پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
اشرف العلوم کنہواں نے اپنے سو سال مکمل کرلئے ہیں، 1338 ہجری کی بات ہے جب بہار سمیت پورے ملک میں مدارس اور دینی درس گاہوں کی تعداد نہ کے برابر تھی ، شمالی بہار میں جامع العلوم مظفر پور ، مدرسہ محمود العلوم دملہ ، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ اور جامعہ قرانیہ سمرا چمپارن کے علاوہ کوئی اور مدرسہ نہیں تھا ، سیتامڑھی کی سرزمین پر بھی کوئی مدرسہ نہیں تھا۔ اسی زمانے میں کنہواں کے ایک زمین دار شخص مرحوم واعظ گماشتہ اپنے دو نواسے کو لیکر مدھوبنی میں واقع مدرسہ محمود العلوم دملہ پہونچے، وہاں ان کی ملاقات سیتامڑھی کے ایک استاذ مولانا عبد العزیز بسنتی رحمہ اللہ سے ہوئی ، مولانا بسنتی رحمۃ اللہ علیہ نے مرحوم واعظ گماشتہ سے کہاکہ آپ کے دو بچے یہاں داخلہ لیکر تعلیم حاصل کرلیں گے لیکن پورے خطے کا کیا ہوگا، وہاں کوئی مدرسہ نہیں ہے ، کوئی تعلیم گاہ نہیں ہے ، گماشتہ مرحوم نے پوچھا آپ چاہتے ہیں کیا ہیں ، پھر مولانا نے بتایا کہ آپ اپنے علاقے میں ایک مدرسہ قائم کریں ۔ یہ بات ان کے ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگی ، گھر آکر انہوں مدرسہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا، سیتامڑھی کے ایک گاﺅں آوا پور سے تعلق رکھنے والے دارالعلوم دیوبند کے نئے نئے فاضل مولانا صوفی رمضان علی سے ملاقات کرکے اپنا منصوبہ پیش کیا ، زمین کی تلاش کا سلسلہ شروع ہوا ، مختلف جگہوں کا انتخاب ہوا لیکن بات نہیں بنی ، ایک دن مرحوم گماشتہ کے ایک کھلیان پر مولانا صوفی رمضان علی کے جانے کا اتفاق ہوا، جہاں سے انہیں علم کی بو آئی اور گماشتہ مرحوم سے کہاکہ یہاں مدرسہ قائم کیا جائے ، اس مٹی سے علم کی بو آرہی ہے ، بالآخر اسی ویران جگہ پر مدرسہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ مولانا صوفی رمضان علی دارالعلوم دیوبند کے جواں سال فاضل تھے ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی سے بھی مراسلت کا سلسلہ جاری تھا اس لئے اپنے شیخ کے نام منسوب کرتے ہوئے انہوں نے اشرف العلوم اس کا نام رکھا ۔ سوئے اتفاق مولانا صوفی رمضان علی کی عمر نے وفا نہیں کی ، 1438 میں مدرسہ قائم ہوا اور دو سال بعد 1340 میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ ان کی وفات کے بعد رفیق ہمدم مولانا عبد العزیز بسنتی رحمۃ اللہ علیہ نے دملہ سے یہاں آکر اس ادارے کی باگ دوڑ سنبھالی اور 1971 تک اشرف العلوم کے نوک پلک کو سنوراتے رہے۔
اشرف العلوم سیتامڑھی کے جس گاﺅں میں واقع ہے اس کا نام کنہواں ہے ، یہ ہندوستان کا آخری گاﺅں ہے ، یہاں ملک کی سرحد نیپال کے گاﺅں شمسی سے ملتی ہے ۔یہ بھی اتفاق ہے کہ یہ خطہ ” کنہواں شمسی “ سے مشہور ہے ایک نام ہندوستان کے گاﺅں کا اور دوسرا نام نیپال کے گاﺅں کا ہے ۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہر طرف جہالت تھی ، تاریکی تھی ، مسلمانوں میں اسلام کی صفات ندارد تھی ، ہندوانہ رسم و رواج مسلمانوں کی زندگی کا شعار بن چکا تھا، اس دور کی منظر کشی کرنے والے بتاتے ہیں کہ مسلمان چھت پوجا مناتے تھے ، ہولی کھیلتے تھے اور ایسی کئی تقریب میں حصہ لیتے تھے جو سراسر شرک ہے ، نمازہ جنازہ پڑھانے کیلئے کوئی عالم دین نہیں ملتا تھا ، مسجد وں میں سناٹا چھایا رہتا تھا ، نماز پڑھنے کیلئے لوک اکٹھے ہوجاتے تھے لیکن کوئی امام نہیں ہوتا تھا ، اس شرک اور جہالت و بدعت کے خلاف اشرف العلوم نے ایک جنگ شروع کی ، علاقے میں تعلیمی بیداری آئی ، بچوں کے درمیان حصول علم کا جذبہ پیدا ہوا، یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد فضلاء نے اس مشن کو آگے بڑھانے کا کام کیا ، مختلف علاقوں میں مدارس قائم ہوئے، مساجد کی تعمیر ہوئی ۔ اصلاح معاشرہ کی تحریک چلائی گئی ، مکاتب کا جال بچھایا گیا اور یوں تعلیمی انقلاب لانے کے مشن میں اشرف العلوم کامیاب ہوتا گیا ۔
بہار کے مدارس میں یہ سر فہرست ہے، ام المدارس کی حیثیت حاصل ہے ، عربی تعلیم کے حوالے سے ادارے کو شروع سے خصوصی امتیاز حاصل رہا ہے۔ شمالی بہار میں علم دین کے فروغ اور علماء کو تیار کرنے میں اشرف العلوم کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں یہاں کے پڑھے ہوئے 99 فیصد طلبہ کا تقریباً داخلہ ہوجاتا ہے ۔ بہار کا یہ واحد ادارہ ہے جہاں ہرسال کئی سو طلبہ کو داخلہ نہ ملنے کی بنیاد پر واپس مایوس لوٹنا پڑتا ہے، نظام تعلیم ، نصاب اور علمی ماحول کی کہیں اور کوئی نظیر نہیں ملتی ہے ۔ یہاں کا چندہ کرنے میں کبھی کسی سفیر اور استاذ کو کوئی دشواری پیش نہیں آتی ہے ، بہت سارے مدارس کے اساتذہ لائن میں لگ کر چندہ لیتے ہیں لیکن یہاں کے استاذ یا سفیر کو صاحب ثروت خود لائن میں لگ کر چندہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، بیرون ممالک میں کبھی یہاں کا چندہ نہیں ہوتا ہے ۔
اس ادارے میں راقم الحروف کو بھی حفظ دور سے لیکر عربی پنجم یعنی سات سالوں تک تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملاہے اور میری کامیابی کا پورا سہر اسی ادارہ اور یہاں کے اساتذہ کرام کو جاتا ہے ، میری طالب علمانہ زندگی کے وہ ایام سب سے حسین ، خوبصورت اور بیش قیمت ہیں جو یہاں گزرے ہیں ، دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں کے مدارس میں جانے کا موقع ملا ہے ، وہاں کے ماحول اور نظام کا قریب سے جائزہ لیا ہے لیکن اشرف العلوم سب سے ممتاز نظر آیا، وہاں زیادہ سختی نہیں تھی ، کوئی پابندی نہیں تھی ، متعدد عربی درجات میں اساتذہ کی نگرانی نہیں ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود طلبہ میں پڑھنے کا ماحول تھا ، جذبہ تھا ،جنون تھا ، رات کے دس بجے جنریٹر بند ہوجانے کے بعد ہم طلبہ لیمپ جلاکر پڑھتے تھے ، میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بہت سے مدارس میں اساتذہ رات کو نگرانی کرتے ہیں لیکن وہاں اساتذہ دیر رات تک جگنے سے منع کرتے تھے ، امتحان کے ایام میں یہ اعلان ہوتا تھا کہ طلبہ صحت کا خیال رکھیں ، جلد سونے کا اہتمام کریں۔ یہ کوئی پچاس پرانی بات نہیں ہے بلکہ 2003 سے 2009 تک ہم اپنے ذاتی تجربات شیئر کررہے ہیں ۔
مدارس اور جلسہ میں لزوم کی صفت پائی جاتی ہے ، ہرسال دو سال پر مدارس کے زیر اہتمام مختلف عناوین سے جلسے ہوتے رہتے ہیں لیکن یہاں صرف ایک مرتبہ پچاس سال مکمل ہونے پر جلسہ کا انعقا کیا گیا اور اب سو سال مکمل ہونے پر اس ادارے کے زیر اہتمام ایک عظیم الشان اجلاس کی تیاری جاری ہے ۔24,25,26 مارچ 2018 کو سہ روزہ جشن صد سالہ منانے کی تیاری ہورہی ہے ، ملک بھر کے جید علماء کرام کی شرکت متوقع ہے ، طلبہ ، اساتذہ ، محبین اور تعلق رکھنے والے تمام لوگ ایک نئے جذبہ سے سرشار ہیں ۔
اس ادار ے کی ترقی میں وہاں کے اولین شاگرد قاری طیب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی ہے جنہوں نے زندگی کے چالیس سال اس ادارہ کی خدمات میں لگائے ، مرتے دم تک ادارے کی ترقی کیلئے سوچتے رہے، ان کی محنت اور انتظامی صلاحیت سے اشرف العلوم کو نمایاں مقام ملا ، بہار کے سب سے پسماندہ علاقے میں واقع اس مدرسہ کے تعلیم کا شہرہ بہار کی سرحدوں سے نکل کر یوپی ، بنگال اور دیگر صوبوں تک پہونچا ۔ ان کی وفات حسرت آیات کے بعد اشرف العلوم کے منصب اہتمام پر فائز ہونے والی شخصیات میں فقیہ ملت مولانا زبیر احمد قاسمی کا نام جلی حرفوں میں لکھا جائے گا ، انہوں نے اپنے دور اہتمام میں اس ادارے کو مزید چار چاند لگایا، شب و روز کی محنت سے اشرف العلوم کو ترقی کے ساتویں آسمان پر پہونچایا ،ان کے بلند علمی مقام اور قومی شہرت سے اشرف العلوم کی ایک نئی تاریخ مرتب ہوئی اور سو سال مکمل ہونے پر ایک عظیم اجلاس کا انعقاد کرکے اشرف العلوم کی نئی تاریخ رقم کرنے کیلئے مسلسل کوشاں ہیں۔سخت بیماری اور پیرانہ سالی کے سبب ہر دلعزیز استاذ مولانا محمد اظہار الحق مظاہری تمام ذمہ داریوں کو اپنے سر لیکر اشرف العلوم کے سفر کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں ۔ جشن صدسالہ کو کامیاب بنانے میں مسلسل مصروف ہیں۔ جدید و قدیم طلبہ ، محبین اور تمام وابستگان، مارچ 2018 کے اس منظر کا شدت سے انتظار کررہے ہیں جب صد سالہ جشن ہوگا ، لاکھوں کا مجمع ہوگا ، ابنائے قدیم کا اجتماع ہوگا ، ہندوستان کے تمام جید علماء کرام اشرف العلوم کی عظیم کامیابی کے گواہ بنیں گے اور تاریخ کے اوارق میں ایک نئے سنہرے باب کا اضافہ ہوگا ۔
( کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com