لہو پکارے گا آ ستیں کا

مولانا ندیم الواجدی

لکھنؤ کی سی بی آئی عدالت نے بابری مسجد شہادت کیس میں اڈوانی، جوشی، اومابھارتی ،ونے کٹیار، سادھوی رتمبرا اور ڈالمیا سمیت بارہ ملزمین کو عدالت میں طلب کرکے ان پر فرد جرم عائد کردی ہے، سمجھ میں نہیں آتا اس خبر پر خوشی کا اظہار کیا جائے یا افسوس کا، بہ ظاہر تو یہ خوشی کی خبر معلوم ہوتی ہے کہ پچیس سال کے طویل اور تھکا دینے والے انتظار کے بعد اب جاکر یہ امید بندھی ہے کہ شاید بابری مسجد کو انصاف مل جائے ، لیکن اس میں افسوس اور دکھ کا پہلو یہ ہے کہ حکومتوں نے اتنے نازک اور حساس معاملے میں جس سرد مہری کا ثبوت دیا ہے، عدالتوں اور کمیشنوں نے جس بے حسی کے ساتھ اس کیس کو نظر انداز کیا ہے اس سے انصاف کا تقدس داغ دار ہوا ہے، یہ داغ موجودہ کارروائی سے دھلنے والا نہیں ہے، یہ عجیب بات ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کا معاملہ برسوں سے انصاف کا منتظر ہے اور اس کے ردّ عمل میں ہونے والے بعض واقعات منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں اور ان کے مجرمین کو سزا بھی ہوچکی ہے، انصاف کا یہ دوہراپیمانہ ایک ایسے ملک میں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور جسے جمہوریت اور سیکولرزم کا سب سے بڑا علمبردار کہا جاتا ہو بہت کچھ سوچنے اور کہنے پر مجبور کرتا ہے، ان حالات میں یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ جن ملزمین پر فرد جرم عائد کی گئی ہے ان کو سزا بھی ملے گی یا نہیں، کہا جارہا ہے کہ سیاسی طالع آزماؤں نے اپنے حقیر مفادات کی خاطر اس مقدمے کو متحرک کیا ہے، جب یہ مفادات پورے ہوجائیں گے صورت حال پھر وہی ہوجائے گی جو آج سے ایک ماہ پہلے تھی۔
بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر (۱۴۸۳ء ۱۵۳۱) کے دربار سے منسلک ایک معروف شخص میرباقی نے ۱۵۲۷ء میں اترپردیش کے قصبہ اجودھیا میں تعمیر کرائی تھی، یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کا شاہ کار تھی، تین سو پچیس سال تک مسجد کی آئینی حیثیت کوعوامی، حکومتی یا عدالتی سطح پر چیلنج نہیں کیا گیا، ۱۸۵۳ء میں پہلی بار ہندؤوں کی طرف سے یہ دعوی کیا گیا کہ بابری مسجد کے احاطے میں کسی جگہ رام چندر جی کا جنم استھان اور سیتا جی کی رسوئی ہے، یہ دور ہندوستان میں انگریزوں کے عروج کا دورتھا، مسلمانوں کی حکومت ختم ہوچکی تھی مسلم ریاستیں اپنے وجود کے لیے انگریزوں کی کاسہ لیسی پر مجبور تھیں، نواب واجد علی شاہ اس علاقے کا حکمراں تھا، برطانوی استعمار کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت کا زور توڑنے کے لیے انگریزوں نے یہ پالیسی اپنائی تھی کہ ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ الجھا دیا جائے، بابری مسجد کی زمین پر رام جنم بھومی اور سیتا رسوئی کا تصور اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہندؤں کے پاس اپنے دعوے کے حق میں کوئی دستاویزی ثبوت نہیں تھا، ایک بدھسٹ نجومی کے ذریعے ان دونوں جگہوں کی نشان دہی کرائی گئی، اور نقی علی خاں کو واسطہ بناکر جو واجد علی شاہ کاخسر اور حکومت میں وزیر تھا انگریزوں نے نواب کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ بابری مسجد کے احاطے میں رام جنم استھان اور سیتا کی رسوئی کی جگہ دیدی جائے تاکہ ہندو مسلم جھگڑوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ رُک جائے، چنانچہ مسجد کے مسقف حصّے کے بالمقابل صحن مسجد سے باہر مشرق کی جانب اکیس فٹ لمبی اور سترہ فٹ چوڑی جگہ دیدی گئی جس پر اسی وقت سے پوجا پاٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا، ۱۹۴۹ء تک صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، ۲۲دسمبر ۱۹۴۹ء کی رات میں جب کہ مسجد پوری طرح بند تھی ہنومان گڑھی کا مہنت آبھے رام داس اپنے پچاس ساٹھ چیلوں کے ساتھ احاطے کی دیوار پھاند کر مسجد میں داخل ہوا اور اس نے رام کی مورتی جسے وہ اپنے ساتھ لے کر آیا تھا مسجد کی محراب میں رکھدی، اگلی صبح ایودھیا میں یہ مشہور کردیا گیا کہ رام جی مسجد میں پرکٹ ہوئے ہیں، اس لیے وہی جگہ رام جی کا جنم استھان ہے، تھانے میں ایف آئی آر درج ہوئی، اس میں صاف لکھا ہے کہ پچاس ساٹھ افراد قفل توڑ کر ، دیواروں اور سیڑھیوں کو پھاند کر مسجد کے اندر داخل ہوئے اور انھوں نے مسجد کے اندر شری رام جی کا بت رکھ کر مسجد کی پوترتا کو نقصان پہنچایا، اس وقت مرکز میں جواہر لال نہرو وزیر اعظم اور یوپی میں پنڈٹ گووند بلبھ پنت وزیر اعلی تھے، دونوں جگہ کانگریس کی حکومت تھی، مولانا ابو الکلام آزاد، رفیع احمد قدوائی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جیسے بھاری بھرکم مسلم لیڈر موجود تھے، ان حضرات نے کوشش بھی کی، لیکن نہ پنڈت نہرو نے دلچسپی دکھائی اور نہ بلبھ پنت نے انصاف کا ساتھ دیا، اس کے بجائے مسجد کو متنازعہ قرار دے کر تالا ڈال دیا گیا، یہ مسجد اسی وقت سے نا انصافی کا شکار ہے۔
۱۹۸۰ء کے دہے تک آر ایس ایس اور دوسری بھگوا تنظیمیں محراب مسجد میں رام جی کے پرکٹ ہونے کے جھوٹے دعوے کو معجزے کے طورپر پھیلاتی رہیں، آر ایس ایس کے ترجمان ہفتہ وار ’’آرگنائزر‘‘ نے اپنے ۲۹/ مارچ کے شمارے میں لکھا تھا کہ ’’۲۳دسمبر ۱۹۴۹ء کی تاریخی صبح شری رام چندر اور سیتا دیوی کی مورتیاں معجزاتی طورپر ظاہر ہوئیں، ہندو عقیدت مند اس واقع پر خوشی اور مسرت کے جذبات ظاہر کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں اس مقام پر جمع ہوئے لیکن بد قسمتی سے حکومت نے فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑنے کے خوف سے اس جگہ کو متنازع قرار دے دیا اور اس کے دروازوں پر تالا ڈال دیا‘‘ حالاں کہ یہ ایک منصوبہ بند سازش تھی اور اس سازش کے تحت رام کی مورتی باہر سے لاکر رکھی گئی تھی، مشہور سیاست داں اور رام مندر بنائے جانے کے بڑے حامی ڈاکٹر سبرانیم سوامی نے ۱۳ مارچ ۱۹۹۳ء کو حیدر آباد میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھاکہ ’’۲۲/ دسمبر ۱۹۴۹ء کی رات مورتیوں کا رکھنا ایک مجرمانہ حرکت تھی، جنھوں نے یہ کام کیا وہ مجرم تھے‘‘ سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے بھی جنھوں نے بابری مسجد کی شہادت میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جو اس کی جگہ رام مندر دیکھنا چاہتے تھے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس سرد رات ایک تھیلا جس میں دریائے سرجو کا پانی تھا اور رام لالہ کے بت تھے رام چبوترے سے بابری مسجد کی جانب لے جایا گیا‘‘ جسٹس سدھیر اگروال جو بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت کررہے تھے وہ اپنے فیصلے میں لکھ چکے ہیں ’’ہم کو یہ فیصلہ تحریر کرنے میں کوئی پس وپیش نہیں ہے کہ متنازعہ عمارت کے درمیانی گنبد کے نیچے ۲۲/ ۲۳دسمبر ۱۹۴۹ء کی رات مورتیاں لاکر رکھی گئیں‘‘ (ایودھیا کا تنازعہ مصنفہ عبدالرحیم قریشی، ص: ۸، ۹، ۱۱۷) افسوس! اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مجرمانہ فعل کو عقیدے اور آستھا سے جوڑ دیا گیا اور سارے حقائق نظر انداز کردئے گئے۔
۱۹۸۴ء میں وشوہند پریشد کی جانب سے رام کی جائے پیدائش کو آزاد کرانے کے لیے تحریک کا اعلان کیا گیا، بی جے پی کے لیڈر ایل کے اڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھالی، کانگریسی حکومت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ۱۹۸۶ء میں ہندؤں کو پوجا پاٹ کی اجازت دیدی اور مسلمانوں کو نماز سے محروم رکھا، نتیجہ یہ نکلا کہ رام مندر کی تحریک زور پکڑتی چلی گئی اور ۶/ دسمبر ۱۹۹۲ء کو ہزاروں شرپسندوں نے ایودھیا میں جمع ہوکر مسجد کو شہید کردیا، اس وقت یہ تمام لوگ وہاں موجود تھے جن پر فرد جرم عائد کی گئی ہے، وہ چاہتے تو شر پسندوں کو روک بھی سکتے تھے، پولیس اور پی اے سی کے ہزاروں افراد وہاں ڈیوٹی پر تھے لیکن سب کھڑے تماشا دیکھتے رہے، مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی نر سمہا راؤ وزیر اعظم تھے، یوپی میں بی جے پی کی حکومت تھی اور کلیان سنگھ وزیر اعلی تھے، دونوں حکومتوں نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی، یہ تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، اگلے دن کے ہندی اور انگریزی اخبارات نے اپنی روایتی تعصب کے باوجود اس طرح کی سرخیاں لگائیں قوم کے لیے شرمناک (انڈیا ٹوڈے) بہت بڑا فریب (دی ویک) ایودھیا میں حقوق کی پامالی (دی ہندو ڈیلی) قومی دھوکہ (دی انڈین ایکسریس) جمہوریت کے نام پر داغ (دی ٹائمز آف انڈیا)باعث شرم (دی ہندوستان ٹائمز) وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے قوم کو یقین دلایا تھا کہ مسجد اسی جگہ بنائی جائے گی، لیکن وہ اپنا وعدہ نبھانے میں ناکام رہے، اس کے بجائے ان کی حکومت نے لبراہن کمیشن قائم کرکے معاملے کو طول دینے کی کوشش کی، ۱۷/ سال بعد اس کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں اس نے آر ایس ایس اور دوسری ہندو تنظیموں کو ذمہ دار ٹھہرایالیکن منموہن حکومت نے چار ماہ تک اس رپورٹ کو دبائے رکھا، عدالتوں میں مقدمے کی رفتار چیونٹی کی چال سے آگے بڑھی، سی بی آئی کی عدالت نے ۲۰۰۱ء میں اس کیس سے مجرمانہ سازش کی دفعہ نکال دی ، اور مقدمے کو بے جان کردیا ، اب ۲۰۱۷ء؁ میں سپریم کورٹ کی مداخلت پر یہ دفعہ دوبارہ شامل کی گئی ہے، اور ملزمین کو عدالت میں طلب کیا گیا ہے، سپریم کورٹ کا حکم تو یہ ہے کہ مقدمہ دو سال میں نمٹادیا جائے لیکن کیا ایسا ہوگا، اور اگر ایسا ہوبھی گیا تو کیا واقعی ملزمین کے خلاف کیس ثابت ہوپائے گا ؟ اگر ۱۹۴۹ء سے ۱۹۱۷ء تک کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو ان سوالات کا جواب نفی میں ہوگا، اس کے باوجود ہمیں سی بی آئی عدالت کی اس کاروائی کا خیرمقدم کرنا چاہئے، مایوسی کے اندھیروں میں امید کی ایک ہلکی سی کرن چمکی تو سہی!
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں