آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں!

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
دنیا کے 128 ممالک نے دسمبر 2018 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ڈونالڈ ٹرمپ کا فیصلہ مسترد کردیا تھا ، صرف 14 ملکوں نے امریکی فیصلے کی حمایت کی تھی ۔اسلامی تعاون تنظیم نے ہنگامی اجلاس طلب کرکے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کئے جانے کو ناقابل برداشت قرار دیا تھا ، عرب لیگ نے فسلطین کی پروزر حمایت کرتے ہوئے اپنی کانفرنس کا عنوان ہی ” یروشلم سمٹ “ رکھا ۔ چند ملکوں کے سوا پوری دنیا نے یکطرفہ امریکی فیصلہ کی مذمت کی جس کا ٹرمپ نے 6 دسمبر 2017 کو اعلان کیا تھاکہ ہم امریکہ کا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کریں گے ۔ چھ ماہ بعد امریکہ نے یروشلم میں اپنا سفارت خانہ قائم کردیا ہے ۔ 15 مئی کو ایک عارضی مکان میں یروشلم کی سرزمین پر امریکہ کا سفارت خانہ منتقل ہوچکا ہے جس کا افتتاح ٹرمپ کی بیٹی ایونیکا ٹرمپ اور اس کے شوہر نے کیا ۔ اسرائیل نے اس موقع پر 84 ممالک کو شرکت کی دعوت بھی دی تھی جس میں سے صرف 18 غیر معروف ملکوں نے شرکت کی ۔
15مئی کو ایک طرف مغربی بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ کا افتتاح ہورہا تھا دوسری طرف غزہ میں فلسطینی مظاہرین کا اسرائیلی فوج قتل عام کررہی تھی۔ ڈرون طیارے سے حملے کرکے انہیں موت کی نیند سلارہی تھی ۔ چند گھنٹوں میں 60 سے زائد فلسطینیوں کو مار دیا گیا جبکہ 4 ہزار سے زائد زخمی ہوگئے جن میں سے کئی سارے بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گئے ۔دسمبر 2017 کے بعد سو سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ۔
امریکہ نے اقوام متحدہ کو ٹھینگا دیکھایا، اکثریت سے منظور کردہ قرار کی دھجیاں اڑادی ، اوآئی سی اور عرب لیگ کے فیصلوں کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔ وہی کیا جس کا اس نے عز م کیا تھا لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ سے انصاف کی آس لگائی جارہی ہے ۔ مذاکرات کی امید وابستہ ہے ۔ اس کے سربراہ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ امریکہ نے انسانی حقوق کی پامالی کی ہے ۔ یہ قتل عام ناقابل برداشت ہے ۔ اس کی غیرجانبدارانہ تحقیق ہوگی ۔دراصل مسلم دنیا کا اعتماد حاصل کرنے اور انہیں تسلی دینے کیلئے یہ جملے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ بہت سے سارے لوگوں کو اس طرح کی خبروں سے امید وابستہ ہوجاتی ہے لیکن فلسطینیوں کیلئے ہر آنے والا دن اس سے زیادہ بھیانک ،خطرناک اور آزمائش سے بھرا ہوا ہوتا ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ جب میانمار جیسے ملک میں اقوام متحدہ کے فیصلوں اور قرارد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے تو پھر سپر پاور امریکہ پر یہ عالمی تنظیم کیسے حاوی ہوسکتی ہے ۔
دنیا میں جاری اتھل پتھل سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ یہاں کوئی اقوام متحدہ ،کوئی عالمی قانون اور نہ ہی بین الاقوامی چارٹرڈ ہے۔ طاقت اور پیسہ کا کھیل ہے ۔ امریکہ کے پاس سب سے زیادہ طاقت ،پیسہ اور ہتھیار ہے اس لئے وہ خو د کو کسی آئین اور قانون کا پابند نہیں سمجھتا ہے ۔ عراق پر فضائی حملہ ،افغانستان کی تباہی ،مشرق وسطی میں خانہ جنگی کی شروعات اور بیت المقدس میں سفارت خانہ قائم کئے جانے جیسے دسیوں معاملات ہیں جہاں امریکہ نے اقوام متحدہ کو ٹھینگا دیکھاتے ہوئے اپنی منمانی کی ہے اور اقوام متحدہ نے کبھی بھی گرفت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اقوام متحدہ میں اتنی جرأت و ہمت بھی نہیں ہے ، 25 فیصد بجٹ امریکہ سے وصول کرنے کی بنیاد پر یہ ادارہ مکمل طور پر اس کا مرہون منت ہے ۔
اسرائیل کا یہ بے جا مطالبہ روز اول سے ہے کہ بیت المقدس ہماری مذہبی راجدھانی ہے ۔ امریکہ نے سب سے پہلے 1995 میں ایک قرار داد پاس کرکے اسے منظوری دی اور اب 2018 میں ٹرمپ نے یہ خواب شرمندہ تعبیر کردیا ہے ۔ ممکن ہے کچھ اور ممالک بھی امریکہ کی حمایت کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قبلہ اول کے محافظین ان دنوں کہاں کھڑے ہیں؟ ۔ عرب ممالک اس دہشت گردی کو روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ ۔ مسلم دنیا نہتے فلسطینیوں کو ظالموں سے بچانے کیلئے کیا کررہی ہے؟ ۔
دسمبر 2017 سے لیکر مئی 2018 تک ترکی واحد ملک ہے جس نے ا مریکی مشن کو ناکام بنانے کیلئے سب سے زیادہ جدوجہد کی ہے ،اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات انتہائی ہنگامہ خیز ہوچکے ہیں ، میڈیا رپوٹس کے مطابق کسی بھی وقت دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے، شام ،کرد اور فلسطین کے مسئلے کو لیکر ترکی اور امریکہ کے تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہیں ۔گذشتہ دنوں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ترکی نے اسرائیل اور امریکہ دونوں جگہ سے اپنا سفیر واپس بلا رکھا ہے ۔ اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کیا جاچکا ہے ۔ ترک صدر طیب اردگان نے دسمبر 2017میں بھی آئی او سی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا اور ابھی مئی میں بھی انہوں نے ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے پانچ لاکھ سے زائد کا مجمع اکٹھا کرکے اردگان نے تمام مسلم ممالک سے مسجد اقصی کیلئے متحد ہوجانے کی اپیل کی ۔ مسلم سربراہان مملکت سے خطاب میں انہیں آنے والے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ آج قبلہ اول غیر محفوظ ہوچکاہے ۔ کل ہوکر مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ پر بھی خطرات کے بادل منڈلا سکتے ہیں ۔ لیکن مسلم ممالک نے اس اجلاس میں بھی سرد مہری کا ثبوت دیا ،کوئی واضح ایجنڈا نکل کر سامنے نہیں آسکا ۔ سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان دونوں نے اجلاس کو سرے سے نظر انداز کردیا ۔ سعودی عرب نے 15 مئی کو اسرائیلی جارحیت کی دبے لفظوں میں مذمت کی، دہلی میں واقع سعودی عرب کے سفارت خانہ نے ملت ٹائمز کو ایک میل بھیج کریہ اطلاع بھی دی کہ شاہ سلمان نے محمود عباس سے فون پر بات چیت کرکے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے لیکن یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کھولے جانے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
فلسطین عرب کا حصہ ہے ۔ اس کی حفاظت کی اولین ذمہ داری عربوں کی ہے لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ سب سے زیادہ منافقت اس کے پڑوسیوں اور عرب ممالک نے ہی کی ۔67 کی اسرائیل۔ عرب جنگ سے لیکر اب تک ہر معاملے میں عربوں کی حمایت بے جان سی نظر آتی ہے ۔حالیہ دنوں میں ایسا لگ رہا تھا کہ سعودی حکومت سفارت خانہ منتقل کئے جانے کے عمل کی کم از کم رسمی طور پر مذمت کرے گی لیکن ٹرمپ نے اسی دوران ایران نیوکلیر معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا جس کے بعد سعودی عرب میں امریکہ کی ذرہ برابر بھی ناراضگی مول لینے کی ہمیت نہیں رہ گئی تھی۔ انہیں دنوں میں جشن منانے اور امریکہ کی تعریف کرنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تھا ۔
فلسطین کا مسئلہ پہلے دو ریاستی حل کا بنایا گیا، عربوں اور فلسطینیوں نے اس دو ریاستی مسئلہ کو مسترد کرتے ہوئے ہمیشہ کہا کہ مکمل فلسطین ہمارا ہے ، اسرائیل غاصب اور قابض ہے لیکن اب ایک ریاستی مسئلہ بنادیا گیا ہے ۔ فلسطین کے چند بچے کھچے علاقوں کو مصر ، اردن اور شام میں ضم کرکے فلسطین کا وجود ہی مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ بات کہنے کی نہیں ہے کہ فلسطین کا اصل دشمن امریکہ ہے ، یہودی لابی کو مضبوط کرنے ، مسلمانوں کے قتل عام ، اسرائیلی دہشت گردی کے فروغ ، اور امت مسلمہ سے ان کی مذہبی و تاریخی ریاست کو چھیننے میں سب بڑا کردار شروع سے اب تک اسی کا رہاہے ، قابل غور بات یہ ہے کہ جن ممالک کی امریکہ سے گہری دوستی ہے ،فلسطینیوں کی نعش پر چڑھ کر جن عرب ملکوں سے ٹرمپ نے اپنے تعلقات بہتر بنائے ہیں، نہتے مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ جن مسلم ملکوں سے امریکہ کی دوستی بڑھتی جارہی ہے انہیں کس زمرے میں رکھاجائے ۔ انہیں بھی فلسطین کا دشمن اور اسرائیل کا دوست تسلیم کیا جائے یا پھر سمجھا جائے کہ ان عر ب ملکوں کو امت مسلمہ سے کوئی مطلب ہی نہیں ہے ۔ ان کے ایجنڈاسے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت خارج ہے ۔ ہندوستان کی مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو اس زمرے میں شامل کرنے سے احتراز ہی بہتر ہے جہاں اسرائیلی دہشت گردی کی مذمت تو خوب کی جاتی ہے لیکن امریکہ کے قدم سے قدم ملانے والے اور اس کے مسلم کش اقدامات کی حمایت کرنے والے مسلم سربراہان مملک کے خلاف ایک جملہ تک کہنا گناہ عظیم سمجھا جاتا ہے ۔ پورے معاملے کی منظر کشی ایک شاعر رند لکھنوی کی زبان میں یوں کی جاسکتی ہے کہ
آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں ہائے دل
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر اور تجزیہ نگار ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں