ٹرمپ کی قیادت میں عالم اسلام کا لائحہ عمل

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی

سعودی عرب کے پاس پیسہ ہے لیکن طاقت نہیں ہے ،اس کے پاس تیل ہے لیکن نکالنے کا ہنر نہیں معلوم ہے ،عر ب جاہل اور وحشی قوم ہے ،اسلام دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی تعلیم دیتاہے، امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند کردیاجائے گا، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے یہ چند مشہور جملے ہیں، انتخابات کے دوران انہوں نے ہر دوسرے دن اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا تھا، ان کا انتخابی ایجنڈاہی مسلمانوں کو طعن و تشنیع کرنا تھا، یہی انتہاء پسندی اور جارحیت ان کی جیت کا سبب بھی بنی، مسلمانوں کے خلاف موقف اختیار کرنے کی وجہ سے عیسائیوں کی مذہبی تنظیموں نے ٹرمپ کی جیت کیلئے جنگی پیمانے پر مہم چلائی ، جیت کے بعد بھی ٹرمپ کی انتہاء پسندی کا سلسلہ بند نہیں ہوا، پہلی فرصت میں انہوں نے سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی عائد کردی لیکن ایسا کیا ہوا کہ انہوں نے اپنے پہلی غیر ملکی دورے کا آغاز اسی ملک سے کیا جس کے خلاف وہ بیان بازی کررہے تھے ،اسی مذہب کے ماننے والوں سے انہوں نے ملاقات کی جسے انہوں نے دہشت گردی کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا تھا؟۔ جس ملک سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہاں انہوں نے 20 مئی کو سب سے پہلے قدم رکھا، سعودی عرب کے خالد انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ٹرمپ کا قافلہ لنگر انداز ہوا، ٹرمپ کے اعزاز میں ریڈ کارپیٹ بچھائی گئی ،پہلی مرتبہ سعودی فرماں رواشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کسی بھی مہمان کا ایئر پورٹ پر جاکر پر تپاک استقبال کیا، سفارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے مس ٹرمپ سے بھی مصافحہ کیا حالاں کہ دو سال قبل اوباما کی اہلیہ سے انہوں نے مصافحہ کرنے سے انکار کردیا تھا، اسی کے ساتھ انہوں نے ٹرمپ کو داہنے ہاتھ سے چائے نوشی کا سبق بھی پڑھایا، تین دنوں تک ٹرمپ کی شاندار روایتی ضیافت کی ،ٹرمپ کیلئے عرب کے معروف رقص العروض کا بھی اہتمام کیا گیا، شاہ سلمان نے انہیں سعودی عرب کے سب سے بڑے شہری اعزاز شاہ عبد العزیز ایوارڈ سے سرفراز کیا، پورے ریاض میں ٹرمپ کے پوسٹرس چسپاں کئے گئے، دنیا بھر کے تمام مسلم رہنماؤں کو سعودی حکومت نے ٹرمپ کے استقبال کیلئے مدعو کیا، انتہاء پسندی کی بنیاد پر صدارتی الیکشن جیتنے والے ٹرمپ کے ہاتھوں مرکز اعتدال برائے انسداد دہشت گردی و انتہاء پسندی کا افتتاح عمل میں آیا، اسلامی اتحادی فورس کی تشکیل ہوئی، امریکہ ۔ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 55 مسلم ممالک کے سربراہان مملکت سے ٹرمپ نے خطاب کیا ، دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک وزن کلچر کے معاہدہ پر دستخط ہوا ، ہرسال اس کا اجلاس بھی ہوگا، خلیج تعاون کونسل کا اجلاس بھی اس موقع پر ہوا جس کی صدارت ڈونالڈ ٹرمپ اور شاہ سلمان نے مشترکہ طور پر کی اس کے علاو ہ دونوں ملکوں کے درمیان پندرہ کلیدی معاہدے بھی طے پائے گئے۔
امریکہ سعودی عرب کی ضررورت ہے یا سعودی عرب امریکہ کی ضرورت ہے ، اس دورے سے ٹرمپ کا مفاد وابستہ تھا یا سعودی فرماں رواکا، سعودی عرب نے ٹرمپ کو مجبور کیا اپنے نظریات سے رجوع کرکے سعودی عرب کا دورہ کرنے کا یا ٹرمپ نے مجبور کیا سعودی فرماں رواں کو اپنے یہاں بلانے پر ؟ یہ سوالات بہت اہم ہیں حالاں الیکشن کے دوران جب ٹرمپ سعودی عرب کے خلاف جارحانہ رخ اختیار کئے ہوئے تھے اس دوران سعودی حکومت نے بھی سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم امریکی بینکوں سے اپنے پیسے واپس لے لیں گے۔
تجزیہ نگاروں اور سہ روزہ دورے کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ دورہ سعودی عرب کی ضرورت تھی ، خطے میں ایران کو پسپا کرنے ، کمزور دکھانے اور اپنی برتری دکھانے کیلئے سعودی حکومت نے اپنی انا تک کی قربانی دی ، یمن میں حوثیوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کیلئے سعودی عرب نے ایک سو دس ارب ڈالر کا ہتیھار امریکہ سے خریدنے کا معاہدہ کیا ، بہت جدوجہد کے بعد ٹرمپ نے سعودی جانے کی حامی بھری، شہزادہ محمد بن سلمان نے مسلسل دو مہینے تک اس مذاکرات کی کامیابی کیلئے تگ و دو کی ، اس سلسلے میں عرب نیوز کے ایک رائٹر نے یہ بھی لکھاکہ ہے کہ ٹرمپ کا پہلا دورہ اسرائیل کا پہلے سے طے تھا، جب سعودی عرب کو معلوم ہوا تو اس نے ٹرمپ سے سعودی عرب کے راستے اسرائیل جانے کی اپیل کی ، ٹرمپ نے کئی ساری شرطیں رکھی اور کچھ معاملے پر سمجھوتہ ہوجانے کے بعد ٹرمپ نے عرب ہوتے ہوئے اسرائیل جانے کا پروگرام بنایا۔ سعودی دورہ کے دوران ٹرمپ نے ایران پر دہشت گردی کا ٹھیکرا پھوڑا، مسلم دنیا سے اسے الگ تھلگ کرنے کی اپیل کی، اسے پوری دنیا کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کا سب سے بڑادشمن کہا، امریکہ اور اسرائیل کو مسلمانوں کا خیر خواہ اور دوست بتایا ، سعودی عرب کی خواہش تھی کہ ٹرمپ امریکہ ۔ایران کے درمیان ہوئے جوہری معاہدہ کو منسوخ کرنے کا اعلا ن بھی کردیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ، ٹرمپ نے مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین تو ضرور کی لیکن واشنگٹن کا انہوں نے کوئی موقف واضح نہیں کیا ، ٹرمپ نے بار بار اسلامی انتہاء پسندوں کو ختم کرنے کی وکالت کی، مشرق وسطی میں جاری قتل و غارت گری اور خوں ریزی کا ذمہ دار بھی انہوں نے مسلمانوں کو ہی ٹھہرایا اور مسلم حکمرانوں سے ہی اسے ختم کرنے کی اپیل بھی کی۔
اسلامی انتہاء پسندی سے جن تنظیموں کی طرف اشارہ تھا اس میں داعش ، القاعدہ وغیرہ سر فہرست ہے ،اس وقت مشرق وسطی سمیت پور ی دنیا داعش کی زد میں ہے ، 2013 میں داعش کے وجود میں آنے کے بعد مسلسل اس کا دائرہ کار بڑھتا جارہا ہے ، 40 ممالک کی فوج کی ساتھ جنگ لڑنے کے باوجود مسٹر اوبامہ داعش کا بال بیکا نہیں کرسکے۔ یہ معمہ بھی اب تک حل نہیں ہوسکا ہے کہ داعش کو کس کی سرپرستی حاصل ہے؟۔ مسلم دانشوران کا ماننا ہے کہ داعش کو امریکہ نے پیدا کیا ہے اور اسی کی جانب سے داعش کی پشت پناہی ہورہی ہے ، دوسری جانب یورپین مفکرین اپنی تحریروں میں اکثر لکھتے ہیں کہ سعودی عرب داعش کی فنڈگ کرتا ہے اور وہ اس کیلئے ذمہ دار ہے ، جن دو ملکوں پر دو قوموں کے دانشوران داعش کو بڑھاوا دینے کا الزام عائد کرتے ہیں ان دونوں کے سربراہ نے اب مشترکہ اور متفقہ طور پر داعش اور انتہاء پسندی کو ختم کرنے کا عہد و پیمان کیا ہے، اب دیکھئے نتیجہ کیا نکلتا ہے ، داعش کا خاتمہ ہوتا ہے یا پھر مشرق وسطی میں کوئی اور نئی آفت آتی ہے، بقول ایک امریکی شہری کہ ’’گذشتہ دو صدور نے القاعدہ اور داعش کو پیدا کیا ہے اب ٹرمپ اسی سے کام چلائیں گے یا کچھ نیا کریں گے ‘‘
مشرق وسطی میں اس وقت شام اور عراق کے حالات قابل رحم ہیں، یہ دونوں ممالک تاریخ کے بدترین دور سے گزررہے ہیں، روس نے ایران کے تعاون سے شام پر حملہ کرکے اور بشار الاسد کا ساتھ دیکر کرکے یہاں کی صورت حال کو اور زیادہ بگاڑ دیا ہے ، شام سے بشار الاسد کا خاتمہ ناگزیر ہے، اس وقت امت مسلمہ اور مسلم دنیا کا مسئلہ شام سے بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ ہے لیکن ٹرمپ نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی اور نہ یہ لگ رہا ہے کہ شام کا مسئلہ حل ہوپائے گا۔سعوی عرب کی بھی پوری توجہ یمن کو حوثیوں سے آزاد کرانے پر مرکوز ہے، شام کے مسئلے میں کئی خاص دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے ۔
ٹرمپ کے سعودی عرب دورے کی سب سے خاص بات امریکہ ۔ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس ہے جس میں ترکی سے الجیریا اور انڈونیشیا سے پاکستان تک کے 55 مسلم ممالک کے سربراہان حکومت نے شرکت کی، ٹرمپ نے اس کانفرنس سے آدھے گھنٹے کا خصوصی خطاب کیا، حزب اللہ کے ساتھ حماس جیسی تنظیم کو بھی ٹرمپ نے دہشت گرد کہا، اسلامی انتہاء پسندی اور اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح قائم کرکے مسلمانوں کو انہوں نے دنیا بھر کے دہشت گردانہ واقعات کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا، پاکستان اور ترکی جیسے اہم عسکری طاقت کے حامل ممالک کو اس کانفرنس میں کوئی اہمیت نہیں دی گئی ، مصر کی اخوان حکومت پر شب خون مارنے والے عبد الفتاح السیسی کو نمایاں مقام ملا، اس کانفرنس سے خطا ب کرکے ٹرمپ نے واضح طور پر اپنی قوم اور دنیا کے سامنے یہ تاثر پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی کہ پورا عالم اسلام ان کے تحت ہے ، مسلم دنیا کے قیادت ان کے ہاتھوں میں ہے،مسلمانوں نے انہیں اپنا قائد و سرپرست تسلیم کرلیا ہے دوسری طرف سعودی عرب نے بھی امریکہ کو یہ پیغام دینے کی کوشش کہ پورا عالم اسلام سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے ، وہ مسلمانوں کا مرکز اور رہنما ہے۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com