نقطہ نظر: ڈاکٹر محمد منظور عالم
بابری مسجد ہندوستان کی تاریخ کا انتہائی قدیم اور طویل ترین مقدمہ ہے۔ تھانہ ، مجسٹریت ، دسٹرک کورٹ اور ہائی کورٹ کے بعد اب سپریم کورٹ سے بھی فیصلے صادر ہونے کی گھڑی قریب آچکی ہے۔ بابری مسجد سے متعلق کئی اہم مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں جن میں دو سب سے اہم ہیں ایک ٹائٹل سوٹ کا مقدمہ اور دوسرا بابری مسجد انہدام کا معاملہ ۔ ٹائٹل سوٹ کیس کے بار ے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے 2011 میں اپنا فیصلہ سنایا تھا جس میں زمین تین حصوں میں تقسیم کردی گئی تھی۔ ایک حصہ مسلمانوں کو دیا گیا تھا اور بقیہ دو حصہ دو ہندو فریقوں کے درمیان تقسیم کردیا گیا تھا۔ کسی بھی فریق نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا تھا اور معاملہ سپریم کورٹ پہونچا تاہم سماعت میں کوئی خاص تیزی نہیں لائی گئی۔ اس دوران دستاویزات کا انگریزی میں ترجمہ کرایا گیا۔ سال رواں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی نے روزانہ سماعت کرنے کا وعدہ کیا اور پہلی مرتبہ بابری مسجد کیس کی 6 اگست 2019 سے 18اکتوبر 2019 تک روازنہ سماعت ہوتی رہی۔ چھٹیوں کے علاوہ تقریباً سبھی دن عدالت میں اس پر سماعت ہوئی۔ دونوں فریقوں نے اپنے دعوی کو دلیل سے ثابت کرنے کی کوشش کی۔ میڈیا کے ذریعہ کورٹ روم کے دوران ہونے والی بحث کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس سے یہی معلوم ہورہاہے کہ ہندو فریق نے آستھا کو بنیاد بناکر اپنا دعویٰ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف مسلمانوں نے ملکیت کا ثبوت پیش کیا۔اس بات پر تفصیلی بحث بھی ہوئی کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا دعوی کب پیش کیا گیا۔ کیسے ہندو فریق کے بیانات اور دعوے بدلتے رہے۔ کبھی چبوترہ کو جنم استھان بتایا گیا اور بعد میں 1949 کے بعد اندرون مسجد ایک مورتی رکھ کر نیا دعوی کردیاگیاکہ رام گنبد کے نیچے پرکٹ ہوئے تھے۔ صاف لفظوں میں یہ کہ مسلم فریقوں کے وکلاء نے دلائل اور ثبوت پیش کیا جبکہ ہندو فریقوں نے آستھا کو بنیاد بناکر اپنے حق میں فیصلہ دینے کا مطالبہ کیا۔ سابق چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا نے کہا تھا کہ بابری مسجد کا مقدمہ ملکیت یعنی ٹائٹل سوٹ کا ہے اور وہی فیصلے کی بنیاد ہوگی۔ موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا بھی برابر یقین دہانی کراتے رہے ہیں کہ یہ ٹائٹل سوٹ اور ملکیت کا مقدمہ ہے۔ بہر حال سنوائی مکمل ہوچکی ہے اور اگلے ایک دو ہفتہ کے دوران فیصلہ آنے کی امید ہے۔ 17نومبر کو موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا ریٹائرڈ ہورہے ہیں اس لئے امید یہی ہے کہ 10 نومبر کے بعد اور 17 نومبر سے قبل کسی بھی دن فیصلہ آسکتاہے۔
فیصلہ کی بنیاد حقائق اور ثبوت و شواہد ہوں گے۔ مسلمانوں نے شروع سے کہاہے کہ ہمیں ہندوستان کے آئین اور یہاں کی عدلیہ پر بھروسہ ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمیں منظور ہوگا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ملک کی عدلیہ کا وقار برقرار ہے۔ ہندوستان میں سپریم کورٹ انصاف کی آخری آماجگاہ ہے، یہاں ثبوت و شواہد کو معتبر مانا جاتا ہے ۔ اس لئے یہ امید رکھنا چاہیئے کہ سپریم کورٹ کے ججز حضرات کاقلم انصاف کرے گا۔ ثبوت و شواہد اور دلائل کو ہی بنیاد بناکر فیصلہ کیا جائے گا۔ کسی طرح کے دباؤ ، قربت ، لگاؤ اور ہم آہنگی کا دخل نہیں ہوگا۔ منصف کی بنیادی تعریف بھی یہی کی جاتی ہے کہ وہ کھڑکیوں کی جانب جھانکنے اور کھڑکیوں سے آنے والی آواز وں پر توجہ دینے ، ماحول اور حالات کی خبرسے متاثر ہونے کے بجائے کمرہ عدالت پر مکمل توجہ مرکوز رکھیں اور جرح و بحث کے دوران پیش ہونے والے ثبوت و شواہد اور دلائل کو بنیاد بناکر فیصلہ کریں۔
امید یہی ہے کہ یہ فیصلہ حقائق کی بنیاد پر ہوگا۔ مسلمانوں کو عدالت سے مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ انصاف دینے میں کسی طرح کی کوئی تاہی ججز نہیں برتیں گے۔ اگر ایسا ہوتاہے یعنی فیصلہ میں مسلمانوں کی موقف کی تائید ہوجاتی ہے تویہ موقع مسلمانوں کے تشکر و امتنان اور بے پناہ آزمائشوں سے گزر نے کا ہوگا۔ ایسے موقع پر تمام مسلمانوں کو یہ خیال رکھنا ہوگا کہ وہ خوشی کے اظہار میں کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ عام بول چال، عمومی مجلس اور دیگر طرح کی نششتوں کے علاوہ سوشل میڈیا اور کہیں بھی ایسا بیان نہ دیں ، کوئی بھی ایسا ردعمل ظاہر نہ کریں جس سے کسی کی توہین ہو، کسی کی دل آزاری ہو۔ اسے احساس ہوکہ فیصلہ کی وجہ سے ایسا ردعمل سامنے آرہا ہے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم نوجوان نسل اس کا خا ص خیال رکھیں ،ہر گز کوئی بھی پوسٹ اور کمنٹ ایسا نہ کریں جس سے برادران وطن کو تکلیف پہونچے۔ان کے جذبات مجروح ہوں۔ اس موقع پر اللہ تعالی کی بارگاہ میں تشکر و امتنان پیش کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ ہم ان کی جانب رجو ع کریں۔ توبہ و استغفار کریں ، اپنے کردار و عمل سے اخوت و بھائی چارگی کا مظاہرہ کریں۔ اسلام کے حسنِ اخلاق کی تعلیمات پیش کریں۔
خدا نخواستہ فیصلہ خلاف توقع آتا ہے تو یہ بھی ہمارے لئے بہت سخت آزمائش کی گھڑی ہوگی اور اس موقع پرصبر کا دامن تھامے رکھنا انتہائی ضروری ہوگا۔ اپنے عمل اور کردار سے یہ ثابت کرناہے کہ ہم مسلمان ہیں جن کی پہچان امن پسندی ، برداشت اور تحمل ہے۔ ہم کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے ہماری شناخت پر کوئی داغ لگے۔ یہ مرحلہ بہت مشکل ہوگا۔ لیکن یہی موقع ہوگا کہ صبر کرکے ہمیں حقیقی مومن ہونے کا ثبوت پیش کریں۔برداشت ،تحمل اور رواداری کا عملی مظاہرہ کریں۔ عدلیہ کے تئیں جس اعتماد اور بھروسہ کا ہم نے پہلے اظہار کیا تھا اس کوقائم رکھیں۔ کسی بھی طرح ہمارے درمیان سے کوئی غلط پیغام اور میسیج نہ جائے۔ اسلام میں صبر اور شکر دونوں کی اہمیت ہے ، دونوں کا مقام ہے اور جب جس کی ضرورت پڑے ہمیں اسے اختیار کرنا چاہیے۔ نعمت کے حصول ، کامیابی اور خوشی کے دیگر مواقع پر ہمیں شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں مشکلات ، مصائب اور پیچیدہ صورت حال کے دوران ہمیں صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صبر کا مطلب یہی ہوتاہے کہ ہم تحمل سے کام لیں۔ ہر گز عدم برداشت کا مظاہرہ نہ کریں۔ ناگوار ، نامناسب اور خلاف حقیقت نظر آنے کے باوجود اسے برداشت کریں۔ اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع مل سکے۔ عدلیہ کی اہانت یا آئین کی خلاف ورزی کا الزام لگے۔
صبر اور شکر دونوں کی فضیلت آئی ہے۔ دونوں پر ثواب ہے اور یہ دونوں ایک مومن کی کامیابی کی علامت ہے۔ اللہ تعالی کو مقام خوشی میں شکر اور مشکل حالات میں صبر مطلوب ہے اور ایک مومن کی یہی شناخت ہے کہ وہ وہ خوشی کے مواقع پر شکر ادا کرے اور مصیبت کے دوران صبر بجا لائے۔ بابری مسجد – رام مندر کا فیصلہ آنے کے بعد ہمیں اسلام کے اسی فلسفہ پر عمل کرنا اور اسی کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اخیر میں ہم اپنے قارئین سے خصوصی طور پر درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ یہ مضمون ایک پیغام اور میسیج ہے جسے آپ دور تک پہونچائیں۔ اسے عام کریں اور عام لوگوں کے درمیان اس بارے میں بتائیں کہ ہمیں آئین کا احترام کرنا ہے۔ عدلیہ پر اپنا بھروسہ برقرار رکھنا ہے۔اگر فیصلہ ہمارے موقف کے مطابق آتا ہے تو ہم بارگاہ ایزدی میں سجدۂ شکر بجالائیں گے اور اگر ہمارے موقف کے خلاف آتا ہے تو اس وقت ہم صبر ، برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ غیر ضروری بیانات ، تبصرہ اور کمنٹ سے گریز کریں گے۔
(مضمون نگار معر وف دانشور اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )