، در در بھٹکتے تھے ان کے نیتا ،کوئی نہیں رکھتا تھا انہیں اپنے سنگ اور 10-15سال میں ایسا ہو گیا کہ اب اس کے لیے ہی سب اچھوت ہو گئے۔ وہ جسے چاہتی ہے اپنے ساتھ رکھ لیتی ہے اور جسے چاہتی ہے دور کر دیتی ہے۔
کب تک مسلمان ہی اس سے پنگا لیتا رہے گا، کیا بی جے پی کا بڑھنا یا سیاسی طور پر اس کا سب پر چڑھنا ، ہندوستان کے لیے بہتر ہے۔ اگر یہ بات کوئی نہیں مانتا تو کیوں مسلمان ہی ٹھیکیدار بنے رہیں ۔ مسلمانوں نے پوری کوشش کی اسے روکنے کے لیے ، جو بھی پارٹی آئی مسلمانوں کے در پر کہ ہم بی جےپی کو روکنا چاہتے ہیں ، آر ایس ایس کو دبانا چاہتے ہیں ، مسلمانوں نے اس کی بھرپور حمایت کی، لیکن بدلے میں اسے کیا ملا؟
ترنمول کانگریس ہو ، بی ایس پی ہو، ایس پی ہو یا جے ڈی یو ہو، جنوبی ہند میں جے للتا ہو ، یا کشمیر میں محبوبہ ہو ، سب نے مسلمانوں سے ووٹ لیا اور بی جے پی کا بیڑا پار کیا۔
آج ہم جے ڈی یو کے لیڈران سے یہ توقع کر بیٹھیں کہ وہ پارٹی چھوڑ دیں ، تو یہ سیاسی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی غلط ہوگا۔ یہ سیاسی گلیاں ہیں یہاں رات میںگولی مارنےوالے صبح میں جنازہ کی نماز پڑھاتے ملاکرتے ہیں۔
مسلم لیڈروں کو کوسنے کی ضرورت نہیں ، یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اب اس حالات میں کیاہندوستان میں ایک مضبوط مسلم پارٹی کاقیام ہونا چاہیے یا نہیں ، یا پھر اس پارٹی کو جو مسلم مفاد کی بات کرتی ہے ، اسے بڑھایا جائے یا نہیں۔ یا ابھی اور بھی کچھ منفی دیکھنے کی تمنا ہے۔ ایک اویسی جب نکلتا ہے تو چاروں طرف سے آواز آنے لگتی ہے کہ دیکھو بی جے پی کا ایجنٹ جا رہا ہے۔ ایک پل کے لیے نہیں سوچتے کہ اگر وہ ایجنٹ ہی ہے تو کم سے کم اپنا تو ہے۔ کچھ مانگے گا تو اپنوں کے لیے ہی مانگے گا، میں نہیں کہتا کہ اویسی کو سپورٹ کیجئے ، مگر کچھ تو کیجئے کہ کھونے کے بعد بھی آپ کے ہاتھ خالی نہ رہیں۔
ہندوستان آزاد ہوا اور پھر ٹوٹ گیا۔ داغ داغ اجالے کے ساتھ صبح کاذب کا گمان ہوا۔ بھارت میں رہ جانے والے یا رُک جانے والے یا روک دئے جانے والے مسلمانوں نے نہرو اور گاندھی پر آنکھ موند کر یقین کیا۔ گاندھی اور نہرو نے بھی مسلمانوں کے یقین کو شرمندہ نہیں کیا۔ آئین اور قانون نے مسلمانوں کو وہ سب رعایتیں دیں ، جس سے وہ ہندوستان کےمین اسٹریم میں آ سکتے تھے۔انہیںوہ تمام سہولیات مہیا کیں ،کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔ 1960-65 کی دہائیوں تک مسلمان بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ، لیکن اس کے بعد کیا ہوا ، سب کے سب ریٹائر ہوئے اور نئی نسل اس جگہ کو پُر نہیں کر سکی۔ حتیٰ کہ ہندو جاگیرداروں نے زمینداری کے خاتمہ کی آہٹ سنتے ہی سیاست میں اپنی جگہ بنا لی اور مسلم زمینداروں نے زمین چھین جانے کے باوجود ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ ایک ٹکڑا زمین کے بچے رہ جانے کو ہی زمینداری سمجھتے رہے۔ظاہر ہے مسلمانوں کے اس خواب غفلت کو سمجھتے ہوئے پارٹیاں نے بھی اپنا مزاج بدلا۔
نہرو کی موت کے بعد سیاست تبدیل ہوئی ، سماج وادی تحریکوں نے رنگ پکڑا ، مگر مسلمان ندارد رہے ، وہ اب بھی کانگریس کا دامن تھامے رہے ، کانگریس کے پاس ان کو دینے کے لیے اب جو بچا تھا وہ صرف یہ تھا کہ انہیں آر ایس ایس کا خوف دے دیا جائے ، اور اس نے بخوبی دیا۔ مسلمانوں کے کچھ علما کو پیسہ کا لالچ دے کر تنظیمیں کھڑی کرنے کی چھوٹ اس شرط پر دے دی کہ مسلمانوں کی بڑی آبادی کانگریس کو ووٹ کرتی رہے اور بدلے میں تنظیموں کو رعایتیں ملتی رہیگی۔ یہ رویہ آج تک جاری و ساری ہے۔
یہ سوچنے کا وقت ہے کہ 60-65 سال کی سیکولر سیاست کو مودی نے تین سال میں کیسے ختم کر دیا۔ کیا یہ صرف مودی کی نفرت کی سیاست کا کمال ہے،؟ نہیں ؛ بالکل نہیں۔ مودی نے کچھ نہیں کیا ہے۔ اس نے صرف اس ذہنیت کو کیش کر لیا جو کانگریس کے زمانہ سے لوگوں کے ذہن میں کچوکے لگا رہا تھا۔ تقسیم تک کا فساد تو دو قومی نظریہ کی ایجاد تھی ، لیکن تقسیم کے بعد کا فساد کیا معنی رکھتا ہے ۔ اس کے صرف ایک ہی معنی نکلتے ہیں کہ اس نظریہ کو پکنے دو جو تقسیم سے پہلے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان گھر کر گئی تھی کہ دونوں آپس میں بھائی بھائی بن کر نہیں رہ سکتے ۔ ورنہ فساد کو روکا بھی جا سکتا تھا اور اس کے اثرات و نتائج کو مشتہر کر کے عوام میں امن و آشتی کا دریا بھی بہایا جا سکتا تھا ، لیکن مسلسل فسادات ہوتے رہے اور کسی کو کوئی سزا تک نہیں دی گئی، فسادات نے گاندھی کی بھائی چارگی کانظریہ پھلنے پھولنے نہیں دیا۔ ظاہر ہے کہ حکومت کانگریس کی تھی اور اس کے پس پشت آر ایس ایس اپنا کام کرتی رہی۔ مسلمان پٹائی کے بعد جھوٹی ہمدردی کے نرغے میں تھے اور ہندوستان آہستہ آہستہ فرقہ پرست ہوتا جا رہا تھا۔
اب منسٹری ہو یا کالج یا یونیورسٹیاں ، فوج ہو یا عدالت ، سماجی خدمتگار ہوں یا پنڈت یا بابا، سب کے سب بھگوا رنگ میں رنگ رہے ہیں یا رنگے جا رہے ہیں۔ آپ خود سوچئے ۔ 70سال کی کانگریس حکومت کاموازنہ بی جے پی کی تین سال کی حکومت سے کیجئے۔ سب کچھ خود بخود بی جے پی کے حق میں جاتا ہوا نظر آ رہا ہے ، اس کا مطلب کیا ہوا ، اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ خام مال پہلے سے تیارتھا اب پروڈکشن شروع ہے۔ ایسے میں آج بھی ہم مسلم ایم پی ، مسلم ایم ایل اے کا رونا رو رہے ہیں۔
دغا بازی قومی پارٹیوں کا شعار نہیں ہوا کرتیں ، دغا بازیاں لوکل یعنی علاقائی پارٹیاں کیا کرتی ہیں۔ جس کا اندازہ اب کم از کم ہو ہی جانا چاہیے۔
بہار کے اس پورے گھٹنا کرم کا تجزیہ کرتے ہوئے آج بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ نتیش کا بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے سے کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا ،کیونکہ لالو یادو اور کانگریس کی مضبوط اپوزیشن اسے کچھ بھی نہیں کرنے دے گی اور یہ بھی دلیل دی جا رہی کہ اس سے قبل 2005میں بھی بی جے پی اور جےڈی یو نے بہار میں حکومت کی ہے اور بی جے پی کی ایک نہ چلی۔
ارے بھائی !اس وقت مرکز میںاین ڈی اے کی حکومت کی تھی ،اب بی جے پی کی ہے ، بلکہ مودی سرکار کی ہے۔ ایسے میں اس بھول بھلیاں میں مت پھنسئے گا کہ کچھ نہ ہوگا ۔ اب یہ ہوگا کہ سشیل مودی بولیں گے اور نتیش کو خاموش رہنا ہوگا ، ورنہ نتیش اپنا دور پورا بھی نہیں کر پائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ اب اگر بی جے پی نے حمایت چھین لی تو نتیش کو تو چلو بھر پانی بھی دستیاب نہیں ہوگا ڈوبنے کے لیے ۔، ایسے میں وہ بھی محبوبہ کی طرح ریاست کو جلتے ہوئے دیکھیں گے اور مودی مودی کی رٹ لگائے رہیں گے۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ کشمیر جل رہا ہے اور محبوبہ مفتی مودی کے حق میں فتویٰ نکال رہی ہیں۔ اب شراب بندی تو چھوڑیئے ، گئورکشکوں کی پوری ٹیم ہندوستان کے کونے کونے سے بہار کا ٹکٹ خرید رہی ہوگی ۔ آپ ریزرویشن اسٹیٹس دیکھ لیجئے۔
بقرعید میں گھر جانے کے لیے سوچ رہا تھا ،لیکن اب تو گھر والوں کو اللہ محفوظ رکھے۔ بہاریوں کی بقرعید خوف کے سائے میں گزرنے والی ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ نتیش کو اگلا الیکشن جیتنے کے لیے گئورکشکوں کی ضرورت پڑے گی؟
بہرحال عالمی پیمانے پر ہم نے متحدہ روس کو بغیر ایک قطرہ خون بہے ٹوٹتے دیکھا تھا، اور اب بہار کو بغیر الیکشن ہوئے بی جے پی کے نرغے میں جاتے ہوئے دیکھا۔
تو اب کیا؟ اب اتنے بڑے دھکے کے بعد بھی ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔
اب بتولے بازی کا زمانہ گیا، اب میدان عمل میں آ جایئے۔ سوال جس زبان میں کیا جائے جواب بھی اسی زبان میں تیار کیجئے۔ سیاست کا مقابلہ سیاست سے ہی کیجئے۔ سسٹم میں رہ کر سسٹم سے مقابلہ کرنا ہوگا، اپنا سسٹم بنانا ہوگا۔ مسلم قائدین اپنا کام کریں یا نہ کریں ، مسلم علما اپنا کام کریں یا نہ کریں۔ ادھر جھانکنے کی ضرورت نہیں۔ کسی سے کوئی استعفیٰ مانگنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس فارمولہ سے دیکھیں تو کیا اس سیاسی اٹھا پٹھک کے درمیان عامر سبحانی کو بھی استعفیٰ دینا چاہیے ، یا بی جے سرکار میں بڑے یا چھوٹے عہدے پر فائز ملازمین کو بھی مستعفی ہو جانا چاہیے۔ کیا یہ کوئی جواب ہے۔کوئی جواز ہے۔ بالکل نہیں۔ اب صرف اتنا کرنا ہے کہ مسلم مفاد کے لیے ایک مضبوط پارٹی کی بنیاد رکھیں۔اور ہاں اس مشن میں آزمائے ہوئے لوگوں کو مت آزمایئے۔ اسی سماج میں ایماندار لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ کہیں چھپے ہوئے ہیں، انہیں ڈھونڈیئے ، ان کی بات سنئے ، سمجھئے اور انہیں تیار کیجئے۔ ایک ایسی فورس تشکیل کرنی ہوگی جو پریشر گروپ کا کام کرے اور آگے چل کر اقتدار کی چابی اپنے ہاتھ میں لے کر گھومے۔
تیاری کیجئے گا تو ہو سکتا ہے۔ ہندوستان کی زمین زرخیز ہے ، یہاں سبھی راستے ہیں اور سبھی کے لیے راستے ہیں۔تاہم پنگھٹ کی ڈگر کٹھن ہے، مگر کھٹنائی میں تو ہم سب آ ہی چکے ہیں۔ اب کسی بھی پارٹی پر بھروسہ گدھاپن ہے۔
دنیا میں کہیں بھی تبدلی یا انقلاب مایوسی یا گلہ کرنے سے نہیں آتا،بلکہ اُس کے لیے اٹھنا پڑتا ہے، جہدوجہد کرنا پڑتی ہے، اگر ہم نوجوان مایوسی اور نااُمیدی میں ہی رہے کہ اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا، اور یہی سوچ کر خاموش ہوجائیں تو یقیناً کچھ نہیں ہوگا۔ہمیں اُٹھنا ہوگا، ہمیں ہی کچھ کرنا ہوگا، آخرکب تک ہم بس آنسو بہاتے رہیں گے – دکھی شکلیں بنا کر گلیوں، بازاروں میں گھومتے رہیں گے۔پہلے تو ہمیں اسی لولے لنگڑے سسٹم میں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کرنا ہوگی، کیوں کہ علم کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے،
مانا کہ یہ سب اتنا آسان نہیں لیکن دنیا میں یوں ہی بیٹھے بیٹھے کامیابی نہیں ملتی، قدم قدم پر مشکلات آئیں گی، لوگ آپ کو آگے جانے نہیں دیں گے،لیکن اپنی منزل طے کرنا ہوگی، اور پھر ان خاردار راستوں پر چلنا ہوگا، وہ بھی اکیلے،بس آج سے مایوسی اور نا اُمیدی کو پیچھے چھوڑنا ہوگا- ٹوٹے دل کو جوڑنا ہوگا، سسٹم میں رہ کر سسٹم کو بدلنا ہوگا اور یہ آپ ہی کر سکتے ہیں – ، ایک قدم تم اٹھاؤ، ایک قدم میں اٹھاؤں گا، کچھ شک نہیں کہ تیسرا قدم کوئی اور اُٹھا چکا ہوگا…..
بس اُمید رکھنا کہ آج نہیں تو کل تبدیلی ضرور آئے گی!!
اٹھو یہ منظرِ شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے