ان سے ان کی زباں میں بات کرو

ایم ودود ساجد

سپریم کورٹ میں مسلمانوں کے خالص عائلی مسائل میں سے ایک ’طلاق ثلاثہ‘کے سوال پرپانچ ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے بحث شروع ہوگئی ہے۔طلاق ثلاثہ کوسیاسی مسئلہ بناکر پورے ملک میں ایک ہیجان برپا کرنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی اب کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلہ پر سیاست نہ کی جائے۔اس بیان کی توصیف میں سبقت حاصل کرنے کے لئے ایک جماعت کا طولانی وفدوزیر اعظم سے بڑی شان وشوکت کے ساتھ مل کر بھی آگیا ہے۔اس سے پہلے چند مہینوں تک آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی پرسنل لا کے تحفظ کے لئے ایک خصوصی مہم چلا چکا ہے۔ا س کے بعد جماعت اسلامی بھی پرسنل لا بیداری مہم چلاکر ابھی فارغ ہوئی ہے۔راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے پرچارک اندریش کماربرسوں سے مسلمانوں کو’ قرآن وحدیث‘کی روشنی میں طلاق کے مسائل بتارہے ہیں۔وہ اور ان جیسے دیگر کئی ہندوادارے گمراہ اور جاہ پرست مسلمانوں اور خاص طورپراسلام بیزاراور غیر مسلم شوہروں والی مسلم خواتین کو پکڑپکڑ کر لارہے ہیں اور ان کی جماعتیں قائم کراکران سے اسلام ‘علماء اسلام اور مسلمانوں کو گالیاں دلوارہے ہیں۔

آئیے اب ذرا منہ کا ذائقہ بدلتے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی 23اپریل کی اشاعت کے مطابق بی جے پی کی حکومت والے مدھیہ پردیش میں باقاعدہ ایک حکم نامہ جاری کرکے مسلسل چار دہائیوں سے مختلف قبائل کی عورتوں سے بالجبربچے پیدا کرائے جارہے ہیں۔اگر دونوں میاں بیوی یا دونوں میں سے کوئی ایک نس بندی کرانا چاہے تو نہیں کراسکتا۔چاہے ان قبائلیوں کے گھروں میں کھانے کو دانا اور پینے کو پانی نہ ہولیکن انہیں مسلسل بچے پیدا کرتے رہنا ہے۔یہ ایک حیرت انگیز تفصیل ہے کہ ایک طرف جہاں پورے ملک میں باقاعدہ سرکاری طورپرتمام چھوٹے بڑے ہسپتالوں میں استقرار حمل سے بچنے کے لئے مفت مشورے اور مفت دوائیں دی جاتی ہیں وہیں دوسری طرف مدھیہ پردیش کے ان قبائلیوں کو ایسی تمام طبی سہولتوں سے محروم کردیا گیا ہے ۔ ان میں سے کوئی ایک اور خاص طورپر بیوی جب نس بندی کے لئے کسی سرکاری ہسپتال میں جاتی ہے تو اسے الٹے پاؤں لوٹا دیا جاتا ہے۔ایسی ہی ایک 26سالہ عورت رانی چند بیگا ہے۔رانی 8زندہ بچوں کی ماں ہے۔دوبچے مرچکے ہیں۔جب ایک صحافی نے رانی چند سے اس کے احوال دریافت کئے تو اس نے بڑی بے بسی کے ساتھ کہا’’تھک گئی ہوں‘‘۔رانی کی شادی 15سال کی عمر میں ہی ہوگئی تھی۔اس کا تعلق بیگا قبیلہ سے ہے۔کہتے ہیں کہ بیگا ان 11قبائل میں سے ایک ہے جن کی آبادی کم ہوتی جارہی تھی۔لہذاجانوروں کی طرح ان کی نسل کو بچانے کے لئے 13دسمبر1979کوغیر منقسم مدھیہ پردیش کی حکومت نے ان قبائل کومانع حمل طبی سہولیات کی فراہمی کو غیر قانونی قرار دیدیا۔اس وقت سے آج تک یہ قبائل اپنی عورتوں کو سرکاری ہسپتالوں میں جیسے ہی لے کر جاتے ہیں ان کو بھگا دیا جاتا ہے۔آپ نے جس رانی کا قصہ پڑھااس کا شوہرپانچ سو روپیہ مہینہ کماتا ہے۔یہ خاندان’’ اچانک مار ٹائیگر ریزرو‘‘(شیروں کی محفوظ پناہ گاہ)میں رہتا ہے۔رانی کہتی ہے کہ ہمیں تو جانوروں سے بھی بدتر بنادیا گیا ہے۔کہاں سے ہم اپنے بچوں کو کھلائیں اور کہاں سے خود کھائیں۔ہم اپنے بچوں کو اسکول بھی نہیں بھیج سکتے۔حکومت ہماری کوئی مددنہیں کرتی۔کیا ہمیں اپنی زندگی جینے کا حق نہیں ہے؟

سومارو بیگا نیت رام کی عمر 50سال ہوگئی ہے۔وہ 11بچوں کا باپ ہے۔چار لڑکیوں کی شادی کرچکا ہے۔بڑی لڑکی25سال کی ہے۔مگر ابھی اسے یا اس کی بیوی کو نس بندی کرانے کی اجازت نہیں ہے۔اس نے اپنے بچوں کو کسی طرح اسکول بھیجا مگر اب بڑے لڑکے کو اٹھا لیا ہے کیونکہ اتنے بچوں کو وہ اکیلا نہیں پال سکتا۔نیت رام ان چند قبائلیوں میں سے ہے جنہوں نے غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کربلاسپورہائی کورٹ میں اس سرکاری ظلم کے خلاف پٹیشن دائر کی ہے۔نیت رام بتاتا ہے کہ جب سرکاری ہسپتال بیگا عورتوں کو مانع حمل دوائیں نہیں دیتے تو پھر وہ جھاڑ پھونک والوں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ذرا ہمت کرکے اس کی زبانی سنئے کہ پھر کیا ہوتا ہے۔’’جھاڑ پھونک والا کسی چھڑی کے اوپری سرے پر کوئی مرہم رکھتا ہے اور اسے عورت کے پوشیدہ عضومیں بڑی بے رحمی سے داخل کردیتا ہے۔اس سے اکثر عورتوں کو خطرناک انفکشن ہوجاتا ہے۔مگر کیا کریں‘کہاں جائیں؟‘‘۔

اس دردناک کہانی کے بعد آئیے دوسرا رخ کرتے ہیں۔مسلم عورتوں کی دردمندی میں دن رات تڑپنے والے اندریش کماریا یوگی آدتیہ ناتھ یا خود وزیر اعظم کو آخر یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ 2011کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان میں طلاق کے کل 8لاکھ معاملات میں 68فیصد سے زیادہ طلاق کے واقعات ہندو گھرانوں کے ہیں!جبکہ مسلمانوں میں طلاق کے واقعات محض23.3فیصد ہیں۔ہندؤں میں سب سے زیادہ مطلقہ عورتیں وزیر اعظم کے گجرات میں رہتی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق اس سے زیادہ واقعات ان درماندہ ہندو خواتین کے ہیں جن کو ان کے شوہروں نے نہ طلاق دی ہے اور نہ انہیں اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔بس یوں ہی بغیر کسی اطلاع اور انتظام کے چھوڑ دیا ہے۔وزیر اعظم سے بہتر اس بات کو اور کون جانتا ہوگا۔لیکن حیرت ہے کہ ہمارے پرجوش علماء کا ایک وفدوزیر اعظم کے طلاق سے متعلق تازہ بیان کی تعریف کرکے واپس آگیا اور ان سے یہ نہیں بتایا کہ خود سرکاری اعدادوشمارکے مطابق طلاق کے 68فیصدواقعات ہندوؤں میں ہی ہوتے ہیں۔لہذا آپ ہماری عورتوں کی فکر چھوڑ کراپنی عورتوں کی فکر کیجئے۔ ہندو میرج ایکٹ کے مطابق طلاق دینا اتنا آسان نہیں ہے۔لہذا جب میاں بیوی میں ناقابل حل اختلاف ہوجاتا ہے اور دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تو شوہر بیوی کو طلاق دئے بغیر ہی چھوڑ دیتا ہے۔عدالتوں میں جو لوگ طلاق کے لئے درخواست دیتے ہیں وہ برسوں یوں ہی لٹکے رہتے ہیں۔نہ دونوں کو ایک دوسرے سے چھٹکارا ہی ملتا اور نہ ہی دونوں کسی اور سے شادی کرسکتے ہیں۔ظلم یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے کسی کام کے بھی نہیں رہتے۔سپریم کورٹ کے معروف وکیل (آن ریکارڈ)مشتاق احمد کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں طلاق کا عمل جتنا آسان ہے ہندوؤں میں وہ اتنا ہی مشکل ہے۔اکثر اوقات عدالتوں سے طلاق حاصل کرنے میں سات برس لگ جاتے ہیں۔بعض واقعات میں 15برس بعد بھی چھٹکارا ملا ہے۔

2015کی مختلف رپورٹوں کے مطابق ہندو عورتوں کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:(لڑکی)جنین کشی‘میتری قرار‘ناطہ رسم‘تعددازدواج‘جہیز‘کم سنی کی شادی‘خودکشی‘ناموس کے نام پر قتل‘ستی رسم‘دیوداسی‘بعض بڑے مندروں میں داخلے پر پابندی‘شوہرکا چھوڑ کر چلے جانا‘بیوگی وغیرہ۔سروے رپورٹوں کے مطابق حمل کے دوران دختر کشی اور جہیز کی خاطر جلاکر مارڈالنے یا جبر واستحصال کرنے کے سب سے زیادہ واقعات ہندو گھرانوں میں ہوتے ہیں۔2001میں ایک ہزارا ہندو لڑکوں پر 925لڑکیاں تھیں۔لیکن 2015میں یہ تعداد گھٹ کر913پر آگئی۔ریاستوں میں تو حالات اور بھی زیادہ خراب ہیں۔ان میں سب سے اوپر ہریانہ‘پنجاب اور راجستھان ہیں۔یہی نہیں سکھوں‘جینیوں اور عیسائیوں میں بھی صورت حال کوئی اچھی نہیں ہے۔لیکن اندریش کماراوران کے وظیفہ خوروں کو صرف مسلمان عورتوں کی فکر ہے۔ہندو عورتوں کو درپیش ایک اور مسئلہ میتری قراریا فرینڈشپ ایگریمنٹ کا ہے۔اس کے تحت شادی شدہ مرد اپنی پسند کی دوسری عورت کو شادی کے بغیر رکھ سکتا ہے اور محض مجسٹریٹ کے سامنے ایک ایگریمنٹ کرکے اس کھلی زناکاری کو قانونی شکل دے سکتا ہے۔اس صورت میں مرد جب تک چاہے اس عورت سے فائدہ اٹھائے اور جب چاہے ایگریمنٹ توڑ کر اس عورت کو چلتا کردے۔اس پر سب سے زیادہ عمل گجرات میں ہورہا ہے۔حیرت ہے کہ ہمارے قائدین کو اس سلسلہ میں کچھ علم نہیں ہے۔انہیں اس صورت حال کی سنگینی کا بھی اندازہ نہیں ہے۔یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرنے والے دراصل ہندوستان کے پورے معاشرہ کو اسی اخلاقی پستی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں تاکہ مفروضہ اور نام نہاد لوجہاد کا جواب دینے کے لئے وہ مسلمان لڑکیوں کو میتری قرار جیسے طریقوں سے ہندولڑکوں کے جھانسے میں پھنسادیں۔گجرات میں ایسا ایک واقعہ ہوچکا ہے۔

ابھی اس موضوع کے بہت سے نکات باقی ہیں ۔مجھے یاد آتا ہے کہ میں نے 90کی دہائی کے اواخر میں اس وقت کے وزیر برائے فروغ انسانی وسائل مرلی منوہر جوشی سے ایک انٹرویو کیا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ ’’خود بھارت کے ہندو نہیں چاہتے کہ بھارت ہندو راشٹر بنے یا یہاں یکساں سول کوڈ لاگو ہو۔‘‘بی جے پی کی موجودہ قیادت نے ان جیسے قائدین کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر اپنے عزائم کا اظہار کردیا ہے۔سپریم کورٹ میں بحث جس رخ پر جارہی ہے اس میں قوی اندیشہ ہے کہ طلاق ثلاثہ کو ’غیر اسلامی یاغیر قانونی‘ قرا دیدیا جائے گا۔اس لئے کہ مسلم پرسنل لا کا مقدمہ اس عدلیہ کے سامنے ہے جو دلتوں کے مندروں میں داخلہ اور چھواچھوت کے سوال پر تو ہندو دھرم کی تعلیمات دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے لیکن ایک مسلم افسر کی داڑھی کے مقدمہ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کو دیکھ کر نہیں بلکہ شاہ رخ خان جیسوں کے چہرے دیکھ کرکردیتی ہے کہ’’ داڑھی اسلام میں ضروری نہیں‘‘۔اگر ہوتی تو شاہ رخ خان کے چہرہ پر بھی ہوتی۔ اس صورت حال کے ذمہ دار ہم ہیں۔ایک طرف ہم نے اصلاح معاشرہ جیسا اہم کام چھوڑ دیا ہے اور دوسری طرف ہم خود کو مخالفین کو انہی کی زبان میں جواب دینے کا اہل نہیں بناسکے ہیں۔اگرایک بم دھماکہ کاسنگھی ملزم قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمیں فہقی درس دے سکتا ہے تو مسلم قائدین جوابی اقدام کے طورپران ہزاروں لاکھوں ہندو خواتین کا مسئلہ کیوں نہیں اٹھاسکتے جن کی آواز بھی گھونٹ دی گئی ہے اور جن کے جسم وجاں بھی مسل دئے گئے ہیں؟مجھے ڈر ہے کہ روز محشرجب یہ مظلوم ہندو خواتین پیش ہوں گی تو جواب ہم سے طلب ہوگا کہ خیر امت کے ورثاء کے طورپر تم نے ان کی کیا مدد کی تھی؟

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں