استعماریت کے پنجے میں سِسکتا شام

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
شام دنیا کی دو سپر طاقتوں کی جنگ کا اکھاڑہ بن گیا ہے ، خطہ میں بالادستی قائم کرنے کیلئے روس اور امریکہ نے شام کی مظلوم عوام کو مسلسل تختہ مشق بنا رکھا ہے ،اپنے اپنے مفاد کیلئے دونوں شام پر یکے بعد دیگرے حملہ کرتے جارہے ہیں۔ گذشتہ 8 سالوں سے یہی سلسلہ جاری ہے اور شام کی عوام ظلم و ستم کا شکار ہورہی ہے ۔2011 میں عرب بہاریہ کی ہوا تیونس سے شروع ہوکر شام میں بھی پہونچی تھی ،وہاں کی مظلوم عوام نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے بشار الاسد کے ظالمانہ اقتدار کے خلاف علم احتجاج بلند کیا ،مدتوں بعد سڑکوں پر نکل کرکے اس ظالم حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی ان میں جرأت و ہمت پیدا ہوئی، لیکن جن ممالک میں اس طرح کی تحریک چلی وہاں کامیابی ملتی گئی ،تیونس ،مصر اور لیبیا میں حکومت بدل گئی ،عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ نے بھی ان ممالک کی تحریک پسند عوام کا بھر پور ساتھ دیا بدقسمتی سے شام کی رات روشن ہونے کی بجائے مزید تاریک ہوتی چلی گئی ۔مارچ 2011 میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے کی شروعات ہوئی۔ ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ لیکن 15 مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتی عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔15 مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 28 مارچ تک 60 مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔ بشار الاسد نے جمہوریت اور آزادی کی تحریک چلانے والوں کے خلاف طاقت کا بھر پور استعمال کرنا شروع کردیا، جب بھی مظاہرین سڑکوں پر نکلے فائرنگ کرکے انہیں شہید کردیا۔ دمشق ،حلب اور غوطہ سمیت کئی شہروں کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا، شام دنیا کا واحد ملک ہے جس کی دوتہائی آبادی وہاں سے ہجرت کرچکی ہے ،پندرہ لاکھ سے زائد کا قتل ہوچکاہے ،55 لاکھ لوگوں کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے وہ کہاں غائب ہیں۔ امریکہ ،روس سمیت کسی بھی عالمی طاقت نے بشار الاسد کے مظالم کے خلاف بر سرپیکار عوام کی مدد نہیں کی۔ مشرق وسطی کے کئی ملکوں میں امریکی مداخلت کو دیکھتے ہوئے روس نے شام میں قدم جمانے کی پہل کی ، ستمبر 2015 میں ماسکو حکومت باضابطہ طور پر اسد حکومت کی فریق بن گئی ۔ بشار الاسد کی حمایت کے نام پر بمباری کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا،نوجوانوں اور بوڑھوں کے ساتھ خواتین اور معصوم بچوں پر کمییا ئی حملہ ہونے لگا۔شام سے جو تصاویر اور ویڈیوز منظر عام پر آرہی ہیں اسے دیکھنے کی ہمت نہیں ہوپارہی ہے ،ظلم وستم کا یہ منظر دنیا نے بہت ہی کم دیکھا ہوگا لیکن یہ سب ہورہاہے ۔گذشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر روس نے مشرقی شہر دوما پر کیمیائی حملہ کردیا جس میں 200 کے قریب بے گناہ جاں بحق ہوگئے ، مرنے والوں میں زیادہ تر بچے اور خواتین تھیں، اس سے قبل بھی دسیوں کیمائی حملے شامی فوج اور روس کی جانب سے وہاں ہوچکے ہیں۔حالیہ حملہ کے خلاف امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سخت قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ملک دمشق میں نصب میزائل پر 14 اپریل کو حملہ کردیا ، امریکہ کا دعوی ہے کہ اس آپریشن میں شامی حکومت کے کئی میزائل تباہ ہوئے اور یہ مہم کامیاب رہی ،ٹرمپ نے روس کو یہ بھی دھمکی دی ہے کہ اگر آئندہ کیمیائی حملہ کیا گیا تو امریکہ دوبارہ میزائلوں کو نشانہ بنائے گا۔ رد عمل میں روس نے بھی امریکہ کو بدترین نتائج بھگتنی کی دھمکی دے دی ہے ،روسی صدر ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے دوبارہ شام پر حملہ کیا تو عالمی خانہ جنگی چھڑ جائے گی۔ کیمیائی حملہ کے جواب میں امریکی آپریشن کا تقریباً پوری دنیا نے خیر مقدم کیا ہے ،اقوام متحدہ میں روس نے اس کے خلاف قرار داد لانے کی پیشکش کی تھی جسے بھی مسترد کردیا گیا ،روس کے حلیف ترکی نے بھی اس معاملے میں امریکہ کا ساتھ دیا ،ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ نے حملہ سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردگان سے فون پر بات چیت کی تھی ،حملہ کے بعد انقرہ نے بیان جاری کرکے اس اقدم کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ترک حکومت ان حملوں کا خیر مقدم کرتی ہے ۔عالمی برادری کی جانب سے یہ پیغام جانا ضروری ہے کہ اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں ۔ کنیڈا اور جاپان سمیت کئی اور ممالک نے بھی اس آپریشن کی کھل کر حمایت کی ہے ۔ لیکن بشار الاسد کے خلاف یہ عارضی حملہ ،میزائلوں کی تباہی اور ردعمل کی کاروئی شام کے مسئلے کا حل نہیں ہے ۔
شامی عوام گذشتہ آٹھ سالوں سے جمہوریت اور آزادی کی جنگ لڑری ہے ،بشار الاسد کا اقتدار میں رہنا انہیں تسلیم نہیں ہے ، وہ ایک منتخب اور امن پسند حکومت چاہتی ہے ،ان کی بغاوت ،آمریت ،ظلم ،اور طاقت کے بیجا استعمال کے خلاف ہے ، اسی مشن اور مقصد کی خاطر لاکھوں شامی قربانی دے چکے ہیں ۔ اس لئے عالمی طاقتو ں اور اقوام متحدہ کو اسی ضمن میں سوچنا ہوگا ،شام کے اصل مسئلے کی جانب توجہ دینی ہوگی ۔ عوام کو بشار الاسد سے نجات دلانے کی حکمت عملی اپنانی ہوگی ۔سچائی یہ ہے کہ شام کے معاملے میں امریکہ اور عالمی طاقتوں نے شروع سے دوہرا رویہ اپنا یاہے ۔ عرب بہار یہ کے مشن پر گامزن شامی عوام کی امریکہ نے کوئی مدد نہیں کی،روس نے بشار الاسد کے خلاف ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کردیا ۔امریکہ کی پالیسی شام کے بارے میں اب بھی واضح نہیں ہے ،خطہ میں داعش کے فروغ اور بشار الاسد کی مضبوطی کیلئے سب سے زیادہ ذمہ دار بھی امریکہ ہے ۔سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور صدر باراک اوبامہ کی دوہری پالیسی بھی شام کی تباہی و بربادی کیلئے ذمہ دار ہے ۔گذشتہ آٹھ سالوں کا جائزہ لینے کے بعد مسئلہ شام کا واحد حل یہی سامنے نکل کر آتا ہے کہ اقوام متحدہ براہ راست مداخلت کرے ، بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کرے ۔ از سر نو وہاں انتخاب کراکر جمہوریت بحال کی جائے ۔جب تک بشار الاسد کا اقتدار برقرار رہے گا ، آمریت قائم رہے گی شام کی صبح نہیں ہوپائے گی ۔
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں