پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی
عفرین ملک شام کے شمالی حصے میں واقع ایک ضلع اور شہر کا نام ہے ، ترکی کی سرحد سے یہ ملاہواہے ، یہاں کی کل آبادی 172095 ہے جس میں سے 6562 لوگ شہر میں قیام پذیر ہیں، انتظامی طو پر یہ ضلع حلب کے تحت آتاہے ۔2012 میں دہشت گرد تنظیم داعش کے خاتمہ کے نام پر امریکہ نے یہاں ایک نئی فوج تشکیل دی ،ایک نیا گروپ تیار کیا اور یہ علاقہ پی کے کے ،وائی پی جی اور وائی پی جے کے زیر انتظام آگیا۔ امریکہ نے کرد تنظیم پی کے کے ساتھ ان دونوں مسلح گروپ کی بھی ہر سطح پر فنڈ نگ کی اورایس ڈی ایف کے نام سے ایک نئی سرحدی فوج تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ،ایس ڈی ایف کی تشکیل علاقے میں ایک نئی جنگ چھیڑنے اور ترکی کو برباد کرنے کی سازش تھی ،القاعدہ اور داعش کے بعد ترکی کو خانہ جنگی کا شکار بنانے کیلئے ایک نیاحربہ اختیار کرنے کی منصوبہ بندی تھی۔ترک حکومت نے اس سنگین خطرہ کو بروقت بھانپتے ہوئے امریکہ کو اس سے آگاہ کیا لیکن امریکہ نے ہمیشہ کی طرح خدشات دورکرنے کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کیا ،نہ ہی ایس ڈی ایف کی تشکیل کو منسوخ کرنے کا فیصلہ صرف یہ کہ کر ترکی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی نئی سرحدی فوج کی تشکیل کا مقصد سرحد پر آمن و سلامتی کو یقینی بناناہے ۔ترکی نے امریکہ کے ان جملوں پر یقین کرنے کے بجائے اپنی علاحدہ حکمت عملی بنائی ،ترکی کی بربادی سے قبل پی امریکہ اس سازش کو برباد کرنے کا خاکہ تیار کیا اور امریکہ کے دباﺅ میں آئے بغیر سرحدی فوج اور عفرین کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا ۔ شاخ زیتون آپریشن اس کا نام رکھا گیا اور 19 جنوری 2018 کی شب میں ترکی کے وقت مطابق سات بجے فوجی آپریشن کی کاروائی شروع کرد ی گئی ۔
معروف کالم نگار ڈاکٹر فرقان حمید اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ اس آپریشن کو کامیاب بنانے کیلئے ترک صدر اردگان نے روس اور ایران کے ساتھ قریبی رابطہ قائم کیا۔ روس نے شام کی سرحدوں پر ترک طیاروں کی آمد روکنے کیلئے جدید ایس 400 اور ایس 500 قسم کے میزائل نصب کر رکھے ہیں اس لئے ترکی کو شام کے علاقے میں فضائی کارروائی کے لئے روس کی اجازت اور حمایت کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لئے ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی اقار اور خفیہ سروس MIT کے سربراہ حقان فدان نے ماسکو کا دورہ کیا اور روس کی مسلح افواج کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقات کرتے ہوئے ترک طیاروں کو شام کی فضائی حدود میں داخل ہونے اور عفرین پر بمباری کرنے کی اجازت حاصل کی۔ اسی طرح ترکی نے شام میں شامی انتظامیہ کا مکمل ساتھ دینے والے ملک ایران سے بھی قریب رابطہ قائم کیا اور عفرین میں فضائی اور بری کارروائی سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہوئے فوجی آپریشن سے متعلق اجازت حاصل کی۔ ایران نے اگرچہ ترکی کو شام میں فوجی آپریشن کرنے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ عفرین کے فوجی آپریشن سے قبل ترک وزارت خارجہ میں روس، ایران ، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور چین کے علاوہ شام کے ہمسایہ ممالک کے سفیروں کو مدعو کرتے ہوئے عفرین میں شروع کئے جانے والے فوجی آپریشن سے متعلق معلومات فراہم کی گئیں۔
58 دنوں کی فوجی کاروائی کے بعد ترک فوج نے عفرین پر کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ،اس وقت وہاںسے دہشت گردوں کا صفایا ہوچکا ہے ،وائی پی جے اور وائی پی جی کے کنٹرول سے اس شہری کو آزادی مل گئی ہے ، عفرین شہر جس مرکزی علاقے میں دہشت گرد تنظیم ”پی کے کے“ کے سرغنہ عبداللہ اوجالان کے بینرز لگے ہوئے تھے ، جہاں ان تنظیموں کے جھنڈے لہرا رہے تھے وہاں سے ان کا نام و نشان اب مٹ چکاہے، ان تمام مقامات پر ترکی کا جھنڈا لہرا رہاہے ۔ اس پوری جدوجہد میں دو لاکھ سے زائد شہریوں کو بھی متاثر ہونا پڑا ہے ،2500 سے زائد دہشت گرد عناصر مارے گئے ہیں ۔حسن اتفاق یہ کہ ترکی کو یہ کامیابی ایسے وقت میں ملی جب وہاں18 مارچ 2018 کو چناق قلعہ کے فتح کی 103 ویں سالگرہ منائی جارہی تھی ۔ اس کامیابی سے ترک قوم کی خوشیاں دوبالا ہوگئیں، فوجیوں کے عزائم بھی بلند ہوگئے ، شام کی مظلوم عوام کو بھی مدتوں بعد کوئی خوش کن خبر سننے کو ملی۔ ترکی صدر اور عالم اسلام کے مقبول لیڈر رجب طیب اردگان نے انہیں دنوں پارٹی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے اس فتح کا اعلان کچھ یوں کیا ”جو جدوجہد ہم نے ماضی میں چناق قلعے میں کی وہی آج ملکی حدود کے اندر اور باہر کر رہے ہیں، اس وقت عفرین میں ترک پرچم اور آزاد شامی فوج کا پرچم لہرا رہا ہے، میں اپنے بہادر ترک افواج اور آزاد شامی آرمی کے اراکین کی خدمت میں اپنی طرف سے اور اپنی ملت کی طرف سے ہدیہ تشکّر پیش کرتا ہوں۔ علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے بعد علاقے کے انفراسٹرکچر اور عمارات کی تعمیر و مرمت کے بعد علاقے کو قابل رہائش حالت میں لانے کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں گے۔ اس وقت ترکی میں یا پھر دیگر مقامات پر مقیم شامیوں کو جلد از جلد ان کے وطن اور ان کے گھروں سے ملانے کے لئے ہم تمام ضروری اقدامات کریں گے۔ ترک ملت کی حیثیت سے ماضی میں چناق قلعے میں جس جوش اور عزم کے ساتھ جدوجہد کی گئی تھی آج ملکی حدود کے اندر اور باہر بھی اسی جوش اور عزم کے ساتھ ایک جدوجہد جاری ہے۔جو کچھ چناق قلعے میں ہوا تھا اس وقت ہماری سرحدوں پر بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ ہم نے 58 روزہ آپریشن میں عفرین کو مکمل طور پر کنٹرول میں لے لیا ہے۔ اس جدوجہد میں چناق قلعہ کی فتح سے حاصل ہونے والے جوش وجدبہ بھی شامل ہے۔ہم نے جس طرح جاہ و جلال والی زرہوں کے ساتھ دنیا کے چاروں گوشوں سے اکٹھے کئے ہوئے فوجیوں کے ساتھ قبل از وقت فتح کا جشن منانے والوں کو شکست سے دوچار کیا تھا اسی طرح ترکی کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا کوریڈور بنانے کے خواہش مندوں کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے“۔
عفرین آپریشن ترکی کی ایک عظیم کامیابی ہے ،صدر رجب طیب اردگان قابل صد مبارکباد ہیں جنہوں نے وقت رہتے ہوئے امریکی سازش کو بھانپ لیا، کسی طرح کا دباﺅ محسوس کئے بغیر امریکی مشن پر حملہ کردیا ، روس اور ایران کو بھی ہمنوا بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ، ترکی نے امریکہ اور دنیا کی سپر پاور طاقتوں کو یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ اپنی سرحد باہر نکل کر دشمنوں پر حملہ کرنے کی اس کے پاس صلاحیت ہے ،وہ کمزور اور بزدل نہیں ہے کہ جو جب چاہے جھکنے پر مجبور کردے ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ آپریشن امریکہ کے خلا ف تھا، امریکی پالیسوں پر حملہ تھا جس میں ترکی نے کامیابی حاصل کرلی ہے ۔
ترک میڈیا کے مطابق 5 اپریل کو انقرہ میں روس ،ایران اور ترک کے درمیان مشترکہ اجلاس کا بھی انعقاد ہورہا ہے جس میں تینوں ممالک کے سربراہان اعلی شرکت کریں گے اور شام کے مستقبل پر غور و خوض ہوگا۔ اس سے قبل ان تینوں کے درمیان ایک سربراہی اجلاس کا انعقاد ہوچکاہے۔ مجموعی طور پر یہ تینوں ممالک ہم خیال اور امریکی پالیسی کے خلاف ہیں۔ مشرق وسطی اور مسلم ممالک کی تباہی کیلئے امریکہ براہ راست ذمہ دار ہیں، یہ سب ملکر اگر مشرق وسطی میں امریکی پالیسی کور وک پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ،امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیموں کی کمر توڑ دیتے ہیں تو خطہ کی تصویر بدل سکتی ہے ، خانہ جنگی کا ماحول ختم ہوسکتا ہے ،شام کی صورت حال بھی قدرے بہتر ہوگی اور مسلم ممالک میں استحکام آنا شروع ہوجائے گا ۔
stqasmi@gmail.com