ابوفہد
کسی قوم میں ایک مرکزی قوت کے نہ ہونے سے کیا کیا نقصانات ہوتے ہیں میرے خیال میں اس کا اندازہ تقریباً سبھی کو ہوگا سوائے ان کے جو اسلام میں کسی مرکزی قوت کے قائل ہی نہیں ہیں۔ اوران کے نزدیک اسلام بس ایمان وعقائد اور چند اخلاقی چیزوں کا نام ہے اور بس۔
مرکزی قوت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ذہنی وفکری طو ر ہرنیز اعمال و عقائد میں بھی انتشار کے شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جس کے جی میں جو آتا ہے وہ کہتا ہے اور اس پر عمل کرتاہے۔ مرکزی قوت نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی قوم کی حیثیت ایسے ریوڑ کی سی ہوجاتی ہے جس کا کوئی نگہبان نہ ہو۔ اور بھیڑیں جدھر چاہے ادھر کو چلی جاتی ہوں اور ہر کھیت میں منہ مارتی پھرتی ہوں۔
مرکزی قوت کے فقدان کے نقصان کو سمجھنے کے لیے ایک چھوٹی سی مثال لے لیتے ہیں۔ اسلام میں زکوٰۃ کا پورا ایک سسٹم ہے، او ر زکوٰۃ وصول کرنے کا بھی پورا ایک سسٹم ہے، اس کے کچھ اصول وآداب بھی ہیں اور احکام بھی۔ جو زکوٰۃ دینے سے انکار کرے گا اس پر سختی بھی کی جائے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی بھی ملک میں ٹیکس کا ایک نظام ہوتا ہے اور پھر ٹیکس وصول کرنے کا بھی پورا ایک سسٹم ہوتا ہے اور جو ٹیکس نہیں دیتا اس کی سرزنش کی جاتی ہے۔
اب جب اسلام میں مرکزی قوت نہ رہی تو ہوا یہ کہ ہر کوئی اپنے حساب سے عمل کرنے لگا، عقائد سے لے کر اعمال تک میں انتشار پھیل گیا۔قسم قسم کے لوگ کھڑے ہوگئے اور بات بے بات تفرقہ بازیاں پیدا ہوگئیں۔ زکوٰۃ جیسا عمل جو ایک اجتماعی عمل تھا وہ محض انفرادی عمل ہوکر رہ گیا۔اب لوگ یا تو زکوٰۃ دیتے ہی نہیں اور اگر دیتے ہیں بھی ہیں تو حساب کتاب کئے بغیر محض انداز وگمان سے دیتے ہیں اورپھر یہ زکوٰۃ وہ کس کو دیں یہ بھی ان کی مرضی پر ہی منحصر ہوتاہے۔ جب مرکزی قوت نہیں ہے تو زکوٰۃ دینے کے عمل میں پوری طرح آزاد ہوگئے ہیں، زکوٰۃ کس کو دیں، کب دیں اور کتنی دیں، یہ سب ان کی اپنی مرضی اور سہولت پر منحصر ہے۔حتیٰ کہ نہ دیں تب بھی چلتا ہے۔
مسلمانوں کے پاس جب مرکزی قوت تھی تو زکوٰۃ کی وصولی کا اس طرح کا ایک سسٹم قائم تھا جس طرح موجودہ دور میں ٹیکس کی وصول کرنے کا ایک نظام ہے۔ اور جب یہ سسٹم نہ رہا تو زکوٰۃ دینے والے بھی آزاد ہوگئے اور زکوٰۃ وصول کرنے والے بھی۔ پہلے ایک شخص کے پاس ایک محصل جاتاتھا اور اس کے مال سے جو زیادہ تر غلے کی شکل میں ہوتا تھا زکوٰۃ کی مقدار کا غلہ لے کر واپس آجاتا تھا۔ اور اس میں صاحب مال کو کچھ اختیارحاصل نہ تھا، نہ وہ آنا کانی کرسکتاتھا اور نہ ہی کچھ ہیرا پھیری۔ جو محصل کہتا تھا وہ بے چوں چراں اس پر عمل کرتا تھا۔ البتہ اس محصل کو بھی ہدایات دی جاتی تھیں کہ لوگوں پر سختی نہ کرے اور زکوٰۃ کے لیے ان کے مال میں سے سب سے اچھا مال منتخب نہ کرے، بلکہ درمیانی درجہ کا مال منتخب کرے۔ ذرا یہاں رک کر سوچئے کہ پہلے جب مسلمانوں کے پاس ایک مرکزی قوت تھی ایک محصل کو کتنے اختیارات حاصل ہوتے تھے۔
اور ایک آج کا زمانہ ہے، جب خاص طور پر برصغیر پاک وہند جیسے خطوں میں مسلمانوں کے پاس کوئی مرکزی قوت نہیں ہے، جہاں سے انہیں احکام ، ہدایات اور پشت پناہی حاصل ہوسکے تو اب ہو یہ رہا ہے کہ اب کوئی بھی شخص کسی بھی شخص کے پاس زکوٰۃ وصول کرنے پہنچ جاتا ہے۔ اب یہ زکوٰۃ دینے والے پر منحصر ہے کہ چاہے تو زکوٰۃ دے اور چاہے تو زکوٰۃ نہ دے، یہاں تک کہ جب وہ عاجز آجائے تو اسے یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ محصل کو ڈانٹ ڈپٹ کر بھگادے۔ کوئی بھی اس سے کچھ پوچھنے یا کہنے والا نہیں ہوگا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ۔ زکوٰۃ کا ادا کرنا تو اس پر فرض تھا تو ایک فرض کی ادائیگی میں اس کا رویہ اس قدر بے پرواہی ، کوتاہی اور سنگدلانہ کیوں ہے۔ اور اسی طرح نہ کوئی کسی محصل کا ہاتھ پکڑنے والا ہے کہ بھائی یہ زکوٰۃ کی رقم کس کے لیے جمع کررہے ہو، اس کا مصرف کیا ہے اور تمہیں یہ استحقاق کس نے دیا کہ تم محصلین کی ذمہ داری ادا کرو۔ اب کوئی کسی کو جواب دہ نہیں ہے ،کوئی کسی سے باز پرس کرنے والا نہیں ہے ۔ ایسے میں انتشار پھیلنا لازمی ہے اور کوئی بھی نظم نہ ہونے کی وجہ سے خرد برد کے بہت زیادہ احتمالا ت ہیں۔
اب ایسے مناظر بھی ہماری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں کہ ایک ہی دروازے پر پچاس پچاس محصلین پہنچتے ہیں۔ ایسے میں صاحب مال تھوڑی تھوڑی رقم سب پر تقسیم کردیتا ہے، کچھ کو ڈنٹ ڈپٹ کر بھگا دیتا ہے اور کچھ کو دس پندہ روپئے دے کر ٹرخا دیتا ہے۔ دیکھنے کو تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض محصلین محض سو یا دو سو روپئے وصول کرنے کے لیے صاحب مال کے پاس پانچ پانچ دفعہ جاتے ہیں تب جاکر انہیں سو دوسو روپئے مل پاتے ہیں۔
یہ سب کیوں ہورہا ہے۔ یہ اسی لئے ہورہا ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی مرکزی قوت نہیں ہیں، ان کے پاس قانون اور اخلاق کی کتابیں تو ہیں مگر قوت نافذہ نہیں ہے۔ایسے میں ہر شخص کو من کے مطابق عمل کرنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔اگر مسلمانوں کے پاس کوئی مرکزی قوت ہوتی ،ایک نظم اجتماعی ہوتا تو ایسی حالت پیش نہ آتی۔