پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلہ کے سامنے تمام مسلم حکمران ، عالمی لیڈران اور اقوام متحدہ کے قائدین بے بس نظر آرہے ہیں، 6 دسمبر کو ٹرمپ نے 1995 میں بنائے گئے امریکی پالیمنٹ کے ایک قانون کو عملی جامہ پہناتے ہوئے یہ اعلان کیاتھاکہ امریکہ اپنی راجدھانی تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرے گا، اس فیصلہ پر مسلم حکمرانوں کے ساتھ فرانس ، برطانیہ ، چین سمیت تمام اہم اور عالمی سربراہوں نے ردعمل کا اظہار کیا ، فیصلہ کی تنقید کی ، امریکہ سے اس اعلان کو واپس لینے کامطالبہ کیا ، عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس طلب ہوا اور عر ب حکمرانوں نے شدید مذمتی قرار داد پاس کردی۔ 13 دسمبر کو ترکی میں اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس ہوا جس میں صرف 22 ممالک کی اعلی قیادت نے شرکت کی، بقیہ نے اپنے وزرا خارجہ کو بھیجنے پر اکتفا ءکیا ، خاص طور پر قطر کی ناکہ بندی کرنے والے سعودی عرب اور اس کے ہمنوا ملکوں میں سے کسی کے سربراہ نے بذات خود شرکت نہیں کی، 18 دسمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مصر نے فیصلہ کے خلاف قرارد پیش کی ،جس کی تمام رکن ممالک نے حمایت کی ،فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا لیکن امریکہ نے ویٹو پاور کا استعمال کرکے اس قرار داد کو مسترد کردیا ۔
مسئلہ فلسطین کے حل اور مسجد اقصی کے تحفظ کیلئے دنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہیں چند مضبوط مسلم ممالک پر مرکوز ہیں جن میں سر فہرست ترکی، سعودی عرب ، پاکستان، ایران، مصر اور ملیشاءہے۔ ترکی نے اب تک سب سے سخت موقف اپنایا ہے ، او آئی سی کا فوری اجلاس طلب کرکے یہ عزم کیاہے کہ مشرقی یروشلم فلسطین کی راجدھانی ہوگی، طیب اردگان نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی بنائے جانے کے مسئلہ کو سرخ لکیر سے تعبیر کرتے ہوئے کسی بھی حد تک جانے کا عزم مصصم کرلیا ہے ، انہوں نے اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست نامزد کرتے ہوئے اپنا فلسطینی سفارت خانہ یروشلم میں قائم کرنے کا اعلان کیا ہے ، ٹرمپ کے خلاف ان کے کئی اقدامات کے بعد بی بی سی کی رپوٹ کے مطابق ترکی اور امریکہ کے سفارتی تعلقات کافی خراب ہوچکے ہیں، یہ بھی سچائی ہے کہ اسرائیل اور ترکی کے درمیان سفارتی رشتے ابھی تک قائم ہیں۔ سعودی عرب نے بھی ٹرمپ کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے ، القدس کی تحفظ کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کا عزم ظاہر کیا ہے ، ڈونالڈ ٹرمپ سے انہوں نے فیصلہ واپس لینے کی بھی اپیل کی ہے۔ جوہری توانائی کا حامل ملک پاکستان بھی فلسطینیوں کے ساتھ ہے اور وہاں بھی ٹرمپ کے فیصلہ کی شدید مذمت کی گئی ہے ، ایران بھی فلسطین کی حمایت میں سب سے آگے ہونے کا دعوی کررہا ہے ، تقریباً دنیا کے سبھی مسلم ملکوں نے اپنی حیثیت سے آگے بڑھ کر امریکہ کے فیصلہ کی مذمت کی ہے، ملیشاء کی فوج نے تو القدس کی آزادی کیلئے جنگ لڑنے کی بھی پیشکش کردی ہے۔ لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ابھی تک کسی نے معمولی عملی اقدام بھی نہیں کیا ہے ، کسی بھی ملک نے امریکی سفیر کو طلب کرکے اپنا احتجاج تک درج نہیں کرایا ہے، تیونس وہ واحدملک ہے جس نے دوسرے دن ہی اپنی پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کے ایک مذمتی قرار داد پاس کی اور امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج درج کرایا ۔
عالم اسلام اور مسئلہ فلسطین پر گہری نظر رکھنے والے معروف اسکالر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا گذشتہ دنوں ملت ٹائمز کے لئے راقم الحروف انٹر ویو لیا تھا، ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر یہ تفصیلی انٹرویو دیکھا جاسکتا ہے، اس انٹرویو میں ایک سوال تھا کہ ” امریکہ کے اس اقدام کا جواب کیسے دیا جاسکتا ہے اور کس طرح مسلم ممالک ٹرمپ کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرسکتے ہیں “ تو ان کا جواب تھا کا زبانی مذمت کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ یہ مسلم ممالک اگر ان سے سفارتی تعلقات خراب کرتے ہیں، امریکی سفیروں کو بلاکر احتجاج درج کراتے ہیں، امریکہ سے اپنے سفیروں کو واپس بلالیتے ہیں، اس کے سفیر کو یہاں سے نکال دیتے ہیں ، ادنی سفارتکاروں سے کام چلاتے ہیں، یا چند قدم اور آگے بڑھتے ہوئے سفارت خانہ بند کردیتے ہیں، امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں، ان سے تجارتی رشتے ختم کرتے ہیں تو اس کا اثر ہوگا ، امریکہ اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوگا کیوں کہ وہ انہیں ممالک کے تعاون سے اپنی معاشی حالت سے مستحکم کرتا ہے، ان سے پٹرول خریدتا ہے، ان ملکوں کا استعمال کرکے اور ہتھیار بیچ کرکے وہ اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے ، انہوں نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ سعودی عرب آج بھی اگر سختی کا مظاہر ہ کرے ۔ پٹرول دینا بند کردے تو امریکہ خود بخود جھکنے پر مجبور ہوگا۔ لیکن اب تک کسی بھی مسلم ملک نے اس طرح کے اقدام کا مظاہرہ نہیں کیا ہے دوسری جانب امریکہ اور نارتھ کوریا کے درمیان تعلقات جب خراب ہوئے تو امریکہ کے اشارے پر کویت نے وہاں کے سفیر کو ملک بدر ہونے کا حکم جاری کردیا، امارات نے بھی نارتھ کوریا کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ جون میں قطر کی ناکہ بندی کرنے کے بعد صرف 48 گھنٹوں کی مدت میں قطری سفارت کار کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر اور مالدیپ نے اپنا ملک چھوڑنے کا حکم جاری کردیا تھا۔
اکیسویں صدی میں مسلمانوں کے مسائل کی طویل فہرست ہے، کئی خطے مسلمانوں سے چھین لئے گئے ہیں، جہاں مسلمان اکثریت میں تھے آج وہاں اقلیت میں ہیں، میانمار کا روہنگیا ، چین کا سنکیانگ اور ہندوستان کا کچھ علاقہ سر فہرست ہے جہاں سے مسلمانوں کو خالی کرایا جارہا ہے، قتل عام کرکے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے لیکن فلسطین ان تمام میں سب سے اہم ہے کیوں کہ وہاں صرف عربوں اور مسلمانوں سے ان کی زمین غصب نہیں کرلی گئی ہے، انہیں ملک بدر نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان سب کے ساتھ قبلہ اول کو منہدم کرنے کی سازش جاری ہے، جس مسجد اقصی سے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا سفر شروع کیا تھا وہاں پر یہودی ہیکل سلیمانی بنانے کی تگ و دو کررہے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ رفتہ رفتہ وہ اس جانب قدم بڑھاچکے ہیں، مسجد اقصی کی نیچے وہ کھدائی کرکے معبد کی تعمیر کرچکے ہیں اور اب انہیں انتظار ہے مسجد اقصی کے منہدم ہونے کا تاکہ گرتے ہی وہ مسجد اقصی کی جگہ ہیکل تعمیر کرسکیں ۔
مسئلہ فلسطین اور تمام ایشوز کیلئے سبھی امریکہ اور اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ اصل ذمہ دار ہم اور ہمارے مسلم حکمران ہیں، قرآن میں واضح طور پر صلیبی اور صہیونی سازشوں سے خبردار کیا گیا ہے، روز اول سے اسلام اور عیسائیت کے درمیان جنگ جاری ہے ، وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں، ہمیں بھی اپنے حقو ق کیلئے بیدار رہنا چاہیئے ، جب تک ہمارے حکمراں بیدار تھے کامیابی ملی، آج ہمارے حکمرانوں نے دو گز زمین کیلئے اصل اسلامی کاز سے اپنی توجہ ہٹالی ہے تو ذلت و رسوائی مقدر بن گئی ہے۔ اقوام متحدہ اور اس طرح کے تمام ادارے بے حیثیت ہیں یا پھر صرف چند ممالک کی اجارہ داری ان پر قائم ہے ، ان سے امید لگائے بغیر مسلم حکمرانوں کو خود میدان میں آنا ہوگا، طاقت کے حصول پر توجہ دینی ہوگی، خود اپنی دنیا بنانی ہوگی۔ اس پس منظر میں او آئی سی کی جانب سے القدس کو فلسطین کی راجدھانی بنانے کا اعلان بہتر اقدام ہے اور یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com