عشرۂ ذی الحجہ کی برکتوں سے اپنے آپ کو محروم نہ کریں

مدثر احمد قاسمی
ذی الحجہ کا مرکزی نقطہ قربانی ہے ۔ لیکن احادیث میں اس ماہِ مبارک کی بڑی فضیلت آئی ہے چنانچہ ضروری ہے کہ ان عبادتوں کی طرف بھی توجہ دی جائے

ہم اس وقت اسلامی سال کے بارہویں مہینے ذی الحجہ کی مبارک ساعتوں کے گواہ بن رہے ہیں۔ ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام کی فضیلت شریعت ِ اسلامیہ میں آیاتِ قرآنیہ اور احادیث ِ مبارکہ سے ثابت ہے؛ اس حوالے سے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: ’’قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔‘‘(سورہ فجر:  ۱۔۲) امام بغویؒ نے تحریر کیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت مذکور میں دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کی ابتدائی راتیں ہیں۔ یہی رائے دیگر مفسرین مثلا قتادہ، مجاہد، ضحاک، سدی اور کلبی رحمہم اللہ کی بھی ہے۔
  اللہ کے رسول محمد ﷺ نے عشرۂ ذی الحجہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’ان دس دنوں سے زیادہ بہتر کوئی دن نہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو۔‘‘ (بخاری) حافظ ابن رجب ؒ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا ہے: ’’جب ان دس دنوں میں کیا ہوا نیک عمل بارگاہ الٰہی میں سال کے باقی سارے دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ فضیلت والا اور محبوب ہے، تو ان دنوں کی کم درجہ کی نیکی دوسرے دنوں کی بلند درجہ کی نیکی سے افضل ہوگی۔‘‘
 اسلامی روایات کے مطابق کچھ اور مواقع ہیں جن کی فضیلت و اہمیت بھی تاکیداً بیان کی گئی ہے جیسے رمضان اور شب ِ قدر وغیرہ چنانچہ بہت ممکن ہے کہ کچھ ذہنوں میں عشرۂ ذی الحجہ کی بھی اسی انداز کی فضیلت سے تکرارِ فضائل کا سوال پیدا ہو۔ اس کا آسان و عقلی جواب یہ ہے کہ ہم آئے دن مارکیٹنگ کے اِس زمانے میں سال کے مختلف موسموں اور مواقع پر الگ الگ جاذب قلب و نظر پیشکش کے ساتھ تاجروں کو خریداروں کو لبھاتا ہوا دیکھتے ہیں؛ اِن مختلف مواقع کو ہم اپنے لئے سودمند سمجھتے ہیں اور اُن سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح یہاں ہمیں مختلف مواقع پر مختلف پیشکش پر اعتراض نہیں ہوتا بلکہ خوشی ہوتی ہے؛ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے مختلف اوقات میں مختلف پیشکش سے خوش ہوکر اور اُنہیں اپنے لئے بہترین موقع سمجھ کر دیوانہ وار اُن سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے بلکہ مزیدآگے بڑھ کر ہمیںیہ سمجھنا چاہئے کہ ہمارے اعمال سے اللہ تبارک و تعالیٰ کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ اُس کی ذات غنی و بے نیاز ہے لیکن بدلے میں ہمیں اُس کے الطافِ کریمانہ کے صدقہ میں دُنیا اور آخرت، دونوں کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ 
عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت کے سبب کے سلسلے میں بھی علماءنے کچھ نکتے بیان کئے ہیں۔ اس بارے میں حافظ ابن حجرؒفرماتے ہیں کہ: ’’ عشرۂ ذی الحجہ کی امتیازی شان کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میں بنیادی عبادات جو کہ نماز، روزہ، صدقہ اور حج ہیں، وہ سب اکٹھی ہوجاتی ہیں اور کسی اور دن میں جمع نہیں ہوتیں۔‘‘  اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی عنایتوں کے دروازے بندوں کیلئے کھولتے رہتے ہیں؛  اب یہ بندوں پر ہے کہ وہ اِن دروازوں میں اپنے اعمال کے ذریعہ کب داخل ہوتے ہیں۔ 
ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام میں ہمیں بطورِ خاص کن اعمال پر توجہ دینا ہے:
ذکر کی کثرت: یہ ایک آسان عمل ہے ، اس لئے کہ نہ ہی اس عمل کے لئے کسی وقت یا مقام کی قید ہے اور نہ ہی نماز کی طرح اس کے لئے باوضو ہونا ضروری ہے (اگر چہ با وضو تسبیحات کا پڑھنا افضل اور مستحسن ہے)۔ اس لئے بطورِ خاص عشرۂ ذی الحجہ میں ان تسبیحات سے اپنے ہونٹوں کو تر رکھنے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں عشرۂ ذی الحجہ زیادہ عظمت والا ہے اور ان دس دنوں میں کی جانے والی عبادت باقی ایام کی بہ نسبت اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو یعنی سبحان اللہ کہو، تہلیل یعنی لا الہ الا اللہ کہو، تکبیر یعنی اللہ اکبر اور تحمیدیعنی الحمد للہ کہو۔‘‘ (مسندعبد ابن حمید) اِن تسبیحات کے حوالے سے علما ء نے یہ وضاحت کی ہے کہ اِن کی دو قسمیں ہیں: (۱) تکبیر مطلق (۲) تکبیر مقید۔ تکبیر مطلق کا مطلب یہ ہے کہ ہر آن اور ہر لمحہ مسجدوں، گھروں اور ہر اس جگہ جہاں اللہ کے ذکر کی اجازت ہے، تکبیر کہتا رہے۔ اس کا قت ذی الحجہ کا چاند نکلنے ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ تکبیر مقید یہ ہے کہ عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے تکبیر کہنا شروع کیا جائے اور ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک تکبیر کہتا رہے۔ واضح رہے کہ عورتیں یہ تسبیحات آہستہ سے پڑھیں گی جبکہ مرد حضرات بآواز بلند اِن تسبیحات کا ورد کریں گے۔
اس کے علاوہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام میںجس خاص عبادت کا اہتمام کرنا ہے وہ ہے روزہ۔ اِ س تعلق سے تفصیل یہ ہے کہ ذی الحجہ کے ابتدائی نو دنوں کا روزہ سنت ہے، دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ یومِ عید ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی (ایک) زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ذی الحجہ کے پہلے نو دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔(ابودا ئود)
 عشرہ ذی الحجہ کے روزوں کی فضیلت کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عام دنوں کے مقابلے میں عشرہ ذی الحجہ کے (ایک دن کا روزہ) عام دنوں کے(ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔(ترمذی)
احادیثِ مبارکہ میں یومِ عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کے روزے کی بھی خصوصی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ اس کے بعد اور پہلے والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائیگا۔‘‘  (مسلم)۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اِن ایام میں زیادہ سے زیادہ روزوں کا اہتمام کریں اور انعاماتِ خداوندی کا مستحق بنیں۔
 ہمیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ ماہِ ذی الحجہ کا مرکزی نقطہ قربانی ہے، اس لئے دیگر عبادات کے ساتھ ہم میں سے جن پر بھی قربانی واجب ہے وہ اس کا اہتمام ضرور کریں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی خرچ کی فضیلت اس خرچ سے ہرگز زیادہ نہیں جو عید قرباں والے دن قربانی پر کیا جائے۔‘‘