ترکی اعتدال پسندی کی راہ پر

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
ترکی یعنی یورپ کا مرد بیمار اب شفاء یاب ہوکر پوری مسلم دنیا اور ملت اسلامیہ کی قیادت کرنے کا اہل بن چکاہے ،ترکی کی چوطرفہ ترقی اور مضبوط دفاعی قوت پوری مسلم دنیا کیلئے مثال ،باعث فخر اور مسرت و شادمانی کاسبب ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ کسی ملک کی ترقی کیلئے صرف چند سال اور ایک مخلص قیادت درکار ہے اور بس، کیوں کہ یہ وہی ترکی ہے جہاں سے سوسال قبل کمزور ہونے کی بنیا دپر خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا ، مسلم ممالک کو ٹکروں میں بانٹ دیا گیا، اس کی معیشت کا کوئی نام ونشان نہیں رہا،غریب ملک کے طور پر اس کی پہچان بن گئی، اسلامی شعائر پر پابندی عائد کردی گئیں ، مساجد اور مدارس پر تالے لگادیئے گئے۔
ترکی معاشیات کے ساتھ دفاعی سطح پر بھی سرفہرست ہے ، اس وقت ترکی کا شمار دنیا کی آٹھویں سب سے بڑی فوجی طاقت میں ہوتاہے ،جی 20 کا ممبر ہے ،یہ ناٹوافواج کے رکن ممالک میں بھی شامل ہے، اس کے پاس جدید جنگی آلات اورفوجی ہتھیار ہیں ، دوسروں سے ہتھیار خریدنے سے زیا دہ توجہ اپنے یہاں ہتھیارسازی پر مرکوز ہے ، افغانستان ،عراق ،بوسنیا ،کوسوو جیسے ممالک میں ترکی کی فوجیں موجود ہیں، مگادیشو اور صومالیہ میں ترکی سال رواں اپنا فوجی کیمپ بھی قائم کرنے جارہاہے جہاں صومالیہ افواج کو الصحاب گروپ سے لڑنے کی ٹریننگ دی جائے گی ، اس کے علاوہ ترکی کی افواج شمالی شام میں داعش اور کردوں کے ساتھ بر سرپیکار ہیں ،شمالی عراق اور موصل میں بھی ترک فوجیں داعش کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔
خلیجی ممالک کے آپسی بحران کے بعد ترکی نے خلیجی ممالک میں بھی قدم جمانے اورخطے کو امریکی مداخلت محفوظ رکھنے کے پیش نظریہاں قدم جمانا شروع کردیا ہے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مصر کی جانب سے قطر کا سفارتی بائیکاٹ کرنے کے دو روز بعد ہی سات جون کو ترک پارلیمنٹ نے دو اہم بل پاس کیا، ایک ترک افواج کو قطر بھیجنے کا دوسرا قطر ۔ ترک کے درمیان فوجی مشق کا ۔ اس قرارداد کے پاس ہونے کے بعد ترک فوج قطر میں پہونچ چکی ہے، طارق بن زیاد فوجی ایئر بیس پر مشترکہ ٹریننگ بھی شروع ہوگئی ہے ، پہلی مرتبہ کسی خلیجی ملک میں ترکی نے اپنا فوجی اڈہ قائم کیاہے ، یہ سب 2014 میں دوحہ اور انقرہ کے درمیان دفاعی معاہدے پر ہوئے دستخط کی بنیاد پر کیا گیا۔
قطر اور ترکی کے درمیان بہت ساری چیزیں مشترک ہیں، دونوں ممالک معاشی طور پر ترقی یافتہ ہیں، دونوں کی اپنی خارجہ پالیسی ہیں، دونوں ملکوں کی موجودہ حکومت نظریاتی طور پر اسلام پسند، شریعت کی پاسدار اور مذہب سے قریب تر ہے، ان کے حکمرانوں کا مشن اسلام کی سربلندی ، مسلمانوں کا بلند اقبال اور غیروں کی مداخلت سے آزادی ہے، یہ دونوں ممالک اخوان المسلمین کے نظریہ سے بھی ہم آہنگ ہیں، فلسطینی مسلمانوں کی تنظیم حماس کے سپوٹرس ہیں، کھلے عام اسرائیل کے خلاف فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں، اسرائیلی دہشت گردی کی تنقید کرتے ہیں، 2013 میں جب مصر میں اخوان المسلمین کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ پلٹا گیا تھا تو دونوں ممالک نے عبد الفتاح السیسی کے اس اقدام کی مخالفت کی تھی، اس موقع پر یہ خبر بھی آئی کہ ایک تقریب میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے السیسی سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا ہے، اخوان المسلمین اور حماس کے خلاف کریک ڈاؤن اور ان کے رہنماؤں کو جیل میں ڈالنے کی بھی ان دو ممالک نے کھل کی مذمت کی، ان وجوہات نے بھی دونوں ممالک کے درمیان قربت میں اضافہ کیا ہے اور اس طرح ترکی نے اب وہاں اپنا فوجی اڈہ بھی قائم کرلیا ہے جس سے عالم اسلام کو خود ایک مثبت اور مضبوط دفاعی نظام کا پیغام جائے گا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کئی مرتبہ اس خدشہ کی وضاحت کرچکے ہیں کہ قطر میں فوجی ائیر بیس کے قیام کا مقصد پورے خطے اور خلیجی ممالک کو تحفظ فراہم کرنا، بیرونی اور غیروں کے بیجا تسلط سے آزادی دلانا ہے، اردگان نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ جن لوگوں کو قطر میں ترک فوج کی موجودگی سے تکلیف ہورہی ہے انہیں امریکہ سے کیوں تکلیف نہیں ہے؟ جس کی فوجیں دودہائی سے قطر میں موجودہے۔قطر میں 1999 سے امریکی ائیر بیس قائم ہے ، تقریباً دس ہزار امریکی افواج کی میزبانی قطر کے ذمہ ہے ، شام، عراق اور افغانستان کیلئے امریکی فوجی آپریشن بھی قطر میں واقع العدید ایئر بیس سے کیا جاتا ہے ۔
ترکی نے خلیجی ممالک کے آپسی بحران کو ختم کرنے کیلئے مسلسل جہدو جہد جاری رکھی ہے اور اب تک کوششیں ہورہی ہیں ، طیب اردگان متعدد مرتبہ قطر پر عائد پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کرچکے ہیں، گذشتہ دنوں ایک افطار پارٹی میں بہت متاثر کن لہجے میں انہوں نے کہاکہ خلیجی ممالک کے آپسی تنازع سے رمضان کی برکتیں ماند پڑگئیں ہیں، بھائیوں کی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا ہے ، خادم الحرمین الشریفین سے ہم ہرگز اس طرح کی توقع نہیں رکھتے ہیں، یہ عمل سراسر غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ہے ، ایسے موقع پر ہم قطر کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے ہیں، ان تمام باتوں کے ساتھ ترکی کا کمال یہ ہے کہ سعودی عرب سے بھی اس کے رشتے برقرار ہیں ، حال ہی میں ترکی کے وزیر خارجہ خلیجی ممالک کا دورہ کرکے وطن واپس لوٹے ہیں، گذشتہ دنوں ترک حکومت نے سعودی عرب میں بھی ترکی فوجی اڈہ قائم کرنے کی پیشکش کی تھی جسے سعودی عرب نے سنجیدگی سے لینے کے بجائے ٹھکرا دیا ہے ، حالانکہ امریکی افواج 1991 سے سعودی عرب میں موجود ہے۔
ترکی اب ترقی کی راہ پر گامزن ہے ، جسٹ اینڈ ڈیوپلیمنٹ (اے کے پی) پارٹی کی حکومت کے بعد بے نظیر کامیابی حاصل کی ہے ، ترکی کی ترقی سے عالم اسلام کے اندر خود اعتمادی محسوس کی جارہی ہے ، ترکی کے صدر طیب اردگان ملت اسلامیہ کے مفاد سے وابستہ پالیسی پر گامزن ہیں ،ان کا ہراقدام پوری دنیا کے مسلمانوں کے مفاد پر مبنی ہوتا ہے، ان کی پالیسی ان حکمرانوں سے مختلف ہے جن کی توجہ صرف اپنی حکومت اور ریاست کے اردگرد نظر آتی ہے، وہ عالم اسلام کی مشترکہ ترقی چاہتے ہیں، امریکہ اور یورپ کے سامنے جھکنے کے بجائے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنا چاہتے ہیں، ان کی یہ شدید خواہش ہے کہ دنیا کا ہر مسلم ملک اسی اصول پر عمل کرے ، خود طاقتور بنے ، عالمی مقام حاصل کرے ، دوسروں کی مداخلت سے دور رہے، اپنے آپسی معاملے میں کسی اور کو بولنے کا موقع نہ دے، نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر مسلمان اتحاد و یکجہتی کا ثبوت پیش کریں، ملت اسلامیہ کو ان کا کھویا ہوا وقار واپس دلانے اور عظیم الشان عزت عروج دوبارہ بحال کرنے کی فکریں ۔
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں