ملی قیادت کا امتحان

مولانا ندیم الواجدی

دو نو عمر لڑکے اپنے گاؤں جانے کے لئے ٹرین پر سوار ہوتے ہیں، انہیں ہریانہ کے بلبھ گڑھ اترنا ہے جہاں سے وہ اپنے گاؤں کھنڈاؤلی جائیں گے، دو دن بعد عید ہے، اسی دن کے لئے نئے کپڑے اور نئے جوتے خریدنے کے لئے وہ دہلی گئے تھے، انہیں کیا خبر تھی کہ یہ ٹرین ان میں سے ایک کا مقتل بن جائے گی، جس منزل کے لئے وہ اس پر سوار ہور ہے ہیں وہ منزل کبھی نہیں آئے گی، دہلی کے صدر بازار اسٹیشن سے وہ دونوں بھائی ٹرین میں بیٹھے، دونوں روزے سے تھے، ٹرین خالی تھی، دونوں بھائی وقت گزاری کے لئے لڈو کھیلنے لگے، اسٹیشن آتے رہے، مسافروں کی تعداد بڑھتی رہی، اوکھلا سے کافی لوگ سوار ہوئے، ایک عمر رسیدہ شخص نے ان دونوں سے جگہ دینے کے لئے کہا، سادہ لوح معصوم جنید جو عمر کے سولہویں سال میں تھا اپنی جگہ سے اسی وقت کھڑا ہوگیا اور اس شخص کو اپنی جگہ دے دی، اسی دوران کسی نے اسے دھکا دیا، پہلے تو وہ یہ سمجھا کہ شاید غلطی سے ایسا ہواہے، دوبارہ پھر اسے دھکا دیا گیا، تب اس نے نرمی سے کہا کہ ہمیں دھکا کیوں دے رہے ہو، اس کا یہ کہنا تھا کہ دونوں بھائیوں کی داڑھی اور ٹوپی کو لے کر لعن طعن شروع ہوگئی، دیش دروہی، پاکستانی، کٹ ملا، کٹن وغیرہ خطابوں سے انہیں نوازا گیا، کہا گیا کہ تم گائے ماتا کا گوشت کھاتے ہو، تم بھارت میں کیوں ہو، پاکستان جاؤ، کچھ ’’بہادروں‘‘ نے زبان ہی سے ان کی دل چھلنی نہیں کئے بلکہ ہاتھوں سے بھی ان کو مارنا شروع کردیا، ان کے سر کی ٹوپی گرادی، ان کی داڑھی کھینچی، صورت حال بگڑتی دیکھ کر جنید نے زنجیر کھینچنی چاہی، لیکن گاڑی نہیں رکی، شاکر نے گھبراکر اپنے بھائی ارشاد کو فون کیا کہ وہ بلبھ گڑھ اسٹیشن پر آجائے، گاڑی کے بلبھ گڑھ اسٹیشن تک پہنچتے پہنچتے پندرہ بیس لوگ ان کو اچھی طرح سبق سکھا چکے تھے، کئی لوگوں نے چاقو نکال لئے، جنید کو کافی زخم لگے ، زخمی شاکر بھی ہوا، دونوں کے خون سے بوگی کا فرش لالہ زار بن گیا، باقی لوگ تماشائی بنے رہے، کسی ایک نے بھی مارنے والوں کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہیں کی، ہاتھ پکڑنا تو دور کی بات ہے انہیں زبان سے روکنے کی بھی ہمت نہیں کی، اگر ان میں سے کوئی دوسری طرف گرتا تو وہاں بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے لوگ انہیں پھر بھیڑ کی طرف دھکیل دیتے گویا وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ ان کٹ ملاؤں، ان پاکستانیوں کو آج اچھی طرح سبق سکھا دیا جائے، بلبھ گڑھ اسٹیشن پر ان کا تیسرا بھائی منتظر تھا، یہ دونوں بھائی ٹرین سے اترنا چاہتے تھے مگر بھیڑنے انہیں اترنے نہیں دیا، یہاں تک کہ تیسرا بھائی بھی تلاش کرتا ہوا ان تک پہنچ گیا، ان ’’وطن پرست جانبازوں‘‘نے اس کو بھی ٹرین کے اندر گھسیٹ لیا، اور اس کو بھی پیٹنا شروع کردیا، جب تک گاڑی اگلے اسٹیشن تک پہنچ چکی تھی اور یہ تینوں بچے بھی اچھی طرح لہو لہان ہوچکے تھے، جنید کچھ زیادہ ہی زخمی تھا، بھیڑ نے تینوں کو ٹرین سے پلیٹ فارم پر پھینک دیا، انھوں نے مدد کے لئے آواز لگائی، نہ اسٹیشن کے عملے کا کوئی فرد آیا، نہ پولیس آئی، نہ عام آدمیوں میں سے کوئی شخص آگے بڑھا، شاکر نے کانپتے ہاتھوں سے ایمبولینس کو فون کیا، آدھے گھنٹے بعد اس کے دیدار ہوئے، اس وقت تک جنید زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ چکا تھا، شاکر بھی زخمی تھا، مقتول بھائی کا سر اس کی گود میں تھا، وہ پانی پانی کے لئے چلا رہا تھا، کباڑ چننے والے ایک لڑکے کے دل میں ان کے حال پر رحم آیا اور وہ پانی کا ایک پاؤچ خرید کر ان کے پاس لایا، شاکر نے اپنے بھائی کو پانی پلانے کی کوشش کی مگر وہ تو اس سے بے نیاز ہوچکا تھا، یہ کوئی فرض کہانی یا افسانہ نہیں ہے، نہ کسی فلمی سین کی منظر کشی ہے بل کہ اسی دھرتی کا سچا اور حقیقی واقعہ ہے جہاں انسان بستے ہیں، یہ واقعہ اس سرزمین پر پیش آیا جسے گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم بھائی چارے کا گہوارہ کہا جاتا ہے، یہ واقعہ راجدھانی دہلی کی ناک کے نیچے پیش آیا جہاں صدر جمہوریہ، وزیر اعظم، جج، وزراء، ممبران پارلیمنٹ، ممبران اسمبلی، سیاسی پارٹی کے قدر آور لیڈر، اور سول اور فوجی حکام کی بڑی تعداد رہتی ہے۔
بھیڑ کے ذریعے بے قصور مسلمانوں کی پٹائی، اور قتل کی یہ وحشیانہ واردات نئی نہیں ہے، بل کہ دادری کے اخلاق سے قتل کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا چھبیس بے گناہ اور معصوم انسانوں کے قتل کے بعد بھی وہ سلسلہ جاری ہے، آج بھی اخبارات میں دو خبریں ہیں، ایک بہار سے جہاں ایک انیس سالہ مسلم نوجوان کو پولیس کے بہادر جوان نے گھر سے گھسیٹ کر گولی ماردی، دوسری خبر مغربی بنگال سے آئی ہے جہاں تین مسلمانوں کو جانوروں کی چوری کے شبہے میں گاؤں والوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر ڈالا، ان تمام واقعات میں چند باتیں قدر مشترک کے طور پر قابل غور ہیں، ایک تو یہ کہ داڑھی، کرتے اور ٹوپی والوں کے دیکھ کر ہندو شدت پسندوں کے جذبات ان کے قابو میں نہیں رہتے، ان کی زبانیں بے لگام ہوجاتی ہیں، یہاں تک کہ ان کے ہاتھ بھی ان کے بس میں نہیں رہتے، گالم گلوچ اور مار پیٹ کے واقعات تو اکثر پیش آتے ہی رہتے ہیں، کبھی کبھی ان واقعات میں بے قصور لوگوں کی جانیں بھی چلی جاتی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ نہتے اور بے قصور لوگوں کی مدد کے لئے کوئی شخص آگے نہیں بڑھتا، بل کہ اکثر لوگ کھڑے ہوکر تماشہ دیکھتے ہیں یا موبائل سے ویڈیو بنانے میں لگ جاتے ہیں، پولیس بھی اپنا رول صحیح طور پر ادا نہیں کرتی، بعض جگہوں پر پولیس کو موجود پایا گیا لیکن اس نے مارنے والوں کو روکنے کی یا گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی، قتل کے واقعات رونما ہونے کے بعد بھی مجرموں کو گرفتار نہیں کیا جاتا اور اگر کوئی گرفتار بھی ہوجائے تو چشم دید گواہوں کے فقدان کی وجہ سے یا رپورٹ میں قانونی خامیوں اور کمزوریوں کی بنیاد پر اسے رہا کردیا جاتا ہے، سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم اور ان کے ساتھی وزراء، اور صوبوں کے وزراء اعلا سب مہر بہ لب رہتے ہیں، کسی کی زبان سے مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں نکلتا، بل کہ بعض واقعات میں تو مجرمین کی ہمنوائی تک کی جاتی ہے، مرکزی وزارت داخلہ کے سکریٹری راجیو مہرشی کہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کو میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہئے، گویا ان کے نزدیک کسی بے قصور انسان کا قتل کوئی معنی ہی نہیں رکھتا، جنید کے معاملے میں ہریانہ کے وزیر اعلا نے لب کشائی کی ہے، دیکھتے ہیں ان کی حکومت مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کیا اقدامات کرتی ہے۔
بھیڑ کے ذریعے قتل کے واقعات نے ہندوستان کے مسلمانوں کو خاص طور پر نوجوانوں کو جس کرب اور تکلیف میں مبتلا کیا ہے ماضی میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، سب سے پہلے ہمیں اپنے نوجوانوں کو سمجھانا ہوگا کہ وہ صبر واستقامت سے کام لیںاور جوش وجذبات پر قابو رکھیں، اس کے ساتھ ہی ملّی جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان حالات سے نمٹنے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کریں، مولانا محمود مدنی کی جمعیۃ نے اپنا عید ملن پروگرام منسوخ کرکے سمجھداری کا ثبوت دیا ہے، واقعے کے فوراً بعد جمعیۃ کی قیادت نے کھنڈاؤلی پہنچ کر مقتول کے غم زدہ والدین اور اہل خاندان کے ساتھ جس ہمدردی اور غم گساری کا برتاؤ کیا ہے وہ بھی فرض شناسی اور ذمہ داری کی ادائیگی کا ایک حصہ ہے، حکام سے مل کر انھوں نے جنید کے کنبے کے لئے دو سرکاری ملازمتیں اور دس لاکھ روپے نقد دینے کا جو وعدہ لیا ہے اس سے اگرچہ جنید کی کمی پوری نہیں ہوسکتی مگر متأثرین کی کچھ اشک سوئی ضرور ہوسکتی ہے، جمعیۃ کا یہ اعلان بھی قابل تعریف ہے کہ وہ اس مقدمے میں مقتول کے کنبے کی طرف سے وکیل کھڑا کرے گی اور اس واقعے کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچاکر دم لے گی، لیکن مسلم نوجوان اپنی جماعتوں سے کچھ زیادہ چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ تمام ملّی جماعتوں کے قائدین اپنے گروہی اور مسلکی اختلافات بھلا کر بیٹھیں، اور سوچیں کہ انہیں اب کیا کرنا ہے، بے قصور مسلم نوجوانوں کو سسک سسک کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے یا ان کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں، اگر عملی اقدامات پر اتفاق ہوتا ہے تو فوری طور پر ان اقدامات کی نوعیت بھی زیر غور لانی ہوگی، اور اگر کوئی فیصلہ ہوجاتا ہے تو اس پر عمل کا نقشہ بھی طے کرنا ہوگا، اس سے پہلے کہ مسلم نوجوانوں کے جذبات لاوا بن کر پھوٹیں مسلم قائدین کو اپنی جماعتوں کے خول سے نکل کر باہر آنا ہوگا، دیر ہوگئی تو یہ بپھرے ہوئے نوجوان ان کی قیادت کا تار وپود بھی بکھیر سکتے ہیں اور ان کے برانگیختہ جذبات کے لاوے میں ان کا وجود خس وخاشاک کی طرح بہہ بھی سکتا ہے۔
nadimulwajidi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں